Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا محمد یوسف [ امیر تبلیغی جماعت ]

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا محمد یوسف [ امیر تبلیغی جماعت ]
Authors

ARI Id

1676046603252_54338676

Access

Open/Free Access

Pages

105

مولانا محمد یوسف
افسوس ہے مولانا محمدیوسف صاحب امیر تبلیغی جماعت اس خاک دان عالم کوالوداع کہہ کر رہ گزاے عالمِ جاودانی ہوگئے۔ اُن کی زندگی کاہرلمحہ تبلیغ و ارشاد اور دعوت الی الحق کے لیے وقف تھا،اس لیے موت بھی اسی حالت میں آئی۔ یکم اپریل کومغرب کے بعد لاہور میں ایک مجمع کوخطاب کررہے تھے کہ تقریر کرتے کرتے اچانک غشی طاری ہوئی۔رات بھر یہی کیفیت رہی ۔صبح کوچند منٹ کے لیے ہوش آیاتوصرف اتنا فرمایا ’’بھائیو! اب میراوقت پورا ہوچکا ہے آپ سب میرے لیے دعا کریں‘‘ اتناکہہ کر جوبے ہوش ہوئے تو پھر ہوش نہ آیا اور ۲؍اپریل کوجمعہ کی نماز کے بعد جان جان آفریں کے سپردکردی۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔جنازہ ہوائی جہاز کے ذریعہ دہلی لایا گیا اور۳؍ اپریل کوبستی نظام الدّین میں جہاں زندگی گزاری تھی تدفین عمل میں آئی۔
مولانا ہندو پاک کے اکابر علماء میں سے تھے ۔مطالعہ اورتحریر وتصنیف کا ذوق فطری تھا۔ ہزار مصروفیتوں کے باوجود روزانہ چندگھنٹے مطالعہ ضرور کرتے اور لکھتے تھے۔ چنانچہ ’حیات الصحابہ‘ کے نام سے عربی زبان میں ایک ضخیم کتاب دو جلدوں میں دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن کی طرف سے شائع ہوچکی ہے۔ علم و عمل، اخلاق وعادات اورتقویٰ وطہارت میں علمائے سلف کانمونہ تھے ۔لیکن اُن کا نہایت عظیم الشان کارنامہ جو مسلمانوں کے موجودہ حالات میں ایک نہایت اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے یہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے والدماجد مولانا محمدالیاس صاحب ؒ کی وفات کے بعد اُن کے جاری کیے ہوئے تبلیغی کام اوراس کے نظم و نسق کوباقی رکھا بلکہ اُسے ترقی دے کر کہیں سے کہیں پہنچادیا اور پھر اُسی شان اور اسی وضع کے ساتھ ، چنانچہ اس جماعت کانہ کہیں دفتر ہے نہ اس کے لیے عہدہ دار اور نہ اُن کا انتخاب، نہ صدر نہ سکریٹری، نہ خازن اور نہ کلرک اور نہ منشی، نہ اخباروں میں کوئی اعلان، نہ پوسٹر اور نہ پمفلٹ ،نہ پروپیگنڈہ اور نہ کوئی دفترِ نشر و اشاعت، نہ چندہ کی اپیل، نہ اس کاکوئی اخبار یارسالہ مگراس کے باوجود جماعت کے اجتماعات ہوتے تھے توہرطبقہ اور ہرگروہ کے مسلمان، عالم اورعامی، عوام اور خواص، امیر اورغریب، ملک کے دور دراز حصّوں سے کھنچ کچھا کر ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوتے اور ذکر واذکار میں اوقات صرف کرتے تھے۔جماعت کے دائرہ عمل کی وسعت کایہ عالم ہوگیاتھا کہ عرب وافریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمان تبلیغی دوروں پریہاں آتے تھے اور یہاں کے مسلمان اُن ملکوں میں دعوت وارشاد کاکام کرتے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ عصرِ حاضر کی ہرقسم کی رسمی تنظیم سے بالکل معرا ہونے کے باوجود لاکھوں انسانوں کااس طرح ایک مرکز سے وابستہ رہ کر مکمل یک جہتی اورڈسپلن کے ساتھ دیوانہ وارکام کرنا مادہ پرستی کے اس پر آشوب دورمیں روحانیت وخداپرستی کاایک حیرت انگیز کرشمہ وکارنامہ ہے۔ مولانا کی عمر ایسی کچھ زیادہ نہیں تھی ۔ابھی غالباً پچاس برس کے بھی نہ ہوں گے۔ اُن کاحادثۂ وفات عالمِ اسلام کاایک بڑاالمیہ ہے، لیکن اس جماعت کے کام کرنے کاانداز کچھ ایسا رہاہے اور ہے کہ بڑی سے بڑی ایک شخصیت کی موت بھی اس کے کاموں پراثر انداز نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اُمید ہے کہ جماعت کاکام برابر جاری رہے گا اورترقی کرے گا۔ بَرَّدَاللّٰہ مثواہ وطاب ثراہ۔
[اپریل ۱۹۶۵ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...