Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > پنڈت تربھون ناتھ زارؔزتشی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

پنڈت تربھون ناتھ زارؔزتشی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338678

Access

Open/Free Access

Pages

107

پنڈت تربھون ناتھ زارؔزتشی
اُردو زبان کے علمی اورادبی حلقوں میں اس خبرکو بڑی حسرت اورافسوس کے ساتھ سناگیا کہ پچھلے دنوں پنڈت تربھون ناتھ زارؔ زتشی نے ۹۲ بر س کی عمرمیں دلّی میں انتقال کیا۔ پنڈت جی کشمیری پنڈت تھے،ان کا خاندان اورنگ زیب عالمگیر کے عہدِ حکومت میں دلّی میں منتقل ہوگیاتھا۔اس بناء پریہ خاندان کشمیر اور دلّی دونوں کی خاص تہذیب اور کلچر، شرافت،علمی وادبی ذوق، حسن وجمال اور وسعتِ مشرب ایسے اوصاف وخصوصیات کاحامل ہے، پنڈت جی ان خصوصیات کا ایک اعلیٰ نمونہ ہونے کے باعث ان سب میں ممتاز تھے۔ سنسکرت کے علاوہ فارسی اوراُردو کے بھی نامور فاضل اورمحقق تھے۔شعروشاعری میں مرزا داغؔ سے تلمذِ خصوصی رکھتے تھے۔بلکہ غالباً وہ استادکی آخری یادگار تھے،دلّی زبان اوراُس کی کہاوتوں اورمحاورات پرانہیں جوعبور تھااُس میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔اس سلسلہ میں یہ واقعہ دل چسپی سے سنا جائے گا کہ ۱۹۳۹ء میں جب پہلے پہل میرا تقرر سینٹ اسٹیفنس کالج دلی میں بحیثیت استاد کے ہوا اوردوسری کلاسوں کے ساتھ بی۔اے (فائنل) کی اُردو کلاس بھی مجھے پڑھانے کے لیے دی گئی توایک دن مولوی نذیر احمدصاحب دہلوی کی مشہور کتاب ’توبۃ النصوح‘ کلاس میں پڑھا رہا تھا کہ اچانک ’’سفوپہ نادری چڑھی‘‘ کا فقرہ سامنے آگیا۔اورچوں کہ مجھے اس کامطلب معلوم نہیں تھا اس لیے میں نے کلاس ختم کردی اور میں سیدھا اپنے استاد شمس العلماء مولوی عبدالرحمن صاحب کے مکان پر پہنچا اور ان سے اس فقرہ کامطلب دریافت کیا۔مولوی صاحب نے بہت کوشش کی، دماغ پربہت زورڈالا مگر بات نہ بنی ۔اتنے میں مولوی صاحب کے جگری دوست خواجہ عبدالمجید دہلوی جو دلّی کی ٹکسالی زبان اورمحاورات کے بڑے اور مسلّم ماہرتھے ادھرآنکلے، مولوی صاحب نے ان سے پوچھا لیکن حافظہ اوردماغ پربہت کچھ زورڈالنے کے باوجود انہیں بھی کامیابی نہیں ہوئی۔ آخر خواجہ صاحب نے پنڈت زارؔ صاحب زتشی کانام لیااور مجھ سے کہاکہ تم وہاں چلے جاؤ،اب زارؔ زتشی کے سوا دلّی میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جواس کامطلب سمجھاسکے ۔میں فوراً زارؔ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا،حسب معمول بڑی محبت اورتپاک سے ملے ۔میں نے آنے کامقصد بیان کیاتواگر چہ وہ اُس وقت بڑی عجلت میں تھے اور کہیں جارہے تھے مگر مجھے وہیں لے کر بیٹھ گئے اور کم وبیش چالیس منٹ اس پرتقریر کی، تقریر کاحاصل یہ تھا کہ مغل بادشاہت کے آخری دورمیں گنجفہؔ،چوسرؔ اور شطرنج ؔ کی طرح اور بھی متعدد کھیل تھے جو کھیلے جاتے تھے، مگراب کوئی اُن کانام بھی نہیں جانتا۔اُنہی کھیلوں میں سے ایک کھیل تھا جس کی یہ اصطلاح ہے۔زارؔ صاحب نے ایک بڑاسا کاغذ لے لیا اوراُس پر پنسل سے نقشہ بنابناکر سمجھاتے رہے کہ اس کھیل میں اتنے خانے ہوتے تھے،ہر خانہ میں ایک مہرہ ہوتاتھا جس کانام اور کام دوسرے مہروں سے جدا ہوتاتھا ۔چالیں اس طرح چلی جاتیں، اور شکست و فتح کامعیار یہ ہوتا تھا۔ ’’سفوپہ نادری چڑھنا ‘‘شکست کی علامت ہے، جیسے شطرنج میں ششدر ہو جانا۔ زارؔ صاحب نے یہ پوری تقریر اس امنگ اورحوصلے سے کی کہ گویا جوانی کی کسی شب کی کوئی دل چسپ کہانی انہیں اچانک یادآگئی ہے۔اﷲ اکبر! اب یہ بساطِ دیرینہ اُلٹ گئی۔اوریہ پُرانی محفل اُجڑچکی۔اب نہ دلّی وہ دلّی ہے، نہ اُس کی وہ زبان ،نہ کلچر اور نہ وہ شرافت اور نہ تہذیب۔ پنڈت تربھون ناتھ زارؔ زتشی جن کے گھر کابچّہ بچّہ ،لڑکیاں اور عورتیں تک اُردو زبان کی عاشق اور شاعر ہیں، اس محفل کی آخر نشانی اوریادگار تھے ۔سدا رہے نام اﷲ کا۔ [نومبر ۱۹۶۵ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...