1676046603252_54338707
Open/Free Access
120
مولانا لقاء اﷲ عثمانی
افسوس ہے پچھلے دنوں مولانا لقاء اﷲ صاحب عثمانی کاان کے وطن پانی پت میں انتقال ہوگیا۔عمراگر چہ اسی (۸۰) برس سے زیادہ تھی لیکن قویٰ اچھے تھے۔ شب کے آخری حصہ میں ان پر دل کادورہ پڑااور صبح تک مرغِ روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگیا۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔
مولانا تحریکِ خلافت اور پھر تحریک آزادی دونوں کے ممتاز زعما میں تھے اور اس جرم میں عمر کے سات برس قیدوبندکی سختیاں برداشت کرچکے تھے۔ان کا ساجری، بے خوف اور بے لوث ہونا سخت مشکل ہے۔ ستمبر ۱۹۴۷ء کا تصور کیجیے، ملک کوتقسیم ہوئے ابھی دوہفتے ہوئے ہیں پورامشرقی پنجاب قتل وغارت گری کی آگ میں جل رہاہے اور پانی پت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔مسلمان قافلہ درقافلہ روانہ ہورہے ہیں یہاں تک کہ شام آئی جب کہ پورے پانی پت میں صرف ایک مولانا تنہامسلمان رہ گئے۔ عزم واستقلال اور پھر مخلصانہ خدمتِ خلق کانتیجہ یہ ہوا کہ جولوگ مسلمان کی صورت تک دیکھنے کے روادار نہ تھے وہ بھی مولانا کے گرویدہ اورخدمت گزار ہوگئے۔ طبعاً نہایت شگفتہ مزاج اورعملاً بڑے عابد و مرتاض تھے۔ مجھ پرہمیشہ بڑی شفقت فرماتے تھے ۔چند برس ہوئے علی گڑھ اپنی آنکھ بنوانے کی غرض سے آئے ہوئے تھے اوراپنے ایک عزیز کے ہاں مقیم تھے۔ میں حاضر ہواتوحسبِ معمول غیرمعمولی شفقت بزرگانہ کے ساتھ پیش آئے اور جس چارپائی پر وہ بیٹھے تھے میں اس کی پائینتی کی جانب بیٹھنے لگاتو فرمایا کہ یہ ہر گز نہیں ہوگا اور ہاتھ پکڑ کرزبردستی سراہنے بٹھایا۔ میں نے عرض کیاحضرت! آج یہ خلاف معمول اس درجہ تکلف کیوں؟ چمک کر جواب دیا ’’ہوں !تمہاری کتاب ’صدیق اکبر‘ اﷲ کے ہاں مقبول ہوگئی ہے اور یہ مجھے خواب میں دکھایا گیا ہے تو کیا اب بھی میں تمہاری تعظیم نہیں کروں گا ‘‘۔اﷲ اﷲ! اب ایسے بزرگ اور سلف صالحین کے صحیح نمونہ کہاں ملیں گے۔اﷲ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔آمین۔ [ فروری ۱۹۶۹ء]
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |