Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338655

Access

Open/Free Access

Pages

95

کل من علیھا فان
آہ!کیونکر کہیے! جس کا کھٹکا شروع سے لگا ہوا تھا آخروہی ہو کر رہا۔ آٹھ، نو مہینے کی اس درمیانی مدت میں رہ کر وہ کونسا اعلیٰ سے اعلیٰ علاج تھا جس میں کوئی دقیقہ اٹھا کے رکھا گیا نہ ہو۔سیکڑوں ختم بخاری شریف کے ہوئے۔ہزاروں لاکھوں، اﷲ کے نیک بندوں نے دعائے شبانہ کی ۔ اکابر و بزرگان ملت نے غلاف کعبہ پکڑ کرمنتیں مانیں۔ مگر جو مشیت کافیصلہ تھا وہ ہوکر رہا اور۲/اگست کوآخری شب میں ملت اسلامیہ کے ترکش کاخدنگ آخریں،علم وفضل کے خزانہ کاگوہر شب چراغ، درج شرف ومجد کا در تابندہ،اخلاق وفضائل کاپیکر،ملک اورقوم کی دساور کا متاع گرانما یہ اس عالم ناسوت کوخیرآباد کہہ کر ہمیشہ کے لیے جداہوگیااور اور دنیا کوایک ماتم سرابنا گیا۔اناﷲ واناالیہ راجعون۔عربی کے مشہور شعر میں قیس کی جگہ’’حفظ‘‘رکھ دیجیے تومعلوم ہوگا کہ یہ شعر عرصہ پہلے کسی نے اسی موقع کے لیے کہا تھا:
وماکان حفظ ھلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم تھدما
مولانا حفظ الرحمن یوں ہونے کو توکیا نہیں تھے۔علوم وفنون اسلامیہ کے بلندپایہ عالم،متصوف،مصنف،ولولہ انگیز خطیب اورمقرر،جنگ آزادی کے سپہ سالار اور ہیرو، مخلص اوربے لوث خادم ملک وملت سبھی کچھ تھے۔ مگر ملک کی آزادی کے بعد اُنھوں نے جو رول ادا کیاہے اُس کی تاریخ اس قدر شاندار ہے کہ اس میں کوئی ایک شخص بھی اُن کاحریف وسہیم نہیں ہوسکتا۔بے لوث اورجانبازانہ خدمت کی وجہ سے اُن کے قومی کارناموں کاریکارڈ اس درجہ بے داغ تھا کہ اُن کابڑے سے بڑا مخالف بھی اس پرحرف گیری نہیں کرسکتا تھا۔اس کے علاوہ صاف دماغی اورمعاملہ فہمی کایہ عالم تھا کہ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات اور بلندپایہ ارباب سیاست کے مجمع میں بیٹھتے تھے اوراُن سے اپنی بات منواکر اُٹھتے تھے۔ پھر حق گوئی اورجرأت کی یہ شان کہ جس چیز کوحق سمجھا اسے برملا کہا اور ہر جگہ کہا۔اس راہ میں اُن کونہ اپنوں کی پروا ہوئی اورنہ پرایوں کی۔ فکر کی بلندی و آزادی اور جرأت حق گوئی کے باوجود اُن کاظرف اس درجہ وسیع اورقلب اس قدر فراح اورکشادہ تھا کہ بغض وعناد کبھی کسی شخص سے نہیں رکھا۔دشمن سے بھی اسی خندہ پیشانی سے ملتے تھے جس سے اُن کے دوست بہرہ مند تھے اور وقت پڑتا تھا تواُن کی جو مدد بھی وہ کرسکتے تھے بے دریغ کرتے تھے۔خدمت کی راہ میں اپنے اورغیر، دوست اور دشمن، موافق اورمخالف اُس کا امتیاز انھوں نے کبھی روا نہیں رکھا۔کام سے نہ کبھی گھبراتے اورنہ اکتاتے تھے۔اُن کی زندگی ایک مشین کی طرح تھی جوبرابر متحرک رہتی تھی۔کھانا پینا،آرام اورراحت، چین اور سکون اس کی کبھی پروا نہیں کی۔یہ وہ خاص اوصاف وکمالات تھے جن کے باعث وہ عوام میں اورخواص میں، حکومت میں، ہندوؤں میں اور مسلمانوں میں، ہرطبقہ اورہرگروہ میں بے حدعزت واحترام سے دیکھے جاتے تھے۔اُن میں مقبول اورہردلعزیز تھے اور اُن کی بات کاہرایک پراثر ہوتاتھا۔اُن کی زندگی بالکل عوامی زندگی تھی،نہ در نہ دربان نہ کوئی روک ٹوک،ہرشخص اُن سے ہروقت مل سکتا تھا۔ یہ وہ اوصاف تھے جوآج بیک وقت مشکل سے کسی ایک شخص میں یکجا نظرآئیں گے۔ اسی وجہ سے اُن کی شخصیت سب سے نمایاں اوربرتر اوربڑی حسین ودلکش اور جاذب نظر تھی۔وہ صرف’’مجاہد ملت‘‘نہیں تھے جیسا کہ لوگ عام طورپر انھیں سمجھتے اورلکھتے تھے بلکہ درحقیقت اس خود غرضی کی مادی دنیا میں انسانی شرف ومجد کی آبرو، اعلیٰ اقدار حیات کی عزت اورشرافت ونجابت کی مکمل تصویر تھے۔اس لیے صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ملک ووطن کے ہرفرد اورہرشخص کے لیے اُن کی زندگی نمونۂ عمل اورلائق تقلید تھی۔ کانگریس اورجمعیۃ علماء کی ہنگامہ آفریں تاریخ میں بارہا ایسے نازک اور پیچیدہ مواقع آئے ہیں جب کہ اُن کے ناخن فہم وتدبر نے عقد ہائے مشکل کی گرہ کشائی کرکے ان دونوں اداروں کو عظیم خطرات سے بچا لیاہے۔ چنانچہ۳/اگست کی شام کودلی کے دربار ہال میں تعزیتی تقریر کرتے ہوئے موجودہ صدر کانگریس شری سنجیواریڈی اورہوم منسٹرلال بہادر شاستری جی نے اوراس کے بعد ایک اور جلسہ میں پنڈت جواہر لال نہرو اور دوسرے زعماء نے صاف لفظوں میں اس کااعتراف کیاہے۔وہ جمعیۃ علمائے ہند کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اورآخر تک رہے، پارلیمنٹ کے ممبر چنے گئے تو اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے۔وجہ یہی ہے کہ جس کام کووہ ہاتھ میں لیتے تھے اسے اس خوبی، تندہی اورخلوص وقابلیت سے انجام دیتے تھے کہ پھر اُن کی قائم مقامی کرنے کے لیے کوئی دوسراشخص نظرنہیں آتاتھا۔حقیقت یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے بعد یہ دوسرے شخص تھے جنھوں نے مدرسہ کے بوریوں پربیٹھ کرقدیم تعلیم حاصل کرنے کے باوجود عام ہندواورمسلمانوں کے علاوہ انگریزی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی اپنی ذہانت وذکاوت، معاملہ فہمی ودوراندیشی اور قوت عمل سے اس درجہ غیر معمولی طورپر متاثر کیا تھا۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تعلیم قدیم وجدید کافرق کوئی فرق نہیں ہے۔ دماغ روشن اوردل بیدار ہو تو ہر انسان ہرمجلس میں ممتاز اورقائد بن کررہ سکتا ہے۔
یہ تومولانا کے وہ اوصاف و کمالات ہیں جواُن کی پبلک زندگی سے واقفیت رکھنے والا ہرشخص جانتا اور محسوس کرتا ہے،ان کے علاوہ ہم پس رہروان کاروانِ عدم نے رفقائے کار کی حیثیت سے خلوت میں اور جلوت میں گھر میں اور دفتر میں۔غرض کہ زندگی کے ہرمرحلہ اورہرموڑ میں کم وبیش مسلسل چالیس برس تک مرحوم میں کیریکٹر کی بلندی،کردار کی پختگی،خوبی اورقلب ونظر کی پاکبازی وپاک طینتی کے جوحسین ودلکش اورگوناگوں مناظردیکھے ہیں انہیں قلمبند کرنے کے لیے فرصت اورایک دفتر درکار ہے۔صحیح معنیٰ میں ہربڑے انسان کی پبلک زندگی میں اُس کاجوکردار نظر آتاہے وہ دراصل صرف ایک پرتوہوتاہے اُس کے جوہر فطرت وطبیعت کاجس کے سورج کا مطلع خود اس کا اپنا گھر ہوتا ہے۔ آہ! اب اُن کی کس کس بات کویاد کرکے روئیے اورکس کس خوبی کاتذکرہ کرکے دامان دل وفنا کوخوننابۂ جگر کے قطروں سے لالہ زار بنایئے۔ان سطور کی تحریر کے وقت جب کہ قلب ودماغ پر حسرت کے ساتھ گمشدگی وحیرت کی جو کیفیت طاری ہے قلم آخر لکھے توکیالکھے :
سماں کل کارہ رہ کے آتا ہے یاد
ابھی کیا تھا اورکیاسے کیا ہوگیا
اﷲ اکبر!آپ کا شوق تیزرفتاری بھیا!اورہرچیز میں یہاں تک کہ کھانے پینے،چلنے بولنے اورتقریر کرنے میں بھی اپنے ساتھیوں پرسبقت لے جانے کا جذبہ! آخر یاایتھاالنفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک کی دعوت پرلبیک کہنے میں بھی وہی جذبہ کارفرما رہا نا! اور اس منزل میں بھی اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہنا طبع غیور کوگوارانہ ہوا۔اچھا خیر یہی سہی۔مگر پھر یہ طعنۂ پسماندگی کیسا!آپ عقلمندوں کے عقل مند اورفرزانوں کے فرزانہ تھے مگر آج عمر میں پہلی بار اور آخری بار بھی غالبؔ کے لفظوں میں آپ کو نادان کہنے کا جی چاہتا ہے ہرچند کہ اس گستاخی پرطبیعت شرمندہ اورمنفعل ہی ہے۔
نادان ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالبؔ
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃً [اگست۱۹۶۲ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...