Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

ڈاکٹر ذاکر حسین
Authors

ARI Id

1676046603252_54338710

Access

Open/Free Access

Pages

121

ڈاکٹر ذاکر حسین
افسوس ہے ڈاکٹر ذاکر حسین بھی ہم سے جدا ہوگئے۔وہ ہماری قومی تعلیم کے معمارِ اوّلین، اس ملک میں سیکولرزم کی آبرو اورجمہوریت کاوقار تھے۔ان کی وفات سے ہماری قومی زندگی میں جوخلا پیدا ہواہے اس کی تلافی عرصے تک نہ ہو سکے گی۔کم وبیش بہتّر(۷۲) سال کی عمر پائی۔ ۳؍مئی کی صبح کواچھے خاصے تندرست اُٹھے۔حسبِ معمول فجر کی نماز اداکی، اس سے فارغ ہوکر کچھ مطالعہ کیا، اخبارات پڑھے، پھر ہلکا پھلکا ناشتہ کیا۔یہ سب کرتے کراتے گیارہ بجے کاعمل ہوچکا تھا اوروہ روزانہ معمول کے مطابق طبّی امتحان کے لیے تیار ہورہے تھے کہ اچانک دل کا دورہ پڑا ۔ایک سے ایک قابل ڈاکٹر موجود تھے ہی فوراً اپنی جیسی ساری تدبیریں کرڈالیں لیکن وقتِ مدعو آپہنچا تھا۔اس کے سامنے کچھ پیش نہ چلی اور روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔انا ﷲ واناالیہ راجعون۔
مرحوم کی قومی زندگی کے دو دَورہیں،ایک جامعہ کے ساتھ وابستگی سے لے کرتقسیم تک، اور دوسرا اس کے بعد سے وفات تک۔پہلے دورمیں جوایک ربع صدی پر پھیلا ہواہے مرحوم کاکردار ایک ہیرو،نہایت حوصلہ مند جرنیل اورعظیم الشان رہنما کاکردار رہاہے۔انھوں نے جرمنی سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی تھی۔اس کے علاوہ تعلیم بھی ان کاخاص مضمون رہاتھا۔انگریزی اوراُردو دونوں زبانوں میں تقریر وتحریر کاملکہ اورسلیقہ خداداد تھا۔ غرض کہ علمی اور فنی حیثیت سے ان کے پاس وہ سب کچھ تھا جس کے باعث وہ شہرت ، عشرت اورراحت کی زندگی بڑی آسانی سے بسر کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے محنت ومشقت اورعسرت کی زندگی اختیار کی۔ابھی جرمنی میں تھے کہ انھیں معلوم ہواکہ مولانا محمدعلی مرحوم وغیرہ نے جوجامعہ ۱۹۲۰ء میں قائم کی تھی۔وہ مالی پریشانیوں کی صیدزبوں ہے اور اس کو بند کردینے کے منصوبے ہورہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب اپنی تعلیم ختم کرچکے تھے، انھیں اس کا علم ہوا توفوراً کہلا بھیجا کہ جامعہ کوہرگز بند نہ کیا جائے اور وہ عنقریب ہندوستان پہنچ کر ایک نہایت قلیل مشاہرہ پراپنے آپ کو مع اوردوتین رفیقوں کے جامعہ کی خدمت کے لیے وقف کردیں گے ۔انھوں نے جو کچھ کہاتھا اور جس کاعہد کیاتھا وہ کرکے دکھادیا۔ڈاکٹر صاحب کایہ دَورِ حیات ایک اعلیٰ مقصد کے لیے غیرمعمولی ایثار و فدا کاری، حیرت انگیز عزم وہمت اور جذبہ عمل اور سخت ترین دشواریوں کے باوجود مسلسل جدوجہد کادور ہے ۔اس زمانے میں جامعہ دلّی کے علاقہ ’قرول باغ‘ میں کرایہ کے چند مکانوں میں قائم تھی۔ اس کی سند کوحکومت میں کوئی اعتبار حاصل نہیں تھا ۔ڈاکٹر صاحب اسی علاقے کے ایک چھوٹے سے مکان میں جس کاکرایہ پندرہ روپیہ ماہوار تھا، رہتے اورصرف پچھتر (۷۵) روپیہ ماہوار تنخواہ لیتے تھے۔زندگی بے حد سادہ اور معمولی تھی۔اس دورمیں ان کو بارہا سخت حوصلہ شکن حالات وحوادث کا سامنا کرناپڑا لیکن ہمّت کبھی نہیں ہاری اور طوفانوں کامقابلہ کمال پامردی اوراستقامت کے ساتھ کرتے رہے۔بے شبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ملک کی ایک نہایت اہم اورعظیم الشان یونیورسٹی کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب کی تعمیری جدوجہد کاایک ایسا شاہکار ہے جوتاریخ کے صفحات میں ان کانام ہمیشہ روشن رکھے گااور دنیا ان کو ایک عظیم انسان کی حیثیت سے یاد کرے گی۔
