Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

پنڈت جواہر لال نہرو
Authors

ARI Id

1676046603252_54338672

Access

Open/Free Access

Pages

103

آہ! لعلِ شب چراغِ ہند
[پنڈت جواہر لال نہرو]
افسوس ہے آخر وہی ہواجس کاچند مہینوں سے کھٹکا لگاہوا تھا،یعنی ۲۷؍ مئی کو ہمارے ملک کے محبوب وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو ۷۴ بر س کی عمر میں اِس دنیا سے رخصت ہوگئے اور پورے ملک کوماتم کدہ بناگئے۔ دنیا میں عام طور پربڑے آدمی دوقسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو دماغ اورذہن کے اعلیٰ کمالات و اوصاف کے حامل ہوں اور دوسرے وہ جو قلب ونظر کے پاک اوراُن کی خوبیوں اور اچھائیوں کے جامع ہوں، ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جواِن دونوں قسم کے کمالات سے سرفراز ہوں۔ پنڈت جی کسی تیسری قسم کے بڑے لوگوں میں سے تھے، اُن کی زندگی سب لوگوں اورخصوصاً نوجوانوں کے لیے سرتاپا درس عبرت تھی۔ وہ ایسے گھرانہ میں پیدا ہوئے جہاں خدا کادیا کیا کچھ نہیں تھا،بالکل عنفوانِ شباب میں جب وہ انگلینڈ سے اپنی اعلیٰ تعلیم ختم کرکے وطن واپس آئے توحسن و شباب ،اعلیٰ تعلیم،بے پناہ دولت وثروت ،اعلیٰ خاندان اور وجاہت غرض کہ مادی اسبابِ عیش وتنعم میں سے ایسی کون سی چیز تھی جواُن کے پاس بافراط موجود نہ ہو، اوراس لیے زمانہ کے عام مذاق کے مطابق ان کے لیے بہت آسان تھا کہ ’’بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کے فلسفہ پرعمل پیراہوتے اور اپنی زندگی کوخیّام کی خیالی جنت کے مادی پیکر میں گزار دیتے ۔لیکن ۱۹۱۶ء میں جب پہلی مرتبہ ان کی ملاقات مہاتما گاندھی سے ہوئی تو اس پیرِدانا کی پہلی نگاہ نے اِس نوجوان کی آرزؤوں اورتمناؤوں کی دنیا میں ایک انقلابِ عظیم پیداکردیا اوراس نوجوان نے اُسی وقت پھولوں کی سیج اور شبستانِ عیش کے بجائے اپنے لیے خار زار آلام و مصائب اور قید ومحن کی راہ کاانتخاب کرلیا،اوراپنا سب کچھ اس کے لیے قربان کردیا۔اُس زمانہ میں پنڈت جی یاکسی شخص کواس بات کاگمان بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ ملک اُن کی کوششوں کے صدقہ میں ان کی زندگی میں ہی آزاد ہوگا اوریہ اُس کے پہلے وزیر اعظم ہوں گے۔اِس بنا پر اس وقت اپنے آپ کو ملک کی آزادی کی جدوجہد کے لیے وقف کرنا اوراُس کی خاطر ہرقسم کے شدائد ومصائب برداشت کرنے کے لیے آمادہ ہوجانا صرف اعلیٰ کردار اور انتہائی مخلصانہ جذبۂ عمل وایثار پر ہی مبنی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی زندگی کے سولہ برس جوعہدِ شباب کا بہت قیمتی سرمایہ تھے جیل خانہ کی آہنی سلاخوں کے پیچھے گزارے، مگراس کااثر یہ ہوا کہ قوم بیدار ہوئی اورآخر ۴۷ء میں اُس نے غلامی کی زنجیروں کو پاش پاش کرکے رکھ دیا۔
پنڈت جی اگرچہ ہندوستانی تھے اوران کی تمام ترسرگرمیاں براہِ راست ہندوستان کوآزاد کرانے کے لیے وقف تھیں، لیکن اپنے فکر اورذہن کے اعتبار سے وہ ایک عالمی انسان تھے اوراُن کے دل میں افریقہ اور ایشیا کے دوسرے مستعمراتی ملکوں کی آزادی کاجذبہ بھی اتناہی شدید تھاجتنا کہ خود اپنے ملک کے لیے تھا۔ وہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں اکثر وبیشتر اس کااظہار کرتے رہتے تھے اور کبھی کبھی کانگریس کے پلیٹ فارم پریااُس کی تجاویز میں پنڈت جی کے اِس فکر کی جھلک نظر بھی آجاتی تھی۔اسی کایہ اثر ہے کہ آج آپ اُن ممالک میں جائیے جو ماضی قریب میں برطانیہ یافرانس یا ہولینڈ کے پنجۂ استعمار کی گرفت سے آزاد ہوئے ہیں تو وہاں کے عوام اورخواص بے تکلّف اس کااعتراف کرتے نظر آئیں گے کہ انھوں نے اپنے ملکوں میں آزادی کی جو تحریکیں چلائی تھیں اُن میں بہت کچھ رہنمائی اور مدد انھوں نے گاندھی جی اور جواہرلال نہرو سے حاصل کی تھی۔ اس بناء پر پنڈت جی صرف ہندوستان کے نہیں بلکہ بالواسطہ افریقہ اور ایشیا کے مستعمراتی ملکوں کی جنگِ آزادی کے بھی رہنما تھے۔ملک کی آزادی اور ساتھ ہی اس کی تقسیم کے بعد ملک کوجو شدید ترین حوادث پیش آئے اُن سے ملک کوصحیح سلامت نکال کرلے جانااورملک میں ایک مضبوط اورغیر متزلزل حکومت قائم کرنا، اورفرقہ وارانہ جذبات کے انتہائی اشتعال اوربحران کے باوجود ملک کے لیے ایک سیکولر اورجمہوری دستورِحکومت منظور کرالینا،یہ پنڈت جی کے سیاسی تدبّر اور ان کی بلند شخصیت کے غیر معمولی نفوذ واثر کی وہ روشن مثالیں ہیں جواس ملک کی تاریخ میں عرصۂ دراز تک روشن رہیں گی۔
قدرت نے دل ودماغ اورحسن ووجاہت کی عجیب وغریب خوبیوں سے ان کو سرفراز کیاتھا کہ اپنوں میں اور بیگانوں میں، عوام میں اورخواص میں، بچوں میں اوربوڑھوں میں، جہاں کہیں اور جس کسی حیثیت میں گئے مقبول اورہردل عزیز ہوکررہے، اُن کی شخصیت میں بلا کی کشش اوراُن کی ذات میں غضب کی جاذبیت تھی۔ دنیا میں اور بھی نامور لیڈر اوروزیراعظم ہیں جن کی شہرت اورعظمت کا سکّہ اُن کے ملکوں سے باہر بھی چلتا ہے لیکن اُن کی شہرت اورعظمت کی بڑی وجہ ان کے بے حد ترقی یافتہ ممالک ہیں۔اس کے برخلاف ہندوستان کی عزت پنڈت جی کے دم سے تھی اورخود پنڈت جی کی عالمگیر شہرت ومقبولیت کاراز بجز اُن کے ذاتی وشخصی کمالات کے کوئی اورچیز نہیں۔ سب اُن کا سہارا لیتے تھے، مگرخود اُنہیں کسی سہارے کی ضرورت نہیں تھی،وہ اپنے مزاج اور طبیعت کے اعتبارسے کٹّرقسم کے جمہوری انسان تھے اورحق یہ ہے کہ یہ وصف ان کاکمال بھی تھا اور کمزوری بھی! اوراسی وجہ سے بعض اوقات اُن سے شکایتیں پیدا ہوجاتی تھیں۔
ملک نے پنڈت جی کے عہدِ وزارت میں داخلی اورخارجی دونوں حیثیتوں میں مختلف وجوہ سے بڑی ترقی کی، لیکن ملک کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت یعنی قومی یکجہتی کی مہم اُن کی زندگی میں ناتمام رہی اور جیسا کہ محترم صدر جمہوریہ نے بھی اپنی تقریر میں اس طرف اشارہ کیاہے، پنڈت جی اس کی حسرت ہی لے کر دنیا سے گئے،اس اعتبارسے پنڈت جی کی اس وقت موت پوری قوم اورپورے ملک کے لیے سخت ترین حادثہ ہے ۔آئندہ تاریخ بتائے گی کہ جولوگ پنڈت جی کی امانت کے وارث اوراُن کے جانشین بنے انھوں نے کہاں تک اس جانشینی کاحق اداکرنے میں کامیابی حاصل کی۔ [جون۱۹۶۴ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...