Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا شاہ وصی اﷲ
Authors

ARI Id

1676046603252_54338694

Access

Open/Free Access

Pages

113

مولانا شاہ وصی اﷲ
آہ کیوں کرکہیے کہ۲۵/نومبر کوحج وزیارت حرمین شریفین کوجاتے ہوئے مظفری جہاز میں مولانا شاہ وصی اﷲ صاحب بھی رہ گزائے عالم جادوانی ہوگئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔وفات کے وقت عمر۷۵برس تھی۔علوم دینیہ واسلامیہ کی تکمیل دارالعلوم دیوبند میں کی تھی اورحضرت الاستاذ مولانا محمد انورشاہ الکشمیری کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔جن حضرات نے مولانا کایہ زمانہ دیکھا ہے ان کا بیان ہے کہ طالب علمی کے زمانہ میں ہی رشد وہدایت کے آثارطالع روشن سے ہویدا تھے۔چنانچہ ایک مرتبہ ایک بزرگ نے فرمایا بھی تھا کہ اگر کسی کو مادر زاد ولی دیکھنا ہوتو وصی اﷲ کودیکھے۔طالب علمی کے زمانہ میں ہی حضرت تھانویؒ کی خدمت میں آناجاناشروع کردیا تھا۔آخرکار یہ رنگ اس درجہ غالب ہواکہ برسوں کی ریاضت اورمحنت ومشقت کے بعد اپنے پیرومرشد کے نہایت ممتاز خلیفہ اور جانشین ہوگئے۔شروع میں آپ کامرکز ِارشادوہدایت فتح پور تھا۔پھرالہٰ آباد منتقل ہوگئے اوراب گذشتہ چند برسوں سے بمبئی میں بھی قیام رہنے لگا تھا۔ آپ جس درجہ کے عارف باﷲ اورمحرم اسرارطریقت تھے اُسی درجہ کے عالم اور مبصر علوم دینیہ واسلامیہ بھی تھے۔قرآن مجید سے طبعاً بڑا شغف تھااور تفسیر آپ کا خاص فن تھا، چنانچہ روزمرہ کے معمولات میں درس قرآن بھی شامل تھا جس کی پابندی سے سختی فرماتے تھے اور اوراد و وظائف اورارشاد وہدایت کے دوسرے مشاغل کے ساتھ مطالعہ کتب کاسلسلہ برابر جاری رہتا تھا یہاں تک کہ سفر میں بھی کتابوں کابکس ساتھ چلتا تھا، درس یاگفتگو میں کوئی بات بغیر حوالہ کے نہیں فرماتے تھے۔
شاہ صاحب کومعمولی سے معمولی باتوں میں اتباع سنت نبوی اور تعمیل شریعت کااہتمام رہتا تھا۔درحقیقت آپ کاتصوف بجزاُس احسان کے کچھ اورنہ تھا جس کی تعریف میں زبان وحی ترجمان سے ارشاد ہوا : ان تعبداﷲ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک ۔
اسی بنا پر حضرت مرحوم کے ہاں طریقت شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں بلکہ وہ شریعت کے احکام پرہی زیادہ یقین اورپختگی واستواری کے ساتھ عمل کرنے کانام ہے۔اسی کانام تزکیۂ نفس اورتطہیر باطن ہے اورپیغمبروں کی بعثت و دعوت کامقصد اساسی بھی یہی ہے۔شاہ صاحب کے شب وروز اسی دعوت اور اسی کی تعلیم وتربیت کے لیے وقف تھے۔اصلاح ِنفس اس انداز سے فرماتے تھے کہ مریض کوپتہ بھی نہیں چلتا تھا اوراچھا ہوجاتا تھا۔کتنے ہی واقعات ہمارے علم میں ہیں کہ بڑے سے بڑا منکر خدا ومذہب آپ کے سامنے آیااور آپ نے ابھی اسے صرف نگاہ اٹھا کر دیکھا تھا کہ تائب ہوکر مومن راسخ بن گیا۔
فروری۱۹۶۵ء میں چندروز کے لیے علی گڑھ بھی تشریف لائے تھے۔ ایک روز سہ پہر کو حاضر خدمت ہوا۔آپ کواطلاع ہوئی توفوراً اندربلالیا، کمرہ میں داخل ہوا توسینہ سے لگالیا اورکچھ پڑھتے رہے پھر میری گردن کو بوسہ دیا اورلے کربیٹھ گئے۔کمرہ میں اُس وقت جولوگ موجود تھے ان کومیرے پہنچتے ہی باہر چلے جانے کا حکم دیا۔کم وبیش۲۰منٹ گفتگوہوئی ہوگی۔اس کے بعد چائے اور مٹھائی وغیرہ طلب فرمائی۔زندگی میں حضرت شاہ صاحب سے میری یہ پہلی ملاقات بھی تھی اور آخری بھی۔لیکن اس وقت سے لے کرحج کے لیے روانگی تک اس گناہ گار پرپیہم الطاف وعنایات اورتوجہات خصوصی کی جوبارش ہوتی رہی ہے اورجس کے شاہد عینی حضرت کے مرید خاص اورمیرے نہایت عزیز دوست حکیم سید افہام اﷲ صاحب ریڈر طیبہ کالج علی گڑھ رہے ہیں وہ میری حیات مستعار کاسرمایۂ سعادت و افتخار ہے۔آہ صد افسوس!اب یہ غیر معمولی توجہ وشفقت بزرگانہ کہاں ملے گی! نوراﷲ ضریحہ وطاب ثراہ۔ [دسمبر۱۹۶۷ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...