مرحوم کی زندگی کادوسرا دَور جوتقسیم کے کچھ دنوں بعدسے شروع ہوتا ہے اس میں وہ پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔مرحوم کوجامعہ سے جو محبت تھی اور جس کے لیے انھوں نے اپنی زندگی کے بہترین ماہ و سال قربان کردیے تھے اس کے پیشِ نظر ان کے لیے جامعہ کو چھوڑدینا کسی طرح گوارا نہیں ہوسکتا تھالیکن تقسیم کے باعث یہاں کے مسلمانوں اوران کے اداروں کے لیے جوحالات غیرمتوقع طور پرپیدا ہوگئے تھے ان سے علی گڑھ کامتاثر ہونا نا گزیر تھا، اس بنا پرمرحوم نے وقت کاایک ضروری مطالبہ سمجھ کرگورنمنٹ کی طرف سے علی گڑھ کی پیشکش کوقبول کرلیا۔ گویااب تک انھوں نے جامعہ کے لیے اپنی ہرچیز قربان کی تھی لیکن اب وقت آگیا تھاکہ وہ کسی اورچیز کے لیے جامعہ کوقربان کر دیں۔علی گڑھ میں وائس چانسلری کے بعد وہ بہار کے گورنر ہوئے۔پھر نائب صدر اوراس کے بعد صدر۔جامعہ سے تعلق کے زمانے میں مرحوم کی زندگی ایک خالص عوامی زندگی تھی۔جامعہ سے ان کا رشتہ ٹوٹا تووہ عوامی زندگی سے دُور ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ آخری بارہ برس میں توان کاعوام سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ ایک انسان جب کسی ذمہ دار عہدے پرہوتا ہے تو کچھ لوگ اس سے خوش ہوتے ہیں اور کچھ ناراض، اس بناپر اس کے خلاف کچھ نہ کچھ شکاتیوں کاہونا لازمی ہے۔ چنانچہ یہ شکایات ڈاکٹر صاحب سے ہوئیں، لیکن یہ شکایات بجا ہوں یا بے جا، اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ مرحوم کی شخصیت بڑی پُروقارو پُرعظمت تھی، وہ بھاری بھرکم ہونے کے ساتھ دلکش اور جاذب بھی تھی۔قدرت نے ان کو حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت کے جوہر سے بھی اس طرح نوازا تھاکہ ان کی شخصیت میں مقناطیسیت کی خاصیت پیدا ہوگئی تھی۔شرافتِ نفس،مروت اور شگفتہ طبعی اُن کی رگ رگ میں سرایت کیے ہوئے تھی۔علم وفضل،ذہانت وذکاوت اورجودتِ فکر کے ساتھ شیریں گفتاری کایہ عالم تھاکہ بات کرتے تو مُنہ سے پُھول برستے تھے۔خندہ روئی اورفرخندہ جبینی ان کی فطرت تھی۔ان کوقدرت نے اس دنیا میں وہ سب کچھ دیا جواہلِ دنیا کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایۂ فخر ونازش ہوسکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ دل کے غنی دنیوی تکلفات و تعیشات سے بالکل بے پروااور اسی طرح سچ مچ صوفی اور درویش صفت انسان تھے۔ان کی طبیعت میں خاکساری، وضعداری،انسانیت نوازی اور عام محبت و ہمدردی کاجوجذبہ تھا، صدارت کے زمانے میں بھی اس میں فرق نہیں آیا ۔وہ وقت سے لڑ بھی سکتے تھے اور اس سے سمجھوتہ بھی کر سکتے تھے ۔ان کی زندگی کاپہلا دوران کی پہلی استعداد و صلاحیت کا مظہر ہے اوردوسرا یعنی آخری دور دوسری صفت کا۔اللھم اغفرلَہٗ وارحمہ۔ [مئی ۱۹۶۹ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...