Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا حکیم سید محفوظ علی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا حکیم سید محفوظ علی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338669

Access

Open/Free Access

Pages

102

مولانا حکیم سید محفوظ علی
افسوس ہے نومبر کی ۲؍ تاریخ کوہماری جماعت دیوبند کے ایک نامور رکن مولانا حکیم سیدمحفوظ علی صاحب نے کم وبیش ستر برس کی عمر میں دیوبند میں داعی اجل کولبیک کہااور رہ گزائے عالم آخرت ہوگئے۔ موصوف دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل تھے اور علوم عقلیہ ونقلیہ دونوں میں کسی میں کم اور کسی میں زیادہ پختہ استعداد رکھتے تھے۔ فراغت کے بعد کچھ دِنوں مدرسہ میں بحیثیت معین المدرسین چند ابتدائی کتابوں کادرس بھی دیا ۔مگر طبیعت میں فنِ طب کی طرف شدید میلان پیدا ہوا تو دلّی کے نامورطبیب حکیم عبدالوہاب عرف نابینا مرحوم کی خدمت میں چندسال رہ کر اس شوق کی تکمیل اس خلوص، محنت اورانہماک سے کی کہ علماً وعملاً ایک ممتاز صاحبِ فن اوراُستاد کے لائقِ فخر ومعتمد علیہ تلمیذ رشید بن گئے۔ اب دِلّی سے رُخصت ہوکر دیوبند میں ہی انہوں نے مطب جمایاتو چندہی مہینوں میں اُن کے حذاقتِ فن اوردستِ شفاء کی شہرت دُور دورتک پہنچ گئی۔ اور اُن کامطب مرجع خواص و عوام ہوگیا ۔فنّی کمال ومہارت کے علاوہ اخلاقی اعتبارسے بھی بڑے خلیق ومتواضع، خوش طبع وخندہ رو اور غیرت وخودداری کے ساتھ حد درجہ مخلص وبے لوث انسان تھے یہی وجہ ہے کہ جس توّجہ سے وہ مریضوں کا علاج کرتے تھے اُسی توّجہ اور خلوص سے طلباء کوطِب کادرس خالصۃً لوجہ اﷲ دیتے تھے۔
حضرت شاہ صاحب ؒ کے قریبی عزیز تھے۔اِس تعلق سے ہم خدام بارگاہ کے ساتھ غیر معمولی شفقت ومحبت اور التفات وتوجّہ کامعاملہ کرتے تھے۔ ان خدام میں میں سب سے کم عمربھی تھااور کم مایہ بھی،مگر اُن کاجوشِ التفات وکرم ان حدود کی پروا نہیں کرتا تھا۔ ہم اُن کواپنا مخدوم ومحترم مانتے تھے اور وہ ہمارے ساتھ بالکل عزیزوں کاسا برتاؤ کرتے تھے۔ گذشتہ اکتوبر کی ۲۸؍ تاریخ کوایک کمیٹی کی میٹنگ کے سلسلہ میں دیوبند جاناہوا تو عیادت کی غرض سے مرحوم کے مکان پر بھی حاضری ہوئی۔ وہاں یہ دیکھ کرطبیعت دھک سے رہ گئی کہ نہایت قوی ہیکل اور عظیم الجثہ ماہر فن طبیب جس کے دستِ شفاء سے ہزاروں مایوس العلاج صحت یاب ہوگئے، تین دن سے فالج کے شدید حملہ کے باعث مسلسل غشی کے عالم میں پڑا تھا اورصرف ایک سانس تھا جوتیزی سے چل رہاتھا ۔
طبعاً شاہ خرچ واقع ہوئے تھے،جوآتاتھا خرچ کرڈالتے تھے۔ بیسیوں، غریبوں، محتاجوں کی امداد مستقل طور پرکرتے تھے ۔خودزندگی سادہ تھی۔ روپیہ پیسہ کی قدر کبھی نہ جانی ۔اب ایسے غریب پرور فیاض طبع اور ماہرِ فن طبیب کہاں ملیں گے ۔اللھم اغفرلہ وبّرِد مَضْجَعَہَ۔ [نومبر ۱۹۶۳ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...