Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا محمد بن موسیٰ میاں سملکی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا محمد بن موسیٰ میاں سملکی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338666

Access

Open/Free Access

Pages

100

مولانا محمد بن موسیٰ سملکی
جوحضرات دارالعلوم دیوبند سے عموماً اورحضرت الاستاذ مولانامحمد انورشاہ الکشمیری سے خصوصاً تعلق ورابطہ رکھتے ہیں، اُن کویہ معلوم کرکے بڑاصدمہ ہوگا کہ پچھلے دنوں مولانا محمد بن موسیٰ میاں سملکی کاانتقال جوہانسبرگ (جنوبی افریقہ) میں ہوگیا، موصوف گجرات کے ایک نہایت معزز اورمتمول خاندان کے چشم وچراغ تھے، اﷲ تعالیٰ نے اس خاندان کودولت اور دین دونوں نعمتوں سے مالا مال کیاہے، چنانچہ تجارت کے سلسلہ میں یہ خاندان ایک عرصہ سے جوہانسبرگ میں مقیم ہے اوردین داری کے تقاضہ سے اس خاندان کو دارالعلوم دیوبند اوراس کے اکابر سے دیرینہ وپختہ عقیدت و ارادت مندی کا تعلق رہا ہے، اسی تعلق کا نتیجہ تھاکہ مرحوم دارالعلوم دیوبند آئے، اورچند سال رہ کر علومِ دینیہ و اسلامیہ کی تحصیل وتکمیل کی۔راقم الحروف بھی اس زمانہ میں دیوبند میں زیرِ تعلیم تھا اور مرحوم ہم درس وخواجہ تاش تھے۔ مرحوم کا مقصد صرف رسمی طور پر پڑھنا پڑھ لینا نہیں تھا بلکہ روحانی اوراخلاقی تعلیم وتربیت حاصل کرنا بھی تھا،اس لیے اوقاتِ درس کے علاوہ وہ حضرات اکابر کی خدمت میں حاضر رہتے اوراُن کافیضِ صحبت اُٹھاتے تھے۔اس سلسلہ میں اُن کو حضرت شاہ صاحب ؒ سے خاص تعلق پیدا ہوا، جس نے بڑھتے بڑھتے یہ صورت اختیار کرلی کہ گویا مرحوم حضرت الاستاذ کے خاندان کے ایک فرد ہی تھے۔ اُن کو حضرت کے ساتھ صرف عقیدت وارادت نہیں بلکہ درحقیقت عشق تھا، اور اس تعلق کی بناپر حضرت الاستاذ کے تمام تلامذۂ خصوصی کے ساتھ بھی اُن کا معاملہ اور برتاؤ بالکل برادرانہ تھا۔ قدرت نے انہیں سب کچھ دے رکھاتھا،اس لیے انھوں نے خود حضرت ؒ کی زندگی میں آپ کی اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے متعلقین کی دل وجان سے عمربھر وہ خدمت کی کہ کسی شاگرد نے کم کسی استاد کی ایسی خدمت کی ہوگی۔ اسی تعلق کانتیجہ تھاکہ مرحوم نے حضرتؒ کی یادگار میں مجلسِ علمی کے نام سے ایک وقیع ادارہ لاکھوں روپیہ کے خرچ سے قائم کیااور اسے ترقی دی۔ اس ادارہ کی طرف سے مختلف بلند پایہ کتابوں کے علاوہ حضرت شاہ صاحبؒ کی جملہ تصنیفات وتالیفات اور افادات بڑے اہتمام اورانتظام سے شائع ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے جیساکہ مرحوم نے راقم الحروف کوایک مرتبہ لکھاتھا۔اُن کی تمنا یہ تھی کہ حضرت شاہ صاحب ؒ کی زبان وقلم سے نکلا ہوا کوئی لفظ بھی بغیر اشاعت کے نہ رہے، مرحوم کی آرزو یہ بھی تھی کہ حضرت الاستاذ کی ایک ایسی جامع سوانح عمری مرتب ہوجائے جوآپ کے شایانِ شان ہو، اس سلسلہ میں مجلسِ علمی نے نفحۃ العنبر کے نام سے ایک کتاب شائع کی ہے مگراس سے حق ادا نہیں ہوتا، خودمرحوم کوبھی اس کااحساس تھا۔حضرت الاستاذ کی ایک جامع سوانح عمری جومسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ایک لکچرر ڈاکٹریٹ کے لیے راقم الحروف کی نگرانی میں بڑی محنت اور لگن سے مرتب کررہے ہیں، انشاء اﷲ ضرور شائع ہوگی۔مگرافسوس ہے جس کوسب سے زیادہ اس کتاب سے خوشی ہوتی اب وہ دنیا میں نہیں رہا۔ ان اوصاف کے علاوہ مرحوم اسلام کے پُرجوش مبلّغ اورداعی بھی تھے اوراس راہ میں وہ بے دریغ دولت بھی خرچ کرتے تھے اورزبان وقلم سے بھی کام لیتے تھے۔ متقی و پرہیز گار ہونے کے باوجود بڑے شگفتہ مزاج اورخندہ جبیں تھے،خیر خیرات اورمستحق حضرات کی امداد کے معاملہ میں پیش پیش رہتے تھے۔ چندسال سے نابینا تھے،مگر پھر بھی صبر و شکر اورقناعت کی زندگی گذاررہے تھے ،لیکن آخر اُن کاوقت موعود بھی آگیا اور وہ رفیقِ اعلیٰ سے جاملے۔ اللھم برد مضجعہ وارحمہٗ۔
[جون ۱۹۶۳ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...