Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

جگر مراد آبادی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338645

Access

Open/Free Access

Pages

90

جگر مرادآبادی
حضرت جگر مراد آبادی کاحادثۂ وفات جو ۹ستمبر کی صبح کوگونڈہ میں ستربرس کی عمر میں پیش آیا،اردو شعر وسخن کی دنیا کے لیے اس درجہ المناک ہے کہ اس کی تلخی و شدت عرصہ تک محسوس ہوتی رہے گی۔یہی وجہ ہے کہ اُن کا ماتم ہندووپاک میں جیسا ہمہ گیر ہواہے، اقبالؔ مرحوم کے بعد سے آج تک کسی شاعر کاایسا نہیں ہواتھا۔ اردو شاعری کے دور جدیدنے تغزل کے پانچ عظیم المرتبت مجدد پیدا کیے ہیں: اصغرؔ،حسرتؔ،جگرؔ،فانیؔ اورفراق۔ؔانھوں نے اردو غزل کونیا آہنگ، نیا اسلوب دیا اوراُن تصورات سے اسے پاک وصاف کیاجواب تک روایتی ورثہ کی حیثیت سے چلے آرہے تھے۔اس فہرست میں جگرؔ کانمبر اگرچہ فکر وفن کے اعتبار سے اصغرؔوحسرتؔ کے بعد آتاہے لیکن ہردلعزیزی اورعام مقبولیت میں وہ سب سے بلند اورفائق تھے۔ہرشاعر کاکلام تدریجی ارتقا کی منزلوں سے گزر کرپختگی و پائیداری کے مرتبہ تک پہنچتا ہے جہاں اس کو انفرادیت حاصل ہوتی ہے لیکن بڑے شاعروں کے کلام میں تدیجی ارتقا کی مختلف کڑیوں کامعلوم کرلینا اس قدر آسان نہیں ہوتا جتنا کہ مرحوم کے کلام میں ہے۔المجاز قنطرۃ الحقیقہ کا مقولہ اگر صحیح ہے توحضرت جگرؔ کاکلام اس کی سب سے بڑی روشن دلیل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُن کوشہرت ومقبولیت پہلے عوام میں حاصل ہوئی، پھر طبقۂ خواص میں اُن کے فکر وفن کی عظمت وگیرائی کااعتراف پیداہوا۔اُن کے ابتدائی دور شاعری میں حسن وعشق ِمجازی کے طبعی معاملات اوراُن کے رازونیاز کی حقیقی تصویریں پوری آب وتاب اورعریاں شکل وانداز میں پائی جاتی ہیں،اس لیے ان تصویروں نے حسین ودلکش ترنم کے ساتھ مل کر عوام میں اورخصوصاً نوجوانوں میں ایک قیامت برپاکردی اورہرشخص جگر کے اشعار کا مانا ہوانظر آنے لگا۔لیکن وقت کے امتداد اور شعور وتجربہ کی مختلف آزمائشوں سے گزرنے کے ساتھ مرحوم کے فکر میں حسن کا تصور، مقید سے مطلق اورمجازی سے حقیقی کی طرف ترقی کرتارہا اوراس بنا پراُن کی شاعری کے علائم و رموز بھی لطیف سے لطیف تر ہوتے چلے گئے۔
ابتدامیں رندی وسرمستی اورحسن وعشق کی معاملہ بندی کی وجہ سے اُن کا رنگ فارسی میں حافظؔشیرازی اورعربی میں عمر بن ابی ربیعہ کاتھا۔لیکن آخر میں اُن کے تغزل کامزاج سعدیؔ اورعرفیؔ ونظیری کاقرین بن گیا۔اس میں شک نہیں کہ جگر کو جگر بنانے میں مرحوم کے حسین ودلکش ترنم اورالفاظ کی موسیقیت کو بڑا دخل تھا۔ لیکن عروس اگر جمیل نہ ہو تومحض لباس ِحریر اہل نظر کے لیے کب تک فریب ِچشم و نگہ کاسامان ہوسکتاہے؟
مرحوم اپنے بعض معاصر شعرا کی طرح نہ بسیار گوتھے اورنہ پُرگو۔لیکن یہ اُن کاعیب نہیں ہنرتھا۔اسی بنا پران کی غزل،قطعہ یا نظم کاانتخاب ہوتی تھی، ورنہ بسیارگوئی اتنی بُری بلا ہے کہ اُس کی وجہ سے مصحفیؔ، ناسخؔاور آتشؔ کاذکر نہیں، میرؔومومنؔ تک کے دیوان رطب ویابس سے پُر ہیں۔
