Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > عبدالباقی [مدیر ہفت روزہ کاروانِ وطن ]

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

عبدالباقی [مدیر ہفت روزہ کاروانِ وطن ]
Authors

ARI Id

1676046603252_54338697

Access

Open/Free Access

Pages

115

عبدالباقی
۲۵؍ فروری کے الجمعیتہ میں پہلے صفحہ کی پہلی اور نمایاں خبر میں عبدالباقی، مدیر ہفت روزہ ’’کاروانِ وطن ‘‘کے حادثۂ وفات کی اطلاع اچانک پڑھی توجی دھک سے ہوکر رہ گیا۔ اب ادھر تیس بتیس برس سے تو ہم دونوں ایسے تھے کہ گویا کبھی رسم و راہ ہی نہیں تھی۔ برس دو برس میں راہ چلتے یاکسی پارٹی یاجلسہ میں مڈبھیڑ ہوگئی تورسمی طور پرعلیک سلیک اور مزاج پرسی ہوئی اور ہم دونوں نے اپنی اپنی راہ لی۔چنانچہ اسی نوع کی مرحوم سے آخری ملاقات پچھلے دنوں جامعہ اسلامیہ کے جلسۂ تقسیم ِ اسناد کے موقع پرہوئی تھی۔جلسہ کے ختم پر عصرانہ کاانتظام تھا۔ صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکرحسین صاحب ایک چھوٹے سے شامیانہ کے نیچے جامعہ کے وائس چانسلر مجیب صاحب اوردوچار اور معززمہمانوں کے ساتھ چائے نوشی سے فارغ ہوکر جب اپنے پرانے دوستوں، رفقائے کاراور ہم چشموں کے ساتھ میل ملاقات کی غرض سے مجمع عام میں داخل ہوئے تو عبدالباقی مرحوم میرے قریب کھڑے ہوئے تھے ۔ذاکر صاحب نے پہلے مجھ سے مصافحہ کیا اور خیریت پوچھی، پھرباقی صاحب کی طرف فرشتوں کی سی معصوم مسکراہٹ کے ساتھ متوجہ ہوئے ۔مصافحہ کیا اور دریافت فرمایا:’’کہیے باقی صاحب !آج کل آپ کیا کر رہے ہیں‘‘۔باقی صاحب ایک نیم خنداں کیفیت کے ساتھ بولے ! ’’ایک ہفت روزہ اخبار نکال رہاہوں،’’کاروانِ وطن ‘‘ اس کانام ہے‘‘ ۔ یہ سن کر ذاکر صاحب آگے بڑھ گئے ۔تھوڑی دیر کے بعد مجمع منتشر ہوگیااور سب اپنی اپنی راہ چل پڑے ۔اُس وقت خیال بھی نہیں ہوسکتا تھاکہ یہ باقی صاحب سے آخری بازدید اور ملاقات ہے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن ۔
ہاں تواِدھر تیس پینتیس برس سے مرحوم سے جان پہچان کچھ واجبی سی رہ گئی تھی۔ ورنہ اس سے قبل جب کہ وہ نئے نئے میدانِ صحافت میں اُترے تھے ہم دونوں اور تیسرے عبدالوحید صدیقی جو آج کل اُردو ڈائجسٹ ’’ہُما‘‘ کے منیجنگ پرو پرائٹر ہیں۔ایک دوسرے کے خصوصی دوست اور ہم پیالہ وہم نوالہ ساتھی تھے عبدالباقی وطناً بہاری تھے۔میرے نزدیک چہرہ پرملاحت اور بھولا پن اور طبیعت میں جودت وذہانت بہارکے لوگوں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ عبدالباقی کوبھی ان سے بہرہ وافر ملاتھا۔اگرچہ جسمانی فربہی بحدّ افراط تھی لیکن اس کے باوجود یہ شخص ذہانت اورطباعی کاپتلا تھااور کام کرنے پرجب آجاتا تھاتو ایک ہی نشست کے ساتھ کرسی پربیٹھاہوا گھنٹوں مسلسل کام کرتا رہتا تھا۔ تعلیم تمام تر جامعہ ملیہ میں پائی تھی اوراسی لیے نام کے ساتھ بی۔