Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > الحاج شیخ فیروز الدین جاپان والا

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

الحاج شیخ فیروز الدین جاپان والا
Authors

ARI Id

1676046603252_54338716

Access

Open/Free Access

Pages

124

الحاج شیخ فیروز الدین جاپان والا
افسوس ہے پچھلے مہینے کی ۷؍تاریخ کوسہ پہر کے وقت محترم الحاج شیخ فیروز الدین صاحب جاپان والے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔مرحوم دہلی کی پنجابی برادری کی بزرگ ترین شخصیت تھے۔ابھی اپریل کے شروع میں کلکتہ جانا ہوا تھا تو معمول کے مطابق ان سے تقریباً روزانہ ہی ملاقات ہوتی تھی ۔کولوٹولہ نمبر ۸۰ بلڈنگ کابڑاحصہ پچھلے سال منہدم ہوگیاتھا، اس لیے اس مرتبہ قیام مدح ہاؤس ۱۶۔ذکریا اسٹریٹ میں ہوا اورمیزبان حاجی قاسم جادوت صاحب تھے۔
کولوٹولہ نمبر ۸۰ کی نسبت سے یہ مکان فاصلے پرہے شیخ صاحب یا پیادہ چل کریہاں تشریف لاتے تھے اوردیرتک بیٹھتے تھے۔بُڑھاپے کی وجہ سے قدرتی طور پر ناتواں تھے لیکن ان کی صحت کی عام رفتار کودیکھ کرکہیں دوردور بھی یہ خیال نہیں ہوتا تھاکہ اس قدر جلد دنیا سے جارہے ہیں۔
آخری ملاقات ۱۸؍ اپریل کی صبح کوہوئی تھی، حسبِ معمول بہت سی باتیں ہوئیں خاص طور پر انسانی اعمال اوران کے نتائج پردل پذیر گفتگو رہی۔مرحوم اس فلسفے پر بھرپور یقین رکھتے تھے کہ انسان جوکچھ کرتاہے اس دنیا میں کسی نہ کسی رنگ میں اس کا بدل ضرورسامنے آتا ہے، وہ مکافاتِ عمل کے اس پہلو پرزیادہ زور دیتے تھے اورباربار کہا کرتے تھے کہ قانونِ مکافات کوصرف آخرت پر چھوڑ کر بے فکر نہ ہوجانا چاہیے۔ان کی باتیں دل چسپ اوراثر انگیز ہواکرتی تھیں۔مجھ سے بے تکلف تھے اس لیے زیادہ کھل کرباتیں کیاکرتے تھے اور قلندرانہ انداز میں کیاکرتے تھے۔ اس روز دورانِ گفتگو مشہور عالم، محدث اورصوفی شیخ عبدالوہاب شعرانی ؒ کے واقعہ کاذکر آگیا جس کوسن کر دیرتک سردھنتے رہے۔میں نے کہاکہ شیخ نے لکھا ہے کہ جس روز میری بیوی ……اکھڑے اکھڑے تلخ وترش لہجے میں مجھ سے بات کرتی ہے تو سمجھ جاتاہوں کہ میں نے ضرور کوئی ایسا عمل کیاہے جس کا بدلہ آج اس صورت میں مل رہا ہے اور پھر حدیث ۔اِنماھِیَ اعمالکم تُرّدُ اِلَیکم‘‘(یہ تمہارے اعمال ہی ہیں جوتم پرلوٹائے جارہے ہیں) کی تشریح فرمائی۔
