Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولوی محمد عبدالرحمن خاں

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولوی محمد عبدالرحمن خاں
Authors

ARI Id

1676046603252_54338657

Access

Open/Free Access

Pages

98

مولوی محمد عبدالرحمن خاں
افسوس ہے کہ مخدومی جناب مولوی محمد عبدالرحمن خاں صاحب صدر حیدر آباد اکاڈمی کی رحلت پریہ کلماتِ تعزیت بہت تاخیرسے پیش کیے جارہے ہیں۔ مرحوم اپنے وقت کے بہت بڑے فاضل، علومِ جدیدہ کے محقق، ماہرِ فلکیات اور بہت سی قابلِ قدر انگریزی اور اردو کتابوں کے مصنف تھے۔ ندوۃ المصنفین سے نہایت گہرا اور مخلصانہ ربط وتعلق رکھتے تھے اور ہمیشہ اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے رہتے تھے ۔۱۹۴۴ء میں ادارے کے تعارف اور اس کے حلقوں کی توسیع کے سلسلہ میں حیدرآباد جانا ہوا توجن بزرگوں نے اس خدمت میں بیش از بیش حصّہ لیا تھا اُن میں مرحوم کا نام سرفہرست تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی بعض گراں قدر تالیفات کے مسودے بھی کسی معاوضے کے بغیر ’’ندوۃ المصنفین ‘‘ کے حوالے کردیے ،چنانچہ ’’قرونِ وسطیٰ کے مسلمانوں کی علمی خدمات‘‘، ’’تاریخ اسلام پرایک طائر انہ نظر‘‘ اور ’’تحفۃ النُظّار‘‘(خلاصہ سفرنامہ ابن بطوطہ)جو مرحوم کی نہایت مفید ،تحقیقی اور اہم تالیفات ہیں اسی ادارے سے شائع ہوئی ہیں۔
اس صدی کے شروع میں ’’جامعہ عثمانیہ‘‘ کے قیام کاجو خواب دکن کے ارباب ِ علم وفضل نے دیکھا تھا اس کی تعبیر میں جتنا عملی حصّہ خاں صاحب مرحوم کا تھا کسی دوسرے کاکم ہی ہوگا۔مرحوم کم وبیش پچیس سال تک اس عظیم الشان ادارے کے نہ صرف صدر رہے بلکہ اپنے خلوص،محنت ودیانت ،عزم وہمّت اور بے پناہ جذبۂ عمل سے اس میں زندگی کی روح پھونک دی ،پھر وہ وقت بھی آیا کہ جامعہ کے تمام قدیم وجدید شعبوں میں اُردو کوذریعہ تعلیم بنانے والایہ فاضلِ اجل حیدرآباد کے جاگیر دارانہ نظام کی سازشوں کاشکار ہوکر گوشہ نشین ہوگیا اور رفتہ رفتہ اس کے کارنامے طاقِ نسیاں کی نذر ہوگئے۔مگر گردشِ لیل ونہار کی ستم ظریفی بھی قابلِ ملاحظہ ہے کہ ۴۷ء کے انقلاب کی آندھی اپنی تمام ہلاکت خیزیوں کے ساتھ آئی اور جامعہ عثمانیہ کی تمام بنیادی خصوصیتوں کوخس وخاشاک کی طرح بہاکر لے گئی۔ انقلاب! اے انقلاب! خاں صاحب مرحوم اگرچہ آج ہم میں نہیں ہیں اور جامعہ عثمانیہ بھی اپنی خصوصیات کے اعتبار سے مرحوم ہوچکی ہے مگراُن کے شاندار تعمیری کارنامے جواُنھوں نے اپنے سیکڑوں شاگردوں اور فیض پانے والے اصحابِ علم کی ذہنی اوردماغی تربیت کے لیے انجام دئیے ہیں عبرت کدۂ دکن کی لوح پرہمیشہ ثبت رہیں گے اور زمانے کاکوئی انقلاب اُن کو ہٹا نہیں سکے گا۔ رَحمہٗ اﷲُ رحمۃً واسعۃً۔ [اکتوبر ۱۹۶۲ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...