Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > علامہ محمد ابراہیم بلیاوی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

علامہ محمد ابراہیم بلیاوی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338695

Access

Open/Free Access

Pages

113

علامہ محمد ابراہیم بلیاوی
واحسرتا! حضرت شاہ وصی اﷲ صاحب کی وفات حسرت آیات کے ٹھیک ایک ماہ بعد یعنی ۲۷ ؍ دسمبر کودن میں گیارہ بجے کے قریب ہمارے نہایت شفیق استاذ، دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین اور ناظمِ تعلیمات علامہ محمدابراہیم صاحب بلیاوی بھی واصل بحق ہوگئے۔ اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔عمر۸۵ برس تھی۔نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے دارالعلوم دیوبند سے متعلق تھے اور شروع سے اکابراساتذہ میں شمار ہوتاتھا۔حضرت مرحوم کاخاص فن جس میں بے شبہ وہ امامت کامقام رکھتے تھے، منطق تھا۔خوش قسمتی سے راقم الحروف نے دارالعلوم دیوبند میں مختلف علوم وفنون کی تعلیم اُن اساتذہ سے حاصل کی ہے جن میں سے ہرایک اپنے فن میں یگانۂ روزگار تھا۔ چنانچہ فلسفہ میں صدرا اور شمس بازغہ مولانا رسول خاں صاحب سے پڑھیں اور منطق کی اعلیٰ کتابوں میرزاہد ملا جلال، حمداﷲ اورقاضی کادرس مولانا محمد ابراہیم صاحب سے لیا۔اُس زمانہ میں ان دونوں حضرات کی مہارت ِفن وجلالتِ علم کاطوطی بولتا تھا ۔لیکن فرق یہ تھا کہ مولانا رسول خاں صاحب پرفن حاوی تھااورعلامۂ مرحوم فن پرحاوی تھے۔چنانچہ وہ دن آج بھی آنکھوں میں گھوم رہے ہیں کہ حمد اﷲ یاقاضی کادرس ہورہاہے،کوئی طالب علم عبارت پڑھ رہاہے،حضرت علامہ عمامہ برسر اور چادریا شال دربر پلونتھی مارے بیٹھے ہیں۔ اوراُس تبسم کے ساتھ جوچہرہ پرہروقت کھیلتا رہتا تھا، پان چبارہے ہیں، کتاب سامنے تپائی پررکھی ضرور ہے لیکن نگاہ اُس پرنہیں ہے اور اگر کبھی ہے بھی توبس اُڑتی سی۔ ادھر طالب علم نے عبارت پڑھنی ختم کی اورادھر آپ نے تقریر شروع کی۔ زیر بحث مسئلہ وجود کاہویا علم کا یاجعل بسیط اور جعل مرکب کا، غرض کہ مبحث کیسا ہی دقیق اور غامض ہو، تقریر بہرحال سکون واطمینان اورکامل خوداعتمادی کے ساتھ ہوتی تھی۔ زبان نہایت شُستہ اور لب ولہجہ بے حد پُروقار، اگرچہ ظرافت سے خالی نہیں لیکن وسعت اور دقتِ فکر و نظر کایہ عالم! معلوم ہوتا تھا ایک بحرِ بیکرانِ علم موجزن ہے۔ پہلے جو کچھ مصنف نے کہا ہے اور جوکتاب میں ہے اُس کامطلب بیان فرماتے تھے،اس کے بعد مسئلہ زیربحث کے متعلق متقدمین اورمتاخرین کی آرامع تمام دلائل وبراہین کے اور آخر میں خود اپنی رائے اور فیصلہ نہایت مدلل ومبرہن طور پرظاہر کرتے تھے۔ بسااوقات ایک ہی مسئلہ پر کئی کئی روز مسلسل تقریر ہوتی تھی۔