مرحوم کے مزاج میں عجلت زیادہ تھی، چاہتے تھے جو کام کرنا ہے اس میں دیر نہ ہونی چاہیے اور ان کایہ انداز زندگی کے ہرگوشے میں نمایاں تھا۔امورِ خیر میں بھی یہی شان تھی، بڑے بڑے کام منٹوں میں کرگزرتے تھے۔طبیعت کے اسی انداز کی وجہ سے بیٹھے بیٹھے ایک دم سے گھبراکر اٹھ جایا کرتے تھے چنانچہ اٹھے اورفرمایا ’’مفتی صاحب میں چلا‘‘، خیال تھا کہ ۱۹؍ کوپھر ملاقات ہوگی۔مگر تشریف نہیں لائے بعد میں ان کے بڑے صاحبزادے محمداحمد صاحب سے معلوم ہواکہ’’ کمزوری زیادہ محسوس کررہے تھے شاید اسی لیے آپ کے پاس نہیں پہنچ سکے ‘‘ میں پروگرام کے مطابق ۱۹؍ کی شام کوکالکامیل سے دہلی کے لیے روانہ ہوگیا۔ کچھ دنوں کے بعد محمد احمدصاحب دہلی آئے اور دوہفتوں سے زیادہ قیام کیا۔دوران قیام میں ان کواطلاع ملی کہ والدصاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، پیشاب کی نالی کے غدود بڑھ گئے ہیں، فلاں تاریخ کو آپریشن کے لیے ہسپتال میں داخل ہو رہے ہیں۔ محمداحمدصاحب یہ اطلاع پاتے ہی کلکتہ روانہ ہوگئے اور ٹرین چونکہ کئی گھنٹہ تاخیر سے پہنچی اس لیے ان کے پہنچنے سے پہلے ہی ہسپتال میں داخل ہوچکے تھے۔شیخ صاحب کے چھوٹے صاحبزادے محمدیوسف صاحب فیروزی بی ۔اے ۔گھر پر موجود تھے، انھوں نے اعلیٰ پیمانے پرتمام ضروری انتظامات کر دیے ۔کئی روز کے بعد میرے پاس محمد احمد صاحب کاخط آیاکہ آپریشن پوری طرح کامیاب رہا، میاں صاحب ہوش میں ہیں اور ہنس ہنس کر اشارے سے باتیں کررہے ہیں ۔دوسرا خط آیا کہ حالت ہر طرح قابلِ اطمینان ہے ہسپتال سے جلد مکان پرآجائیں گے۔کچھ وقفے سے تیسرا خط آیا کہ آج بخیریت ہسپتال سے آگئے ہیں اور میرے ہی پاس ہیں۔طبیعت نارمل ہوتی جارہی ہے، نقاہت میں بھی تخفیف ہورہی ہے۔ادھر محبی مولاناحکیم محمدزماں صاحب کاخط آیاکہ شیخ صاحب کوآپ کاسلام پہنچادیا ہے اور آپ کی طرف سے مزاج پرسی بھی کردی ہے وہ بھی آپ کوسلام کہتے ہیں اورفرماتے ہیں’’فکر کی کوئی بات نہیں ہے میں ٹھیک ہوں۔‘‘ اتنی تفصیلی اورقابل اطمینان اطلاعات کے بعد ہم لوگوں کے لیے کسی خاص پریشانی کاکوئی سوال ہی نہیں تھا۔ ۷؍جون کی شام کوکسی ضروری میٹنگ میں گیا ہوا تھااور واپسی ۹بجے شب کے بعد ہوئی تھی۔ دفتر میں قدم رکھا تومحمد احمد صاحب کاتار رکھا ہوا ملا کہ ’’والد صاحب سہ پہر کو ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے ‘‘۔ تارپڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے توحواس گم ہوگئے اور بے اختیارآنکھوں میں آنسو آگئے۔چالیس سال کے تعلقات اور لیل ونہار کی سرد و گرم گردشوں کانقشہ آنکھوں میں پھرگیا۔مرحوم کے برادر نسبتی شیخ محمد عمرصاحب لیس والوں کو فون کیا۔اس وقت تک ان کوحادثے کی خبر نہ تھی۔چندمنٹ بعدان کو بھی تارمل گیا اور ہم لوگ دیرتک مرحوم کے اخلاق، خصائل و عادات اورغیر معمولی خصوصیات کاتذکرہ کرتے رہے۔انتقال کے وقت ان کی عمر ۸۲،۸۳ سال کی تھی۔ دولت و ثروت اور ہر طرح وسائلِ راحت وآسائش کے باوجود سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی تھے۔مکان اوردکان پرکئی کئی کاریں رہتی تھیں۔لیکن موٹر سواری کے پابند نہیں تھے۔اکثر ٹرام پربھی سفر کرتے تھے اور پیدل بھی چلتے تھے۔ انتہائی خوش خوراک اور خوش لباس ہونے کے باوجود سادگی پسند تھے۔ نفاست کے ساتھ سادگی ان کی زندگی کاخاص جوہرتھی۔ ان کی غرباء پروری، مہمان نوازی، کشادہ دستی، تواضُع ،حُسنِ سلوک اور بے لوث محبت وشفقت کی وجہ سے سب ہی ان کے گرویدہ تھے۔سوسائٹی کے ہر طبقے میں ان کااحترام تھا۔ ضرورت مندوں کی روزانہ اور ماہانہ مدد کرنا ان کے معمولات میں شامل تھا ۔کتنی ہی بیواؤں کے وظیفے ان کے یہاں سے جاری تھے۔اپنے پیسے سے کتنے ہی لوگوں کے کاروبار جاری کرادیے، کتنے ہی لوگوں کو قرض حسنہ اورعام اعانت سے نوازا۔کبھی کبھی تومصارف خیر کی جستجو میں ان کاانداز والہانہ ہوجاتا تھا۔سچ تویہ ہے کہ ملی کاموں کے لیے خواہ وہ اجتماعی ہوں یا انفرادی ان کا دل ہمیشہ کھلارہتا تھا بلکہ خدمت کرکے پھول کی طرح کِھل جاتے تھے۔ کلکتہ کے اورینٹل چیمبر آف کامرس کے بانی اور سر پرست تھے۔ ان کے لائق صاحبزادے شیخ محمد یوسف صاحب فیروزی آج بھی اس کے روح رواں ہیں۔ کو بےؔ (جاپان)میں شاندار اور لائق دید تاریخی مسجد کی تعمیر کرائی اوراس میں خود ہی پہلی اذان دی۔ ان کے اعتقاد کی لطافت اور پاکیزگی کا اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فرمایا کرتے تھے ’’میں نے جاپان سے بہت کچھ دولت کمائی جی چاہتاتھا کہ اس دولت کاکچھ حصہ اسی سرزمین پرخرچ ہو۔‘‘ اس مسجد کافوٹو شوق سے دکھایا کرتے تھے۔ دارالعلوم دیوبند ،جمعیۃ العلماء ہند دہلی،اسلامیہ ہسپتال کلکتہ اورندوۃ المصنفین دہلی کے خاص معاون تھے بلکہ ندوۃ المصنفین توکہنا چاہیے کہ ان کے دامنِ جودوسخا کے سایہ ہی میں پروان چڑھا۔اس طرح کے علمی ادارے ملک کی تقسیم سے پہلے حیدرآباداوربھوپال جیسی ریاستوں کی اِعانت اورسرپرستی سے چلتے تھے۔اورتقسیم کے بعد حکومت ہنداور حکومت کشمیر نے بعض تصنیفی اداروں کی سر پرستی کی۔لیکن ندوۃ المصنفین کے لیے شیخ صاحب کی ذات ہی سب کچھ تھی اور اس پر طرہ یہ تھا کہ اس اعانت کوکبھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ ان کو کبھی اس بات کااحساس نہیں ہواکہ ان کی مدد سے کتناعظیم الشان تعمیری کام وجود وظہور میں آیا ہے۔وہ صرف یہ سمجھتے تھے کہ مفتی صاحب اوران کے رفیق جو کچھ کہہ رہے ہیں ملت کے لیے مفید ہی ہوگا۔