اے (جامعی) لکھتے تھے،جامعہ نے اچھے اچھے ارباب ِ قلم پیدا کیے ہیں۔لیکن عبدالباقی اُن چند اربابِ قلم میں سے تھے جوجامعہ کی قبائے افتخار کاتکمۂ زرّیں کہے جاسکتے ہیں۔یوں توانگریزی میں بھی لکھتے لکھاتے تھے لیکن اُردو میں ان کا ایک خاص نہج اور اسلوب تھا۔منطقی استدلال، معلومات کی فراوانی اورحُسنِ ترتیب کے ساتھ عبارت اس درجہ پرزور، ولولہ انگیز، شگفتہ اور بیساختہ ہوتی تھی کہ لوگ پڑھتے تھے اور وجد کرتے تھے۔ مرحوم نے صحافتی تربیت لاہور میں مولانا ظفر علی خاں مرحوم کے زیر سایہ پائی تھی، اوریہیں سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیاتھا۔ یہ اُس عہد میمنت عہد کی بات ہے جبکہ میں جان دادۂ دلفریبی ٔلاہور تھا۔سال بھرمیں ایک مرتبہ پندرہ بیس دن کے لیے یہاں آنا تولازمی تھاہی۔اس کے علاوہ ذراساکوئی بہانہ درکارتھا کوئی موقع ہوا اور لاہور پہنچا ۔خواہ چند گھنٹوں کے لیے ہی ہو ۔پھر یہ ناممکن تھاکہ کسی دن میں لاہور میں ہوں اورعصر کے بعد نگینہ بیکری میں احباب کے ساتھ چائے پی کر سیرو تفریح کے لیے لارنس گارڈن نہ جاؤں۔ انھیں دِنوں میں عبدالباقی سے ملاقات ہوئی اورآہستہ آہستہ یہ ملاقات گہری دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ یہیں میں نے ان کا وہ زمانہ دیکھا جبکہ ’’زمیندار ‘‘ کی ادارت سے سبکدوش ہوکرانھوں نے اپنا روز نامہ ’’آزاد ‘‘ نکالا ہے تو معلوم ہوتاتھا کہ اخبار نویسی کی دنیا میں ایک بھونچال سا آگیا ہے ۔’’زمیندار‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ پنجاب کی فضا پرچھائے ہوئے تھے اور ظفر علی خاں اگرچہ بوڑھے ہوچکے تھے،لیکن قلم میں جوانی کے کس بل اب بھی موجود تھے ۔پھرغلام رسول مہرؔ اور عبدالمجید سالکؔ کے نام کاطوطی الگ بول رہاتھا ۔بایں ہمہ عبدالباقی کا ’’آزاد‘‘ کچھ اس طنطنہ اور طمطراق کے ساتھ نکلا کہ نگاہیں خیرہ ہوگئیں اور بڑے بڑے چراغوں کی روشنی مدھم پڑنے لگی۔ لیکن ’’آزاد‘‘ جس شدّت و حدت کے ساتھ چمکا تھااتنا ہی ’’شعلۂ مستعجل ‘‘ثابت ہوا۔اور جلد ہی بند ہوگیا۔اب کسی نے کہاکہ مینجمنٹ بہت ناقص تھا وہ آمد وخرچ میں توازن قائم نہیں رکھ سکا،کوئی بولا’’مالیہ میں غبن فاحش ہوا ہے‘‘۔ اورکسی کسی کی زبان سے یہ بھی نکلا کہ لاہور کی پنجابی ٹولی جواس سے پہلے سیمابؔ اورساغرؔ کونہ جمنے دے سکی تھی عبدالباقی اوراس کے ’’آزاد‘‘ کوبھی برداشت نہ کرسکی اورسازش کرکے اخبار کوبند کراکے ہی دم لیا۔بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں، اصل حقیقت کیاتھی؟ اﷲُ اعلم وعلمہٗ اَتَمَ۔
