Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

سید صدیق حسن
Authors

ARI Id

1676046603252_54338668

Access

Open/Free Access

Pages

101

سید صدیق حسن
سخت افسوس ہے ۶؍ ستمبر کویوپی گورنمنٹ کے سب سے زیادہ سنیئر آئی سی ایس، ممبرریونیو بورڈ سیدصدیق حسن صاحب نے اچانک داعیِ اجل کولبیک کہا اور اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔انتقال سے صرف پانچ روز پہلے یعنی یکم ستمبر کو عصر کی نماز کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی مجلسِ انتظامیہ کاجلسہ تھا، مرحوم سے وہاں ملاقات ہوئی،حسب عادت بڑے تپاک اور گرم جوشی سے ملے۔ جلسہ کے اختتام پر ہم سب کے ساتھ مسجد ندوہ میں مغرب کی نماز پڑھی، باہر نکلے توراقم الحروف اوردوسرے حضرات کے ساتھ دس پندرہ منٹ بات چیت کرتے رہے اور پھر مولانا عبدالماجدصاحب دریابادی کواپنے ساتھ لے کر کارمیں بیٹھ کر رخصت ہوگئے۔ اس وقت دیکھنے میں کافی تندرست اور ہشاش بشاش تھے اوراس بات کا وہم وگمان بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ بس اب عالمِ آب وگِل میں پانچ دن کے مہمان ہیں۔ پاکستان میں ایک قریبی عزیز کاانتقال ہوگیاتھا، اُن کی تعزیت کرنے کی غرض سے اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ لاہور جارہے تھے ،امرتسر پہنچ کر کسٹم وغیرہ کے مراحل سے گزرنے کے لیے ایک متعلق افسر کی میز کے سامنے جاکر کھڑے ہوئے اور جیب سے پاسپورٹ نکال کرافسر مذکور کی طرف بڑھارہے تھے کہ وقتِ موعود آپہنچا ،یک بیک دل کی حرکت بندہوگئی اور دھڑام سے زمین پر گر پڑے ، لوگوں نے دیکھا تومرغِ روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکا تھا۔ ’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون ‘‘۔
مرحوم کی شخصیت عجیب وغریب کمالات واوصاف کی جامع تھی،حکومت کے اعلیٰ افسر ہونے کی حیثیت سے نہایت لائق وقابل، بڑے نیک نام اور حکومت اور پبلک دونوں کی نگاہ میں معتمد اورقابلِ احترام تھے۔ ہرمعاملہ میں سرکاری ہو یا غیرسرکاری اُن کی ایمان داری اوردیانت پرسب کاایمان تھا۔ ضرورت مندوں کے ساتھ ہمدردی وغمگساری اور عملاًان کی امداد واعانت اس قدر عام اور ہمہ گیر تھی کہ ایک ہم پیشہ ہندو دوست کی اس کی زندگی میں مدد کرکے اور اس کی موت کے بعد اُس کے بچّوں کواپنی تربیت میں لے کراور اُن کو اعلیٰ تعلیم دلاکر مرحوم نے انسانیت وشرافت کاجوغیر معمولی مظاہرہ کیالکھنؤ کے باخبر اصحاب پر مخفی نہیں ہے۔ پانچ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے تھے ،لیکن اس کااکثر و بیشتر حصّہ غریبوں اور ضرورتمنداصحاب یااداروں پر خرچ ہوتاتھا۔ دین داری کایہ عالم تھاکہ کئی برس مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی اکزیکٹو کونسل کے ممبررہے ،میٹنگ کے درمیان جب کبھی ظہر،عصر کی نماز کاوقت آتاتھامرحوم پابندی کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے۔ جدید طبقہ میں اﷲ کے فضل وکرم سے دین دار لوگوں کی کمی نہیں ہے، لیکن اگر معرفت وولایت کی حقیقت قلب کاسوز وگداز اور نظر کی پاکبازی ہے، تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حال میں اس طبقہ نے دوبزرگ ایسے پیدا کیے ہیں جنھیں بے تکلف ولی اورصاحبِ باطن ومعرفت کہاجاسکتا ہے،ایک جنوبی ہند کے ڈاکٹر مولوی عبدالحق، اور دوسرے یہ سےّد صدیق حسن۔یہ دونوں خدا کو پیارے ہوگئے،مگردرحقیقت اسی طرح کے حضرات ہیں جن کے دم سے مذہب اور شرف و مجد انسانی کی عزت وآبرو اس زمانہ میں قائم ہے، اوران کی پاک وصاف زندگیاں اس حقیقت کاروشن ثبوت ہیں کہ جوشخص فکروعمل کے اعتبارسے سچّا اور پکّا مسلمان ہوتا ہے اُس کاوجود سرتاپا خیروبرکت ہوتاہے،اپنوں کے لیے بھی اور غیروں کے لیے بھی، مسلمانوں کے لیے اور ہندوؤں کے لیے بھی، ملّت کے لیے اور قوم ووطن کے لیے بھی، حکومت کے لیے اورعوام کے لیے بھی نام کے صدیق تھے، اﷲ تعالیٰ مرنے کے بعد بھی صدیقین وشہدا کامقامِ جلیل عطا فرمائے، آمین! [اکتوبر ۱۹۶۳ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...