اس وقت ماضی کی تاریخ کاایک ایک واقعہ یادآرہا ہے،۱۳۵۲ھ میں حضرت الاستاذ علامہ سید محمدانور شاہ صاحب کشمیری قدس سرّہٗ کے وصال کے بعد ان کی یادگار میں ہم لوگوں نے تصنیف وتالیف کاایک ادارہ دیوبند میں قائم کرنا چاہا اس کے لیے ابتدائی تجویزیں مرتب کیں۔پمفلٹ کی شکل میں ایک تعارف نامہ شائع کیا اوراس مقصد کے لیے دیوبند ہی میں ایک اجتماع طلب کیا۔ اس اجتماع میں دہلی،پنجاب اوریوپی کے بڑے بڑے علماء نے جن کوحضرت شاہ صاحبؒ سے تعلقِ خاص تھاشرکت کی تھی۔یہ اجتماع اس مکان میں ہواتھا جس میں اب ماہنامہ تجلّی کے مدیر عزیز عامر عثمانی رہتے ہیں۔
حضرت مفتی کفایت اﷲ صاحبؒ ،مولانا احمد سعید صاحبؒ ،مولانا احمدعلی صاحب لاہوری، مولاناحبیب الرحمنؒ لدھیانوی اور بہت سے اکابر دیوبند اس اجتماع میں شریک تھے۔ تمام حضرات حضرت الاستاذ رحمۃ اﷲ علیہ کی ذاتِ والا صفات سے محبت وعقیدت کے جذبے میں سرشار تھے اور اس اجتماع کی ایک ایک تقریر کیف واثر میں ڈوبی ہوئی تھی۔ بہرحال اس ادارے کانام ’’مجلس علمی‘‘ قرار پایا۔ اس کے بعد کام کو آگے بڑھانے کے لیے میں اورمولانا حفظ الرحمن صاحبؒ اور بعض اکابرِ دیوبند دہلی آئے اورکوٹھی حاجی علی جان میں ایک بڑا نمائندہ اجتماع ہوا۔اس اجتماع میں فرم حاجی علی جان کے مالک حاجی عبدالغفار صاحب مرحوم کے علاوہ حضرت مفتی محمدکفایت اﷲ صاحبؒ، حضرت مولانااحمد سعید صاحبؒ ،امام صاحب جامع مسجد، خان بہادر حاجی شیخ رشیداحمد صاحبؒ اور دیگر عمائد دہلی کے علاوہ جناب خواجہ حسن نظامی صاحبؒ نے بھی شرکت فرمائی تھی۔ خواجہ صاحب کوچونکہ حضرت شاہ صاحب سے شرفِ تلّمذ حاصل تھااس لیے قدرتی طور پران کوایک ایسے ادارے کے قیام سے دل چسپی تھی جوان کے استاذ کی علمی یادگار کے طور پر قائم کیا جارہا تھا۔خواجہ صاحب مرحوم نے اس جلسے میں نہایت پراثر اوردل چسپ تقریر فرمائی تھی اور حضرت شاہ صاحب ؒ جیسے یگانۂ روزگار عالمِ دین اور محدث کی شاگردی پر فخر کااظہار کیاتھا۔ یادآتا ہے خواجہ صاحب نے اسی مجمع میں اعلان فرمایا تھا کہ ’’مجلس علمی‘‘ سے سب سے پہلے حضرت استاذ کی جوکتاب شائع ہوگی اس کے تمام مصارف وہ ادا کریں گے، غالباً ’’مشکلات القرآن‘‘ کاذکر تھا۔لیکن حالات نے ایک نئی کروٹ لی،انہی دنوں میں بہار کے ہولناک زلزلے کی خبر آگئی اور طے کیاگیا کہ سردست اس مہم کو ملتوی رکھاجائے اور کچھ وقفے کے بعد دہلی اوردوسرے شہروں کادورہ کیاجائے۔