Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولاناسید عطا ء اﷲ شاہ بخاری

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولاناسید عطا ء اﷲ شاہ بخاری
Authors

ARI Id

1676046603252_54338651

Access

Open/Free Access

Pages

94

مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری
ابھی مولوی عبدالحق کودنیا سے سدھارے پوراایک ہفتہ بھی نہیں ہواتھا کہ مولانا سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری کے ملتان میں وفات پاجانے کی خبرملی۔اناﷲ واناالیہ راجعون۔شاہ جی نجیب الطرفین یعنی والد اوروالدہ دونوں کی طرف سے سید تھے۔حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی،سید محمد شاہ بخاری اورسید عبدالغفار بخاری جو اکابر اولیاء وصوفیاء میں سے تھے اسی خاندان کے مورثان اعلیٰ میں سے ہیں۔ شاہ جی کے خاندان میں جو بزرگ سب سے پہلے ہندوستان آئے وہ سید اکمل الدین بخاری تھے جنھوں نے حضرت شاہ غلام علی دہلوی سے سند خلافت حاصل کرکے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد حکومت میں پنجاب کے ضلع گجرات میں مستقل بودوباش اختیارکرلی تھی۔ مرحوم کی والدہ سیدہ فاطمہ اوراُن کے دادا میر سید عبدالسبحان کشمیر سے منتقل ہوکر عظیم آبادپٹنہ میں آبسے تھے، ان کی بیٹی حضرت خواجہ باقی باﷲ کی نواسی تھیں۔ اس طرح خواجہ شاہ جی کے ننھیالی بزرگوں میں شامل ہیں۔شاہ جی کی والدہ کے انتقال کے بعداُن کے والد سید ضیاء الدین نے بیٹے کو نانا نانی کے پاس چھوڑا اورگجرات لوٹ آئے جہاں عقد ثانی کرلیا۔اس طرح شاہ جی کی ابتدائی تعلیم وتربیت پٹنہ میں ہوئی جودلی اورلکھنؤ کے بعد اردو زبان اورشعروشاعری کاتیسرا مرکز تھا اوراُسی کااثرتھا کہ شاہ جی نسلاً پنجابی ہونے کے باوجود اردوزبان ٹکسالی بولتے اور اُس کے محاورات وضرب الامثال پربڑی قدرت رکھتے تھے۔
مرحوم کسی مدرسہ کے باقاعدہ فارغ التحصیل نہیں تھے۔انھوں نے عربی فارسی کی ابتدائی کتابیں نانا سے پڑھیں۔نانی سے اردوبول چال کی زبان سیکھی۔ شادعظیم آبادی کے اس خاندان سے ذاتی مراسم تھے۔اس تقریب سے شاہ جی کو بھی شادعظیم آبادی کی صحبتوں میں بیٹھنے اوراُن سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ ذہانت و فطانت خداداد تھی نتیجہ یہ ہواکہ کم عمری میں ہی پختہ ہوگئے،دماغ چمک اٹھا اور زبان منجھ گئی پھر پٹنہ سے نکل کرمختلف علماء سے وقتاً فوقتاً کبھی تفسیر، کبھی حدیث اورفقہ کادرس لیتے رہے لیکن وہ بھی بے ضابطہ اوربے قاعدہ۔
شاہ جی یوں توعلم وفضل اورسیرت واخلاق کی بہت سی خوبیوں اورکمالات کے جامع تھے جن کی وجہ سے لوگ اُن کی دل سے قدراور عزت کرتے تھے لیکن ان کاسب سے بڑاکمال جس میں کوئی اُن کا ہم عصر اُن کاشریک نہیں ہوسکتا تھا وہ ان کاکمال خطابت وتقریر تھا۔گھنٹوں یکساں روانی،جوش اورفصاحت وبلاغت کے ساتھ بولتے تھے اورکیا مجال کہ ایک شخص بھی اکتا کرمجلس سے اُٹھ جائے۔یہ معلوم ہوتا تھاکہ تقریر نہیں کررہے ہیں نشہ پلارہے ہیں، سامعین توسامعین فضا تک پر معلوم ہوتاہے سُکر کاعالم طاری ہوگیا ہے۔بڑ ے سے بڑا مخالف بھی اُن کی تقریر سنتا تھا اورجھومتا تھا۔اُن کے پاس اعجاز بیان اور سحر خطابت کاایسا کارگر حربہ تھا کہ اگر وہ چاہتے تواپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے اس سے زیادہ سے زیادہ کام لے سکتے تھے لیکن اُن کی بے نفسی کایہ عالم تھا کہ تحریک خلافت، مجلس احرار، کانگریس اورجمعیۃ علماء، ہرمیدان میں صرف ایک سپاہی بنے رہے دوسروں کے تابع رہ کرکام کیا لیکن کبھی خودقائد نہیں بنے۔ لیکن ہمارے نزدیک دینی اعتبار سے شاہ جی کے لیے اس سے بڑا کوئی دوسرا شرف اورمقام نہیں ہوسکتاتھا کہ جب انھیں امیر شریعت منتخب کیا گیا توسب سے پہلے حضرت الاستاذ مولانا سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری نے جواس زمانہ میں علم وفضل میں اﷲ کی حجت تھے، شاہ جی کے ہاتھ پر بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ بیعت کی۔یہ صرف دنیا کاہی سب سے بڑااعزاز نہ تھا بلکہ یہ بیعت انوری اس کی بھی ضمانت تھی کہ اﷲ کے ہاں ان کا حسن عمل اوردینی ولولہ وجوش مقبول ہوچکا ہے اورآج وہ دنیا میں نہیں ہیں تو امید قوی ہے فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی کی دعوت قدس کے خلعت فاخرہ سے سرفراز وشاد کام ہورہے ہوں گے۔اللھم اغفرلہ وارحمہ رحمۃ واسعۃ۔ [ستمبر۱۹۶۱ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...