Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

ڈاکٹر مولوی عبدالحق
Authors

ARI Id

1676046603252_54338650

Access

Open/Free Access

Pages

93

ڈاکٹرمولوی عبدالحق
افسوس ہے پچھلے مہینے ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے۹۲برس کی عمر میں مری میں انتقال کیا اورکراچی میں دفن ہوئے۔وہ غالباً علی گڑھ کے سب سے پرانے طالب علم تھے جنھوں نے سرسید احمد خاں،مولانا شبلی اورمولانا حالی اوراُس زمانہ کے دوسرے اکابر علم وادب سے استفادہ کیااوراُن کی صحبتوں اورمجلسوں سے فیض پایا تھا۔وہ۱۸۷۱ء میں ضلع میرٹھ کے ایک قصبہ ہاپوڑ میں پیداہوئے۔یہاں مڈل تک تعلیم پائی، پھر علی گڑھ چلے آئے اوریہاں سے۱۸۹۴ء میں بی۔اے کاامتحان پاس کیا، اس کے بعد حیدرآباد منتقل ہوگئے جہاں اُن کی زندگی کے بہترین ایام بسرہوئے۔ ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے پھر انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پرفائز ہوئے۔اُس سے ترقی کی تواورنگ آبادکالج کے پرنسپل بنائے گئے۔اس کے بعد مولوی وحیدالدین سلیم کاانتقال ہواتواُن کی جگہ جامعۂ عثمانیہ میں اردو کے پروفیسر مقررہوئے۔موصوف جہاں اورجس حیثیت میں رہے اپنی لیاقت و قابلیت،حسن کارگردگی اورفرض شناسی کے باعث نمایاں اور ممتازہوکررہے لیکن قدرت نے جس اصل کام کے لیے پیداکیا تھا اورجس کے باعث انھیں بڑی شہرت اورعظمت نصیب ہوئی وہ ابھی تکمیل کے لیے اُن کے واسطے چشم براہ تھا۔چنانچہ جب وہ انسپکٹر آف اسکولز تھے انہی دنوں(۱۹۱۲ء) میں انجمن ترقی اردو کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔انجمن اب تک محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی ایک شاخ کی حیثیت رکھتی تھی لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے اس کواتنی ترقی دی کہ وہ جلد ہی ایک مستقل انجمن بن گئی اوراس کی سرگرمیوں کاحلقہ وسیع ترہوتا چلا گیا۔
انجمن کے سیکرٹری منتخب ہونے سے لے کر اپنی زندگی کے آخری سانس تک موصوف نے اردو زبان وادب کی ہمہ جہتی خدمات جس محنت و استقلال، عزم وہمت اورایثارو قربانی کے ساتھ کم وبیش ایک نصف صدی تک انجام دی ہیں وہ صرف اردو زبان وادب کے حلقوں میں نہیں بلکہ تاریخ کے بڑے لوگوں کی صف میں جگہ دینے کے لیے کافی ہیں۔ وہ بیک وقت اردو کے صاحب طرز ادیب اورمحقق بھی تھے اوربلندپایہ خاکہ نگار ولغت نویس بھی، اونچے درجہ کے مؤلف ومصنف بھی اورمترجم بھی۔وہ خود بھی بے تکان اورپابندی سے کام کرتے تھے اوردوسروں سے کام لینا اورانھیں کام کاآدمی بنانا بھی خوب آتاتھا۔بڑھاپے میں اس مستعدی اورحاضر حواسی سے اپنے فرائض انجام دیتے تھے کہ اچھے اچھے نوجوان بھی اُن کے سامنے پانی بھرتے نظرآتے تھے۔ انھیں اردو زبان کے ساتھ سچ مچ والہانہ عشق تھااور اس کے لیے انھوں نے اپنی ہرچیز قربان کردی تھی۔ تقسیم کے بعد موصوف دلّی سے کراچی منتقل ہوگئے (اورواقعہ یہ ہے کہ اُن کا یہ انتقال بہت ہی مجبوری کی حالت میں ہوا ورنہ وہ ہندوستان میں رہ کراردو کے لیے مرجانے کی آس لگائے بیٹھے تھے)اورخیال تھاکہ وہاں اردو کو مخالفتوں سے واسطہ اور اپنوں کی بے توجہی کا گلہ نہ ہوگا۔ لیکن اس کے برعکس انھیں وہاں بھی اردو کے لیے اپنوں اوربیگانوں سے وہی جنگ کرنی پڑی جووہ ہمیشہ کرتے چلے آئے تھے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت نے بے شبہ اُن کی قدرشناسی کی اور اب وہ اس قابل ہوئے تھے کہ حکومت کی توجہ اورامداد سے اردو کاکام خاطر خواہ انجام دے سکیں گے مگراب اُن کاپیمانۂ حیات لبریز ہوچکا تھا:
ہائے کس وقت ہوئیں دونوں مرادیں حاصل
یار بالیں پہ جو آیا تو قضا بھی آئی
[ستمبر۱۹۶۱ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...