1676046603252_54338689
Open/Free Access
111
میرعثمان علی خاں نظام حیدرآباد
افسوس ہے گزشتہ ماہ کی ۲۴؍ کومیر عثمان علی خاں نظام حیدآباد کاانتقال ہوگیا۔ وہ ۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئے تھے اوران کے جدّامجد نے جو ریاست ۱۷۱۳ء میں قائم کی تھی اس کے ساتویں فرماں رواتھے۔ یہ ریاست توانقلابِ روزگار اور حوادثِ ایام کے بہت سے مرحلوں سے گزرتی ہوئی ۱۹۵۶ء میں ختم ہوگئی تھی۔ نظام ’داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی اک شمعـ‘ کی حیثیت سے اس ریاست کی یادگار تھے۔اب یہ یادگار بھی مٹ گئی ۔سدا رہے نام اﷲ کا۔
مرحوم بحیثیت فرماں روا کے اور بحیثیت انسان کے بھی بڑی خوبیوں اور اوصاف وکمالات کے مالک تھے۔ان کے عہد میں ریاست نے ہر شعبہ میں غیرمعمولی ترقی کی علی الخصوص تعلیم اور علوم اسلامیہ کی نشرواشاعت اوراسلامی تہذیب و ثقافت کی سر پرستی میں انھوں نے جو عظیم الشان کارنامے عثمانیہ یونیورسٹی، دائرۃ المعارف اوردارالترجمہ کی صورت میں انجام دئیے ہیں انہوں نے بغداد کی خلافت عباسیہ کی یادتازہ کردی اور ہندوستان میں اسلامی ثقافت کا کوئی مورّخ انہیں نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ان کا ابرکرم حیدرآباد سے باہر ہندوستان کے مختلف گوشوں پر بھی برستا رہا اور عرب وحجاز کی سرزمین پر بھی قطرہ افشاں ہوا۔ انہوں نے حیدرآباد کوایک خاص قسم کا کلچر دیا جوبڑا حسین اوردل نواز تھا اور جس کی مٹی مٹائی کچھ یادگاریں اب بھی وہاں نظر آسکتی ہیں۔ ان کی شخصیت عجیب و غریب قسم کی مجموعہ اضداداور اسی بناپرایک طلسم تھی۔ ایک طرف وہ دنیا کے سب سے بڑے دولتمند مشہور تھے اور قومی وتہذیبی معاملات میں نہایت فیاض اور سخی۔ لیکن دوسری جانب جہاں تک ذاتی اور نجی اخراجات کاتعلق ہے وہ اس درجہ سادہ اور کفایت شعار تھے کہ اس کے عجیب وغریب قصے اور کہانیاں زبان زد عوام و خواص تھے۔اردو اور فارسی میں مشغلہ ٔ شعر گوئی کے ساتھ انہیں دین اور مذہب سے بھی لگاؤ تھا اور علماء کے بڑے قدردان تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی خطاؤں اور لغزشوں سے درگزر فرماکر مغفرت وبخشش کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے۔
[مارچ ۱۹۶۷ء]
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |