1676046603252_54338704
Open/Free Access
118
مولانا حمید الدین فیض آبادی
سخت افسوس ہے ہمارے عزیز دوست اور فاضل رفیق مولانا سید حمید الدین صاحب فیض آبادی ۱۵؍اور ۱۶؍ نومبر کی درمیانی شب میں مظفر نگر کے قریب کارکے ایک نہایت شدید حادثہ کاشکار ہوکر ڈرائیور کے ساتھ خودبھی اسی وقت جان بحق ہوگئے۔ انا ﷲ واناالیہ راجعون۔ مولانا کے ساتھ کارمیں اہل خانہ بھی تھے ۔ان میں سے آٹھ نوبرس کاایک نواسہ اس درجہ شدید زخمی ہواکہ چارروز تک مسلسل بیہوش رہنے کے بعد آخروہ بھی جل بسا۔ اہلیہ اور صاحبزادی بھی شدید مجروح ہوگئی تھیں۔مولانا اسعد میاں کے خسرتھے۔اور جو بچہ زخموں کی تاب نہ لاکر دنیاسے رخصت ہوگیاوہ مولاناکاجگر گوشہ تھا اورمولانا مرحوم کی اہلیہ اورصاحبزادی علی الترتیب موصوف کی خوشدامن اوراہلیہ ہیں،اس بناپر مولانا اسعد کے لیے یہ حادثہ کس درجہ صبرآزما نااور جانگسل ہوگالیکن اس موقع پرانھوں نے جس غیر معمولی صبر واستقامت کامظاہرہ کیاہے۔دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ انہیں اس کا اجر عظیم عطا فرمائے۔
مولاناحمیدالدین صاحب کاوطن فیض آبادکے ضلع میں تھا۔ابتدائی تعلیم وہیں کہیں پانے کے بعد دیوبند آگئے تھے، علوم وفنون کی تکمیل یہیں کی تھی۔آخر میں دورۂ حدیث جامعہ اسلامیہ ڈابھیل ضلع سورت میں پڑھا۔ دارالعلوم دیوبند میں یہ مجھ سے جونیر تھے لیکن اپنی نیکی ،ذہانت،اوراستعداد علمی کے باعث مدرسہ کے ممتاز طلبا میں شمار ہوتے تھے ۔ان کوعربی زبان و ادب،منطق وفلسفہ اورفقہ و حدیث سب کے ساتھ یکساں مناسبت تھی لیکن فراغت کے بعد فقہ وحدیث کے ہی ہوکررہ گئے۔چنانچہ انہیں مضامین کادرس دیتے تھے۔اس سلسلہ میں کئی برس ندوۃ العلماء لکھنؤ میں شیخ الحدیث کے عہدہ پرفائز رہے۔پھر ۴۹ء میں میں مدرسۂ عالیہ کلکتہ کاپرنسپل مقرر ہواتو میں نے ان کو لکچرر فقہ وحدیث کی جگہ پر بلالیا۔چند سال یہاں کام کرنے کے بعد استعفادے کر دارالعلوم دیوبند پہنچ گئے۔لیکن ابھی ان کااستعفا منظور نہیں ہوا تھا کہ چند فتنہ انگیزوں نے میرے خلاف ایک ہنگامہ برپا کردیا اورصورت حال ایسی پیدا ہوگئی کہ میری درخواست پر مولانا پھر کلکتہ واپس آگئے اور اس وقت سے لے کر وفات تک اسی درسگاہ سے وابستہ رہے۔ ۵۸ء میں لکچرر کے عہدہ سے ترقی کرکے پروفیسر تفسیر وحدیث ہوگئے تھے لیکن میرے کلکتہ چھوڑنے کے بعد مدرسۂ عالیہ کے حالات میں جوابتری پیدا ہوئی، اس کاایک افسوسناک نتیجہ یہ بھی ہواکہ مولانا مرحوم کو پھر لکچرر کے عہدہ پرواپس کردیاگیا اور پروفیسر کی جگہ پرایک ایسے صاحب کاتقرر ہوگیا جومولانا سے بھی جونیر تھے آخر اسی لکچرر کی پوسٹ پروہ دنیا سے رخت سفر باندھ گئے۔
مولانا بڑے عابد وزاہد ،متشرع اور صاحبِ صلاح وتقویٰ عالم تھے۔گفتگو کم کرتے تھے لیکن جوبات کہتے تھے جچی تلی کہتے تھے۔کئی برس سے دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے ممبرتھے، مجلس کے جلسوں میں پابندی اوراہتمام سے شریک ہوتے اور بحث میں دل چسپی کے ساتھ حصہ لیتے تھے۔ان کا یہ سفر بھی مجلس شوریٰ کے جلسہ میں شرکت کی غرض سے تھا۔کلکتہ سے دہلی آئے اوردہلی سے دیوبند جارہے تھے۔اخلاق وعادات کے لحاظ سے بڑے خوش مزاج متواضع اور وضعدار تھے، جس سے جورسم تھی اسے بہرحال نباہتے تھے ۔اس زمانہ میں جبکہ مستند اربابِ علم ودین کاقحط یوں ہی کچھ کم نہیں ہے، مولانا کی وفات علوم دینیہ کے حلقوں کے لیے ایک شدید حادثہ ہے۔اﷲ تعالیٰ ان کے مدارج ومراتب بلند فرمائے اور پسماندگان کوصبر جمیل کی توفیق عطا ہو۔آمین۔
[دسمبر ۱۹۶۸ء]
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |