Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولاناشیخ محمد بدرعالم میرٹھی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولاناشیخ محمد بدرعالم میرٹھی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338677

Access

Open/Free Access

Pages

106

مولانا شیخ محمد عالم بدر میرٹھی
افسوس ہے ہماری بزمِ انوری کی ایک اورشمع فروزاں بُجھ گئی یعنی حضرت الاستاذ مولانا محمدانور شاہ الکشمیریؒکے تلمیذِ رشید اورہمارے دیرینہ رفیقِ کار اورساتھی مولانا الشیخ محمدبدر عالم میرٹھی نے گزشتہ ماہ کے آخری ہفتہ میں تین برس کی مسلسل اور شدید علالت ومعذوری کے بعد مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ مولانا کے والد ماجد پولیس کے افسرِ اعلیٰ تھے۔ مگران کی نیکی اور دین داری کایہ عالم تھا کہ اس ملازمت کے باوجود انھوں نے بیٹے کوعربی ودینی تعلیم کے لیے سہارنپور بھیجا، وہاں سے فارغ ہو کر مولانا دیوبند آئے اورحضرت الاستاذ کے درسِ بخاری میں شریک ہوکرکئی سال مسلسل سماع کیااور درسی تقریریں قلمبند کیں۔ علاوہ ازیں حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں صبح وشام یوں بھی حاضر رہتے اور برابر علمی استفادہ کرتے رہتے تھے۔ اسی زمانہ میں مختلف علوم وفنون کے اسباق آپ کے سپرد ہوگئے۔ مولاناکی استعداد بڑی پختہ اوران کاذوق ہمہ گیرتھا۔منطق، فلسفہ، ادب، حدیث اور فقہ، ان میں سے ہر مضمون کی کتاب اس طرح پڑھاتے تھے کہ گویا وہ ان کا کوئی خاص فن تھا۔۲۸ء میں حضرت شاہ صاحب اپنی جماعت کے ساتھ ڈابھیل گئے تومولانا بھی اس جماعت کے رکن ِرکین تھے۔ وہاں انھوں نے نہایت محنت اور توجہ سے بڑی سے بڑی کتابوں کا درس دیا۔ لیکن حضرت الاستاذسے استفادہ کی تشنگی کم نہیں ہوئی،بلکہ اُس میں روز بروز اضافہ ہوتا اور یہ مس ِ خام کندن بنتا رہا۔ یُوں بھی وہ حضرت الاستاذ کے عاشق تھے۔صورت کے بھی اور سیرت کے بھی! ان سب چیزوں کا مجموعی اثر یہ ہواکہ حضرت الاستاذ کے ہزاروں شاگردوں میں بڑے بڑے نامور علماء وفضلاء بھی ہیں اورمحققین واساتذہ بھی، لیکن خاص فن ِ حدیث میں جوجامعیت اورکمال (مولانا محمدیوسف بنوری کو مستثنیٰ کرکے) مولانا کے حصہ میں آیا وہ کسی اورکو نہیں ملا۔چنانچہ’ فیض الباری علی صحیح البخاری‘ مطبوعۂ قاہرہ (مصر) اور’ ترجمان السُنۃ‘ (مطبوعہ ندوۃ المصنفین) کی ضخیم مجلدات اس بات کا بیّن ثبوت ہیں۔ سولہ سترہ برس کے بعد مدرسۂ تعلیم الدین جامعۂ اسلامیہ ڈابھیل سے تعلق منقطع ہوا تو مولانا ندوۃ المصنفین سے براہِ راست متعلق ہوگئے اوردلّی میں مستقل قیام کرلیا، اسی زمانہ میں ملک تقسیم ہوااور عظیم تباہی وبربادی کے ساتھ لاکھوں انسان اِدھر کے اُدھر اوراُدھرکے اِدھر پہنچ گئے تومولانا بھی ترکِ وطن کرکے کراچی پہنچے۔مگرجلدہی جی اچاٹ ہوگیا تو(غالباً ۱۹۵۰ء میں) پاکستان کو بھی خیرباد کہہ کراُس سرزمینِ قدس میں پناہ لی،جس کے گلی کوچوں میں بارہا جبریلِ امین کوپرفشانی کرتے دیکھاگیا ہے ۔
مولانا علومِ ظاہری میں کمال ومہارت کے ساتھ معرفت وسلوک میں بھی مرتبۂ بلند و مقامِ رفیع رکھتے تھے۔اس سلسلہ میں انھوں نے سب سے پہلے حضرتِ مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانیؒ کے دامانِ ارادت وعقیدت سے وابستہ ہوکر بڑے انہماک وتوجہ سے کسبِ فیض واستفادہ کیااور حضرت مفتی صاحب خدا کو پیارے ہوگئے تومولانا نے حضرت کے خلیفۂ مجاز مولانا قاری محمد اسحاق صاحب میرٹھی سے رجوع کیا۔حضرت قاری صاحب کا مستقل قیام دلّی میں رہتا تھا۔ اس زمانہ میں مولانا کامشغلہ بجزاس کے کچھ نہیں تھا کہ دن میں صبح شام چھ سات گھنٹے مطالعہ وتصنیف کے سلسلہ میں ندوۃ المصنفین میں گزارتے تھے اور اس کے علاوہ پوراوقت مجاہدہ وریاضت یاپیرو مرشد کی خدمت میں گزارتے تھے۔ طبعاً بڑے خوش مزاج، زندہ دل اورخندہ جبین تھے۔
دیوبند سے تعلق کے زمانہ میں شکار کابڑاشوق تھا۔برسوں معمول یہ رہاکہ جمعرات کے دن ظہرکی نماز پڑھی اور کارتوسوں کی پیٹی گلے میں ڈال اور بندوق اٹھا چل دیے اورعشاء کے وقت تک واپس آتے تھے۔اﷲ نے حسنِ باطنی کے ساتھ حسنِ ظاہری سے بھی نوازا تھا۔ خوش پوشاک وخوش خوراک تھے، اکثر قیمتی دوائیں بھی استعمال کرتے رہتے تھے۔ معمولات کے سخت پابند اور انتہا درجہ باحمیت وغیرت مند تھے۔صاف گو اور صاف رَواِس بلاکے تھے کہ بعض اوقات اُن پر’’کُھرّے پن‘‘ کاگمان ہونے لگتا تھا۔
مدینہ طیبہ میں قیام کرلینے کے بعدبھی اگرچہ تصنیف وتالیف کامشغلہ کچھ نہ کچھ جاری رہالیکن اب مولاناؔ کے اوقات کااکثر حصّہ تعلیم وتربیتِ باطنی اور تلقین و ارشادِ روحانی میں صرف ہوتاتھا، عوام وخواص کے مرکز عقیدت تھے۔ انڈوپاک کے مسلمانوں کے علاوہ افریقہ اورخاص حجاز کے علماء اور عوام بھی مولانا سے ارادت رکھتے اورفیضِ باطنی حاصل کرتے تھے۔خدا کی دین ہے ،جو بچّہ میرٹھ کے ایک پولیس افیسر کے گھر میں پیدا ہوا تھا،اس کے مقدر میں یوں علم و عمل، تقویٰ وطہارت اورفضائلِ اخلاق وکمالات کے آسمان پر مہرِتاباں بن کر چمکنا، برسوں تک چمکتے رہنا اورآخر میں مہبطِ وحی وجلوہ گہِ نبوت سرزمین کی خاکِ پاک کا پیوند ہوکر وہیں ابدی نیند سوجانا لکھاتھا۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
رحمہٗ اﷲ رحمۃً واسعۃً۔
[نومبر ۱۹۶۵ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...