اب آزاد کیا بندہوا ،عبدالباقی پرلاہور کی زمین ہی تنگ ہوگئی ،انھوں نے اب دہلی میں پڑاؤ ڈالا،جہاں وہ ایک پناہ گزین کی زندگی بسر کرتے تھے ۔میں نے ان کایہ دور بہت قریب سے دیکھا ہے۔عسرت اور تہی دستی کایہ عالم تھاکہ خداکی پناہ ! نہ پیٹ بھرنے کوآذوقہ اور نہ سر چھپانے کومکان، وہ تھے اورایک ان کی بیوی اوردس بارہ برس کاشاید ان کا بھتیجہ عبدالمقیت نام! میرے اور مرحوم کے ایک مشترک دوست کاگھران کاپناہ گاہ تھا۔ اس کے بعد میراان کاساتھ نہیں رہا۔ اس لیے تفصیلاً نہیں بتاسکتا کہ کہاں رہے اور کیاکیا کرتے رہے۔البتہ اجمالاً اسی قدر معلوم ہے کہ انھوں نے کچھ دنوں کے لیے بہارمیں سرکاری نوکری بھی کرلی تھی۔لیکن زندگی کاعام ڈھنگ یہ ہی بن گیاتھا کہ اجرت پراخباروں اور رسالوں کے لیے مضامین لکھتے تھے۔اُردو میں،اور انگریزی میں بھی ۔کبھی کبھی اپنااخبار بھی نکالتے تھے۔کبھی کسی اخبار یارسالے سے ملازمت کاتعلق بھی پیدا کرلیتے تھے۔ اپنے خیالات میں بڑے سخت تھے لیکن طبیعت میں تلّون اورعدم استقلال تھا، اس لیے جم کرکسی ایک جگہ بھی نہیں رہے ۔پھرمزاج اس درجہ قلندرانہ اورغمِ فرواسے بے نیاز تھاکہ جوکچھ ملااڑادیا۔ خودکھانے کے حددرجہ شوقین تھے۔کل کیا ہوگا؟ اس کی انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے معاشی اعتبارسے ہمیشہ پریشان حال رہے۔
عبدالباقی اس درجہ کے صحافی، ادیب اور نقّاد تھے کہ اگروہ پاکستان میں ہوتے یا یہاں رہ کر ہندی میں لکھتے ہوتے یاانگلینڈ کے کسی اخبار سے منسلک ہوکر انگریزی میں ہی لکھتے تومالا مال ہوجاتے، ان کے پاس ایک بلڈنگ بھی ہوتی اور موٹر کاربھی۔لیکن بدقسمتی سے اُن کا یہاں تعلق اُردو اخبارنویسوں کے اُس بدنصیب اورقابلِ رحم طبقہ سے تھا جوہزار ہاہزار صفحات لکھ کر ادب وانشاء، سیاست و مذہب،علم وفن ومزاح کے چمن میں نئے نئے پھول کھلاتا ہے لیکن نہ تاریخِ ادب ِاُردو میں اُن کاتذکرہ ہوتا ہے۔نہ ان کے مضامین کاانتخاب کہیں چھپتا ہے، نہ سماج میں ان کووہ مقام ملتا ہے جوایک لیڈر کے لیے مخصوص ہے۔جب تک ہاتھ پاؤں چل رہے ہیں اور دماغ کام کرنے کے قابل ہے لوگ ان کے مضامین پڑھتے اور واہ واہ کرتے ہیں۔ لیکن اِدھر اخبار ردّی خریدنے والے کے نذر ہوجاتے ہیں اوراُدھر جب اُن پر بڑھاپا آیااور ازکاررفتہ ہوگئے پھرکوئی ان کو اوران کے بچّوں کوپوچھتا بھی نہیں۔ اوران کے پاس اتنا اندوختہ اور پس انداز ہوتا نہیں کہ اس کے سہارے زندگی کے یہ دن بِتادیں۔ غرض کہ یہ وہ مظلوم طبقہ ہے جواپنی جوانی اورصحت کوقوم کی خاطر لُٹا دینے کے باوجود محروم کامحروم رہتا ہے۔ نہ اسے بقائے دوام ملتی ہے اور نہ معاشی رفاہیت اسے نصیب ہوتی ہے۔ سرمایہ داراس کی محنت سے سونے اور چاندی سے کھیلتے ہیں اوراس کے لیے بڑھاپے میں جوانی کے ماتم کے سوا کوئی اور مشغلہ نہیں ہوتا۔
بریشم قبا خواجہ از محنت او
نصیب تنش جامۂ تار تارے
عبدالباقی اسی بدنصیب طبقہ کاایک فرد تھا، وہ دنیا سے رخصت ہوگیا اور کون کہہ سکتا ہے کہ کیسی کیسی حسرتیں ،تمنّائیں اورآرزوئیں اپنے ساتھ لے گیا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مردتھا
[مارچ ۱۹۶۸ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...