Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا محمد شفیع [دیوبند]

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا محمد شفیع [دیوبند]
Authors

ARI Id

1676046603252_54338646

Access

Open/Free Access

Pages

91

مولانا محمد شفیع
افسوس ہے پچھلے دنوں مدرسۂ عبدالرب دہلی کے بہت دیرینہ صدر المدرسین جناب مولانا محمد شفیع صاحب کی ڈیڑھ سال کی مسلسل علالت کے بعد اپنے وطن دیوبند میں وفات ہوگئی۔ مولانا نے عمر کافی پائی۔ ۱۲۹۲ھ میں پیداہوئے تھے اور۱۶/جمادی الاول۱۳۸۰ھ میں انتقال ہوا۔ لیکن آخر تک درس و تدریس اور مدرسہ کے اہتمام و انتظام کاکام حاضرحواسی اورپابندی سے کرتے رہے۔ دارالعلوم دیوبند سے۱۳۱۶ھ میں فراغت کے بعد چند سال ادھر اُدھر رہے۔ پھر اپنے وقت کے مشہور محدث مولانا عبدالعلی صاحب جواُن کے استاد بھی تھے اُن کی دعوت پرمدرسۂ عبدالرب دہلی سے وابستہ ہوئے توساری عمر یہیں بتا دی، چنانچہ ساٹھ برس اس مدرسہ کی خدمت کرتے رہے۔حضرت شیخ الہندؒ کے داماد تھے۔حضرت مرحوم کی منجھلی صاحبزادی جو اخلاق وشمائل میں مشابہ ہونے کے باعث پدربزرگوار کی نسبتہً زیادہ چہیتی بیٹی تھیں، مولانا سے منسوب تھیں اور اسی وجہ سے حضرت شیخ الہند کو بھی مرحوم کے ساتھ زیادہ لگاؤ تھا، غالباً اسی شفقت اور تربیت روحانی کا اثر تھا کہ عادات واطوار کے لحاظ سے اُن میں بعض ایسی خوبیاں پائی جاتی تھیں جوآج کل نایاب نہیں توکمیاب ضرور ہیں، درویشی اور قناعت پسندی کایہ عالم تھاکہ کھدر کے موٹے جھوٹے کپڑوں کے علاوہ تیسرا جوڑا کبھی بھی نہیں رکھا۔اپنے کمرہ میں بجلی کی روشنی کبھی گوارا نہیں کی،ہمیشہ کڑوے تیل کا دیا جلائے رہے۔ کھانا بہت سادہ کھاتے تھے۔ شہرت سے اس درجہ نفرت تھی کہ وفات سے پہلے اپنے خلف الرشیدمولانا محمد رفیع کو بطور وصیت تاکید کی کہ ان کے انتقال کی خبر بھی کسی اخبار میں نہ چھپے۔علم دین کے پاسِ وضع کا اس درجہ خیال تھا کہ پہلے پہل میرا تقرر سنیٹ اسٹیفنس کالج میں ہوا جومشن کالج ہے توانھیں صدمہ ہوااوربرادرمحترم مفتی عتیق الرحمن صاحب سے جو مرحوم کے بھانجے ہیں اس کی شکایت کی۔ مدرسہ کے ساتھ تعلق اس قدر گہراتھا کہ ۱۹۴۷ء کے ہنگامۂ داروگیر میں مدرسۂ عبدالرب جس علاقہ میں واقع ہے یہ علاقہ مسلمانوں سے بالکل خالی ہوگیا تھااور قرب وجوار میں کوئی مسلمان کہیں نظرنہ آتا تھا۔ شہر میں آگ لگی ہوئی تھی لیکن عمائد جمعیت کے پیہم اصرار کے باوجود مولانا نے ایک منٹ کے لیے بھی مدرسہ سے باہر آنا گوارا نہیں کیا۔اس پوری مدت میں تن تنہا مدرسہ کے درودیوار سے لگے بیٹھے رہے۔ علاوہ ازیں بڑے عابدوزاہد اور صاحب معرفت وباطن تھے۔ باتیں بھولے پن سے کرتے تھے مگر بڑی نصیحت آموز اورحکیمانہ ہوتی تھیں۔اب ایسے علماء جو سیرت و عادت میں اسلاف کا نمونہ ہوں خال خال ہی رہ گئے ہیں۔ برداﷲ مضجعہ ونورضریحہ۔
[جنوری۱۹۶۱ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...