شعری وفنی کمالات کے علاوہ اخلاقی اعتبار سے بھی عجیب وغریب خوبیوں کے بزرگ تھے۔اُن کاقلب سراپاسوزوگداز اورانسانی ہمدردی وغمگساری کاپیکر تھا۔ مروت، وضعداری اورلحاظ وشرم اُن کاشیوہ تھا۔ایک عرصہ تک دختررز کی زلف گرہ گیر کے اسیررہے۔لیکن خشیتہ ربانی سے دل کبھی بھی بے پروانہیں رہا۔ حضرت قاضی عبدالغنی صاحب منگلوری ؒسے بیعت تھے۔حضرت اصغر ؔگونڈوی اور والد مرحوم بھی انہیں سے بیعت تھے، اس لیے پیربھائی ہونے کے رشتہ سے تینوں میں بڑااخلاص اورعمیق تعلق تھا۔اسی تقریب سے حضرت اصغرؔ مرحوم کی طرح جگرؔمرحوم بھی راقم الحروف کو بھتیجا سمجھتے اورایک چچا کی طرح بڑی شفقت بزرگانہ رکھتے تھے۔دلّی یا کلکتہ میں جب کبھی آتے مجھ سے ضرورملنے تشریف لاتے اورموقع ہوتا توایک دووقت کھانا بھی کھاتے۔اُن کی مشہور غزل ہے:
بے چین ہے بے تاب ہے معلوم نہیں کیوں
دل ماہی بے آب ہے معلوم نہیں کیوں
مرحوم نے یہ غزل خود دفتر برہان میں بیٹھ کر لکھی تھی اوربرہان کوعطا کی تھی جو اسی ماہ کی اشاعت میں چھپ گئی تھی۔اسی بزرگانہ تعلق کی وجہ سے ہمیشہ’’سعید میاں‘‘کہہ کربلاتے تھے۔رقت قلب کایہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ مکان پر کھانا کھارہے تھے اس وقت حضرت اصغرؔ کی وفات کوپانچ،چھ مہینے ہوچکے تھے۔والد صاحب نے اثنائے طعام میں کہیں اُن کاذکر کردیا۔اس پرمرحوم اس درجہ متاثرہوئے کہ بیساختہ رونے لگے اورگریہ نے اس قدر طول پکڑا کہ پھر وہ ایک لقمہ نہیں کھاسکے۔
ادیبوں اورشاعروں کوعام طورپر زمانہ کی ناقدری کاشکوہ ہوتاہے لیکن مرحوم کی خود زندگی میں وہ قدرہوئی جوارباب کمال کی عموماً مرنے کے بعد ہوتی ہے۔ اُن کی قدرمرکزی حکومت نے بھی کی اوراسٹیٹ گورنمنٹ نے بھی۔ساہتیہ اکیڈیمی نے’’آتش ِگل‘‘ پر پانچ ہزار روپیہ کاگراں قدر انعام دیا۔علی گڑھ یونیورسٹی نے اُن کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔بمبئی والوں نے ایک بڑی رقم کی تھیلی پیش کی۔شہرت وہردلعزیزی اورعظمت دومختلف چیزیں ہیں،ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم نہیں ہیں اوراس لیے ضروری نہیں کہ کسی شخص کے لیے ایک چیز پائی جائے تودوسری بھی پائی جائے۔اقبالؔ اوراصغرؔ وحسرتؔ کی طرح مرحوم کویہ دونوں باتیں بیک وقت حاصل تھیں اورکوئی شبہ نہیں کہ اس میں بڑا دخل فن کاری کے علاوہ اُن کے کردار اوراخلاق کوبھی تھا۔جنگ کے زمانہ میں حکومت کاآلۂ کار بن کربڑے بڑے’’وطن پرست‘‘شاعروں نے ہزاروں کے وارے نیارے کرلیے یافلم کمپنیوں سے وابستہ ہوکر دولت مند ہوگئے لیکن جگر ؔنے اس ننگ وعارکوکبھی گوارا نہیں کیا۔اُن کی اسی بے نیازی اوراستغناء کانتیجہ تھا کہ دنیا اُن کے قدموں پرجھک گئی اورہرشخص اُن کے کردار کی بلندی کااعتراف کرنے لگا۔
مرحوم کی رقت قلب نے روحانی سوزوگداز کی شکل اختیار کرلی تھی اوراب آخر میں بسااوقات اُن پرجذب کی سی کیفیت طاری رہنے لگی۔ محویت اور استغراق میں شدت پیداہوگئی تھی۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات سے والہانہ عشق تھا۔اسی کانتیجہ تھاکہ حج وزیارت حرمین شریفین کاپورا سفر بڑے جذب و شوق کے ساتھ کیا۔انانیت اورخودپسندی کاکہیں نام ونشان تک نہ تھا۔عجزوفروتنی اور انکسار وتواضع شیوۂ طبعی تھے۔دین اوراُس کے شعائر کااحترام اس درجہ تھاکہ کسی سے اُس کے خلاف کوئی لفظ تک سننا گوارا نہیں کرسکتے تھے۔وہ آخر میں جوکچھ بن گئے تھے اُس میں اُن کی طبعی صلاحیت واستعدادکے علاوہ اُن کے پیرومرشد اورحضرت اصغرؔ گونڈوی کے فیضان توجہ وتربیت کابھی بڑادخل تھا۔اب ایسے باکمال وباوضع لوگ کہاں ملیں گے؟ اﷲ تعالیٰ مغفرت وبخشش کی رحمتوں سے نوازے۔
[اکتوبر۱۹۶۰ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...