اس عرصہ میں جوہانسبرگ جنوبی افریقہ کے مشہور لکھ پتی تاجر اورعالم اور ہمارے قدیم مخلص دوست حاجی محمدموسیٰ صاحب کو ’’مجلس علمی‘‘ کے قیام کی اطلاع ہوئی توانھوں نے اس پراصرار کیاکہ مجلس علمی کے لیے چندے کی ضرورت نہیں ہے اس کوہم چلائیں گے۔مولانا محمدموسیٰ مرحوم کو حضرت شاہ صاحب ؒ سے جوغیر معمولی عقیدت وشیفتگی تھی یہ اسی کاتقاضا تھااور مالی مشکلات کا ان کے سامنے کوئی سوال ہی نہیں تھا ۔اسی کے ساتھ ان کی رائے ہوئی کہ مجلس کا دفتر دیوبند کے بجائے ڈابھیل ہوگا۔ادھر ہم لوگ اپنے محددو پیمانے کے مطابق دیوبند میں کام شروع کرچکے تھے اورحضرت الاستاذ کی آخری تالیف ’’خاتم النبیین‘‘ (فارسی کی) جوحضرت نے بسترِ علالت ہی پر تصنیف فرمائی تھی، کتابت بھی کرا دی تھی۔مگرصورتِ حال کے تمام گوشوں پرغور کرنے کے بعدیہی بات قرار پائی کہ مجلس کادفتر ڈابھیل ہی منتقل ہوجائے۔میں اسی سال حج کو چلاگیا، واپس آیاتو معلوم ہوا کہ حاجی محمدموسیٰ صاحب ’’مجلس علمی‘‘ کواپنے خاص ذوق کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔وہ خاص ذوق یہ تھا کہ حضرت الاستاذ کی جو نادر تحقیقات ، متداول فروعی مسائل سے متعلق ہیں ان کو شائع کیاجائے اورساتھ ہی ساتھ عربی کی وہ قلمی کتابیں جو حنفی مذاق سے مطابقت رکھتی ہیں طبع کرائی جائیں۔ظاہر ہے یہ کام اپنی جگہ نہایت اہم اور مفید تھا لیکن ہم لوگوں کاذوق دوسرا تھا، ہماری خواہش یہ تھی کہ قدیم حقائق ومسائل کووقت کے جدید قالب میں اپنی مادری زبان اردو میں پیش کیا جائے اور جزوی وفروعی مسائل پرزیادہ زور نہ دیا جائے ’’مجلس علمی‘‘ کے قالب میں اس کی گنجائش نہیں تھی۔
ادھرہم لوگوں نے لٹریچر کے ذریعہ سے ملک وملّت کی ٹھوس تعمیری خدمت کاجو نقشہ بنایاتھا اس کو بروئے کارلانے کی ظاہری اسباب میں کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ۔زیارت بیت اﷲ سے فارغ ہوکر قیام کے ارادے سے دہلی آگیا۔ان دنوں مولانا سعید احمد مدیر برہان مدرسہ عالیہ فتح پوری کے اورینٹل سیکشن کے استاذ تھے اور محلہ سوئیوالان میں رہتے تھے۔ مجھے مولاناہی کی کشش یہاں لائی تھی۔وہ بھی کیازمانہ تھا،مولانا کوشائد ۴۵ روپے ماہانہ ملتے تھے، جن میں سے آٹھ روپے ماہانہ کرایہ مکان کے نکل جاتے تھے ،باقی میں مجھ سمیت پورے گھر کاگذر ہوجاتا تھا۔قیامِ دہلی کایہ زمانہ مختلف حیثیتوں سے سبق آموز اور تاریخی زمانہ تھا۔ایڈورڈپارک میں مغرب کی نماز کی بہت بڑی جماعت ہوتی تھی، ہر طبقے کے لوگ جماعت میں شریک ہواکرتے تھے،انہی میں حاجی محمداسماعیل صاحب جیون بخش مرحوم بھی تھے۔ ان کے ساتھ حافظ محمدادریس صاحب جملانے بھی آیا کرتے تھے۔ حاجی محمداسمٰعیل صاحب سے توقدیم تعلق تھا۔ لیکن حافظ محمدادریس صاحب مرحوم سے یہیں تعارف ہوا اوریہ تعارف بہت جلد تعلقِ خاص کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ ایک روز نماز سے فراغت کے بعد حافظ صاحب کہنے لگے، تمہاری کلکتہ میں بہت ضرورت ہے تیار ہوتو تحریک کروں۔ میں نے مولانا سعید احمد کے علاوہ دیگر احباب سے بھی مشورہ کیا۔سب کی یہی رائے ہوئی کہ مجھے کلکتہ جاناچاہیے۔قیام دہلی کے دنوں میں بارہا یہ بات سننے میں آئی تھی کہ کلکتہ میں ایک ملک التجّار شیخ فیروز الدین صاحب ہیں،ان سے ملاقات اور تعارف ہوجائے تو تصنیف وتالیف کے ادارے کی اسکیم کھڑی ہوجائے گی۔ یہ ۱۹۳۳ء کے وسط کازمانہ تھا، دوستوں کے مشورے کے مطابق کلکتہ کے لیے تیار ہوگیا۔یادآتا ہے کہ حضرت مولانا سیدحسین احمدصاحب ؒ نے بھی کلکتہ کے بعض مخلصوں کومیرے متعلق خطوط تحریر فرمائے تھے۔بہرحال حاجی محمداسمٰعیل صاحب مرحوم نے سفر کے انتظامات کیے اور میں بہت جلد روانہ ہوگیا۔میرے کلکتہ پہنچنے کے ۶ مہینے کے بعد مولانا محمد حفظ الرحمن صاحب بھی انجمن تبلیغ الاسلام سراج بلڈنگ میں تشریف لے آئے اوراس طرح دو قدیم دوست جن کے یک جا ہونے کی اب کم ہی توقع رہ گئی تھی پھر جمع ہوگئے۔ انجمن تبلیغ الاسلام مولانا ابوالکلام آزاد کی سرپرستی میں قائم تھی۔میں کولوٹولہ کی مسجد میں درس قرآن دیتا تھااور مولانا سراج بلڈنگ میں ہم دونوں کی یک جائی سے کلکتہ کی فضا میں عجیب رنگ پیدا ہوگیاتھا اور ہمارا حلقۂ تعارف بھی وسیع ہوگیا تھا۔ وقت گذرتا گیااور مولانا محمدحفظ الرحمن صاحبؒ نے شدید قسم کے درد سر کے دوروں کی وجہ سے دو سال کے بعد کلکتہ چھوڑ دیا اورامروہہ تشریف لے آئے۔ مولانا کی جدوجہد سے امروہہ کے دوحریف مدرسے مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد اور مدرسہ اسلامیہ چلّہ ایک لڑی میں منسلک ہوگئے تھے اورمولانا ان دونوں درس گاہوں کے مہتمم بنادئیے گئے تھے۔مولانا کے تشریف لے جانے کے بعد کلکتہ سے میراجی بھی اکھڑنے لگا تھا،پھربھی رہتارہا۔ان دنوں میں شیخ فیروز الدین صاحب کم سے کم سال میں چھے مہینے جاپان رہتے تھے،جب بھی تشریف لاتے ملاقات ہوتی ۔لیکن یہ ملاقات خیریت اورمزاج پرسی کی حد سے آگے نہیں تھی۔ میں ۱۹۳۳ء کے وسط سے ۱۹۳۷ء کے آخر تک کلکتہ رہا اورتصنیف وتالیف کے ایک ایسے ادارے کی ضرورت واہمیت کے متعلق جس کی اساس قدیم صداقتوں پر ہو مگر جس کاروپ نیاہو، قریبی دوستوں شیخ عبدالحمید صاحب اورحاجی اسرار احمدصاحبؒ وغیرہ سے مسلسل گفتگو ہوتی رہی، لیکن ان حضرات کی مالی حالت زیادہ اچھی نہیں تھی پھر بھی کام کی اہمیت اور مجھ سے ذاتی تعلق کی وجہ سے شوق سے مددکرنے کے لیے تیار ہوگئے۔