اگرچہ حضرت الاستاذ کی شہرت منطق میں تھی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ علوم عقلیہ کی طرح علوم دینیہ میں بھی بنوغ ونفوذ کایہی عالم تھا ۔چنانچہ حدیث اورفقہ کی انتہائی اورآخری کتابوں کا درس دینا شروع کیاتواس میں بھی وہی کمال کر دکھایا۔ راقم الحروف کوجب کبھی کوئی علمی اشکال پیش آتاتھا توآپ کی ہی طرف رجوع کرتاتھا اورآپ چٹکی بجاتے میں اس طرح اسے حل فرمادیتے تھے کہ دل میں کوئی خلش باقی نہیں رہتی تھی۔ابھی ڈیڑھ دوبرس پہلے کی بات ہے ایک دن صبح کوناشتہ ساتھ کرتے ہوئے میں نے عرض کیاحضرت!جن مقامات پرسورج کئی کئی مہینہ کے بعد طلوع ہوتا ہے وہاں پنج وقتہ نمازادا کرنے کی کیاصورت ہوسکتی ہے؟کیوں کہ وقت نماز کے لیے سبب وجوب اداہے تو جب سبب ہی نہیں تو وجوب کس طرح ہوسکتا ہے؟ میں ہکا بکا رہ گیا جب حضرت الاستاذ نے جواب میں فوراً فرمایا ’’وقت‘‘ سبب کہاں ہے؟ صرف ایک علامت ہے اور فقدان علامت سے ذی علامت کافقدان لازم نہیں آتا۔
اب ادھر عرصۂ دراز سے حدیث اور تفسیر کے ساتھ اشتغال زیادہ ہوگیاتھا، انھیں کادرس دیتے تھے اور انھیں کامطالعہ کرتے رہتے تھے۔ انابت الی اﷲ اور روحانی کمالات ومزایا کی طرف بھی توجہ زیادہ ہوگئی تھی ۔طبعاً نہایت شگفتہ مزاج، خوش طبع اور فیاض وسیر چشم تھے۔خوش خوراک اورخوش غذا بھی تھے، آئے دن دعوتیں کرتے رہتے تھے اور وہ بھی بہت پرتکلف ۔حاضر جوابی اور بذلہ سنجی میں فرد تھے، کوئی کیسا ہی منطقی قسم کاآدمی ہواُن کے سامنے پیش نہیں جاسکتی تھی۔ دیوبند کے حلقہ میں ہمیں نہیں معلوم کہ اُن کے سوا کسی اور کوبھی ’’علامہ‘‘ کے لقب سے عام طورپر پکارا یادکھایا گیاہو۔ان کی وفات سے اکابر دارالعلوم کی ایک نسل کاخاتمہ ہوگیا اوراس سے مدرسہ کوجونقصان پہنچا ہے اُس کی تلافی ناممکن ہے۔
عمراگرچہ نوے (۹۰) کے لپیٹے میں تھی لیکن قویٰ اب بھی اچھے تھے ۔درس بھی دیتے تھے اور ناظم تعلیمات کی حیثیت سے انتظامی اموربھی سرانجام دیتے تھے۔ شوریٰ کے جلسوں میں گھنٹوں بیٹھے رہتے اوراُس کی کاروائی میں شروع سے آخرتک پوری حاضرحواسی کے ساتھ شریک رہتے تھے اوردوسرے معمولات بھی جاری تھے۔ ۲۶؍ نومبر سے شوریٰ کاجلسہ شروع ہورہاتھااُس میں شرکت کی غرض سے ہم ۲۵؍ کو ہی دیوبند پہنچ گئے تھے اوروہاں ظہرکی نماز کے بعد ایک کمیٹی کی میٹنگ میں بیٹھے تھے کہ اچانک حضرت شاہ وصی اﷲ صاحب کی وفات کاٹیلیگرام بمبئی سے وصول ہوا۔حضرت الاستاذ کومکان پرجب یہ اطلاع پہنچی توحضرت شاہ صاحب کے ساتھ غایت درجہ کے روحانی اور باطنی تعلق کے باعث آپ پر اس کابہت غیر معمولی اثر ہوا اورصاحبِ فراش ہوگئے۔چنانچہ شوریٰ کاجلسہ تین دن تک رہا مگر آپ کسی ایک نشست میں بھی شریک نہ ہوسکے ۔بہ ظاہر اسباب شاہ صاحب کاحادثہ ٔ وفات ہے۔ حضرت الاستاذ کی صحت کے اچانک سقوط، حملۂ فالج اور پھرموت کاسبب ہواہے۔ رحمہ اﷲ رحمۃً واسعۃً وجعل الجنۃ مثواہ۔ [جنوری ۱۹۶۸ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...