شائد ۱۹۳۷ء کے وسط میں جب کہ شیخ فیروز الدین صاحب جاپان سے نئے نئے تشریف لائے تھے۔ایک روز ظہرکی نماز کے بعد میں نے ان سے عرض کیاآپ سے ضروری بات کرنی ہے چند منٹ علیٰحدہ مرحمت فرمادیجیے۔ ہنس کر فرمانے لگے ’’ضرور ‘‘ شائداگلے ہی روز ظہر ہی کے بعد موصوف سے بات ہوئی۔ میں نے کسی تمہید کے بغیر ملاقات کامقصد ظاہر کردیا یعنی یہ کہ ایسا ادارہ قائم کرنے کاارادہ ہے جس کے لیے کلکتہ نہیں دہلی مناسب مقام ہے آپ سے اعانت کی درخواست ہے۔ فرمانے لگے مفتی صاحب یہ کام حکومتیں کرسکتی ہیں، عام لوگوں کے بس کے نہیں ہوتے،پھر بھی تعمیل حکم کے لیے حاضر ہوں۔ میں نے کہا سرِدست دوہزار روپیہ عنایت فرمادیں ،کچھ دوسرے لوگ بھی مدد کرنے کے لیے آمادہ ہیں، غالباً دوسرے دن دوہزار روپے کا چیک کولوٹولہ ۸۰ میں میرے پاس بھیج دیا۔ شیخ عبدالحمید صاحب اورحاجی اسرار احمد مرحوم سے پہلے بات ہوچکی تھی۔چنانچہ ان حضرات نے بھی دودو ہزار روپے قسطوں میں دینے کا وعدہ کرلیا۔اس کے بعد حاجی محمد الدین تاجر چرم سے بات ہوئی۔حاجی صاحب کے یہاں صرف عربی مدارس کی اہمیت تھی، وہ جدید لٹریچر کے ذریعہ سے مِلّت کی خدمت کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکتے تھے۔ پھر بھی میرے کہنے سے ہاں کرلی۔میں نے ان کے صاحبزادے حاجی محمدحسین مرحوم کوخزانچی بنایا اوررقم ان کے پاس جمع کرادی۔ وجود میں آنے سے پہلے کسی اسکیم کے لیے ارزانی کے اس زمانہ میں اتنی رقم کاجمع ہوجانا معمولی بات نہیں تھی۔میں نے اس موقع کوغنیمت جانا اور متعلقین کو کلکتہ ہی چھوڑکردہلی آگیا۔یہاں مولانا سعید احمدپہلے سے موجود ہی تھے، صرف مولانا محمد حفظ الرحمن صاحب کوامروہہ سے لانے کامرحلہ تھا۔اس زمانے کی دہلی اس وقت کی دہلی نہیں تھی، چندروز کی تلاش کے بعد قرول باغ میں ایک مناسب مکان کرایہ پرمل گیا۔یہ مکان مولانا سعیداحمد کے شیدی پورہ والے مکان کے قریب تھا۔ جیسے ہی مکان کاانتظام ہوا میں مولانا حفظ الرحمن کی خدمت میں امروہہ پہنچا اور صورت حال کی تفصیل بتائی۔جیسا کہ مرحوم کی عادت تھی ایک دم تیز ہونے لگے اورفرمایا: مفتی صاحب !کہیں اتنی تھوڑی رقم سے ادارے چلا کرتے ہیں یہ آپ کیاکررہے ہیں۔میں نے عرض کیا: مولانا! ابھی ادارہ قائم نہیں ہوا ہے اس کانام بھی تجویز نہیں ہوا ہے،صرف ایک اسکیم ہے۔کسی خیالی اسکیم کے لیے پہلے ہی مرحلے میں اتنی رقم کامل جانا معمولی بات ہے؟ ادارہ اگراب قائم نہ ہوا تو پھر کبھی نہ ہوسکے گا۔ہماری گفتگو رات کے بارہ ایک بجے تک رہی اور بالآخر مولانا دہلی تشریف لانے کے لیے آمادہ ہوگئے،اب اس داستان کو یہیں چھوڑیے۔کتاب کادوسرا ورق پڑھیے:
ادارہ باضابطہ قائم ہوگیا اور میرا ذاتی کتب خانہ جو حدیث، تفسیر، فقہ اور تاریخ کی منتخب کتب پر مشتمل تھا کلکتہ سے دہلی منتقل ہوگیا۔ ادارے کے نام کا سوال آیاتو مختلف ناموں پرغور ہوا۔ دوستوں نے بہت سے نام تجویز کیے مولانا حامدالانصاری غازی رفیق ادارہ نے ’’ندوۃ المصنفین‘‘ تجویز کیااور ہم سب اس نام پر متفق ہوگئے۔ادارہ تو قائم ہوگیا، اس کے اغراض ومقاصد بھی شائع ہوگئے، اخبارات میں اظہار رائے بھی ہونے لگا۔ لیکن تردد یہی تھاکہ یہ شاہانہ کام اس معمولی روپے سے کیسے چلے گا ابھی شائد مشکل سے ایک مہینہ ہواہوگا کہ جنوری ۱۹۳۸ء کی شدید سردی میں شیخ صاحب دفتر میں تشریف لائے، جاڑے کے کچھ قیمتی تحفے ساتھ تھے۔ بیٹھتے ہی فرمانے لگے ’’مفتی صاحب‘‘ آپ نے توواقعی ادارہ قائم کرلیا میں نے تو صرف آپ کے شوق کودیکھ کروہ رقم پیش کی تھی،اچھا بتائیے آپ کی فوری ضرورتیں کیا ہیں؟میں نے ابتدائی ضروریات کی تھوڑی سی تفصیل بتائی، کرایہ مکان، فرنیچر، لائبریری اورکچھ متفرق ضرورتیں۔ اسی وقت ایک سال کے کرایہ کا وعدہ فرمالیا،فرنیچر کاکام بارہ ہندوراؤ کی چھوٹی مسجد کے امام صاحب کے سپرد کیا اور اُس نشست یادوسری نشست میں سات ہزار روپے کاوعدہ لائبریری کے لیے فرمایا۔ ان کے وعدے اور عطا کافاصلہ بہت تھوڑا ہواکرتا تھا، شائد وعدے کے اگلے ہی دن اس رقم کابھی چیک بھیج نہیں دیا خود لے کرتشریف لائے۔اسی کے ساتھ ’’جیون بخش فیروز الدین فرم‘‘ سے جس کا موجودہ نام ’’جیون بخش محمد جان‘‘ ہے ایک مستقل ماہانہ رقم مقرر فرمادی جو سالہاسال تک جاری رہی۔
۱۹۳۷ء سے انقلاب ۱۹۴۷ء تک کوئی قابل ذکر منزل ایسی نہیں آئی کہ مرحوم نے ادارے کی تعمیر اورتوسیع وترقی میں بڑھ چڑھ کرحصہ نہ لیا ہو۔مجھے یہ ظاہر کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ مرحوم شیخ فیروزالدین اگر ندوۃ المصنفین کی اعانت اتنی فراخ دلی اورکشادہ دستی سے نہ فرماتے توادارہ اتنے بڑے پیمانے پر اتنی شاندار علمی خدمت انجام نہیں دے سکتا تھا۔ مرحوم آج دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کے کارنامے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے صاحبزادوں شیخ محمداحمد صاحب فیروزی اور شیخ محمد یوسف صاحب فیروزی کوان کے نقوشِ قدم کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔
[جولائی ۱۹۷۱ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...