Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا رسول خان
Authors

ARI Id

1676046603252_54338724

Access

Open/Free Access

Pages

130

مولانا رسول خان
لاہور کی ایک اطلاع سے یہ معلوم کرکے بہت افسوس اور دکھ ہواکہ حضرت الاستاذ مولانا رسول خاں صاحب بھی انتقال کرگئے۔ انتقال کے وقت عمر ایک سوچار یا پانچ کے لگ بھگ ہوگی۔ راقم الحروف کی طالبعلمی کے زمانہ میں اگرچہ دارالعلوم دیوبند کاہراستاداپنے فن میں ماہر اورکامل تھا لیکن چاراساتذہ ایسے تھے جو اپناجواب نہیں رکھتے تھے اوراربابِ علم کے حلقوں میں ان کی شہرت کاطوطی بولتا تھا ۔حدیث میں حضرتنا الاستاذ مولانا محمدانور شاہؒ الکشمیری ،ادب میں مولانا محمد اعزاز علی صاحبؒ ،منطق میں مولانا محمدابراہیم صاحب بلیاوی اورفلسفہ میں مولانا رسول خاں صاحب رحمہم اﷲ رحمۃ ً واسعۃً۔چنانچہ راقم نے جس سال منطق کی آخری کتابیں حمدؔاﷲ اورقاضی مولانا محمدابراہیم صاحب سے پڑھی تھیں اسی برس فلسفہ کی اعلیٰ کتابیں صدرا اورشمس بازغہ مولانا رسول خاں صاحب سے پڑھیں، یہ دونوں استاد کتاب نہیں بلکہ فن پڑھاتے تھے ۔طالب علم نے کیا اورکتنی عبارت پڑھیں ہے اس سے ان کوکوئی واسطہ نہیں ہوتا تھا۔طالب علم عبارت پڑھتے پڑھتے رک گیا یاانھوں نے ہی رکو ادیا تواب کتاب کودیکھے بغیر منہ اٹھا کر تقریر شروع کردی۔ اﷲ اکبر! یہ تقریر کیاتھی،معلوم ہوتا تھا کہ علم وفن کے سمندر میں طوفان اٹھ آیا ہے اور موجیں ہیں کہ ایک دوسرے سے ٹکرارہی ہیں۔اس تقریر میں نفس مسئلہ کی وضاحت ہوتی تھی اوراس کے بعد اختلافات کامِع دلائل بیان اور پھران پر تنقید وجرح اورمذہب حق کی ترجیح اوراس کے وجوہ۔ پھران دونوں حضرات کے درس کی ایک مشترکہ خصوصیت یہ بھی تھی کہ تقریر بڑے اطمینان اورسکون سے کرتے تھے۔ اس میں نہ عجلت پسندی ہوتی نہ گھبراہٹ اور نہ کہیں زورشور! البتہ فرق یہ تھاکہ مولانا محمدابراہیم صاحب بڑے شگفتہ مزاج، خوش تقریر اور بزلہ سنج بھی تھے ،اس لیے ڈبیاسے نکال کر پان کھاتے جاتے اورموقع موقع سے کچھ مزاحیہ فقرے کہہ کر خود بھی ہنستے اور ہم لوگوں کو بھی ہنساتے رہتے تھے۔اس کے برخلاف مولانا رسول خاں صاحبؒ شروع سے آخر تک سنجیدہ بنے اور گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے تقریر کرتے رہتے تھے۔قہقہہ لگانا توجیسے انھیں آتاہی نہ تھا۔کبھی کبھی ان کے لبوں پرتبسم کاارتعاش البتہ ضرور دیکھا گیا ہے۔ کسی طالب علم سے خفگی ظاہر کرنی ہوتی تواسے ’’حمار ناہق‘‘ کہتے تھے۔ اس طریق درس کے باعث کتاب تو کبھی ختم نہیں ہوتی تھی لیکن اس کاعظیم فائدہ یہ تھا کہ طالب علم میں فن کا پختہ ذوق پیدا ہوجاتا اوراس کے مسائل ومباحث پراس کی نگاہ مبصرانہ ہوجاتی تھی۔مولانا رسول خاںؒ صاحب ایک عرصہ تک دارالعلوم میں رہنے کے بعد اورینٹیل کالج لاہور میں تشریف لے گئے۔تقسیم کے بعد لاہور میں دارالعلوم دیوبند کے طرز کی ایک عالیشان درس گاہ ’’جامعہ اشرفیہ‘‘ کے نام سے قائم ہوئی تومولانا اس کے پرنسپل مقرر ہوئے۔
۶۹ء میں لاہور جانا ہواتو ایک دن اپنے عزیز ڈاکٹر محمداسلم کے ساتھ عصر کی نماز کے بعد آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا،جامعہ کی عظیم الشان مسجد کے صدر دروازے کے باہر سبز گھاس پررومال بچھائے آرام کررہے اور دوطالب علم خدمت کررہے تھے۔ اس وقت عمر سوسال سے متجاوز تھی اور ضعف اور اضمحلال بھی نمایاں تھالیکن اس کے باوجود درس کاسلسلہ (غالباً اب حدیث پڑھاتے تھے) اب بھی جاری تھا۔گفتگو خوب حاضر جوابی سے کرتے تھے۔ بصارت اگرچہ کمزور ہوگئی تھی لیکن لوگوں کوپہچان لیتے تھے ۔اب میں چالیس پینتالیس برس کے بعد خدمت میں حاضر ہورہاتھا اوراس درمیان میں کبھی مراسلت اورخط وکتابت بھی نہیں ہوئی توخیال تھاکہ حضرت مجھ کو پہچانیں گے تو کیا؟ لیکن وہاں پہنچتے ہی جب میں نے سلام کے ساتھ مصافحہ کیا اورمیاں اسلم سلمہ نے میرانام جنس اور فصل کے ساتھ لیاتو حضرت اس طرح مسکرائے کہ گویا اپنے دیرینہ شاگرد کو پہچان لیاہے اورصرف اسی قدر نہیں بلکہ وہ اپنے شاگرد کی مصروفیتوں اورسرگرمیوں سے بھی بے خبر نہیں۔چنانچہ خیر صلّا کے بعد پوچھا: مولوی صاحب !آپ نے توہوائی جہاز کے سفر بہت کیے ہیں۔ یہ کہیے کہ آپ ہوائی جہاز میں نماز کس طرح پڑھتے ہیں؟ عرض کیا: میں ہوائی جہاز میں نماز ہی نہیں پڑھتا : مولانا نے تعجب سے فرمایا: اچھا! آپ نماز ہی نہیں پڑھتے !آخر یہ کیوں؟ میں نے جواب دیا: اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ریل کامعمولی سفر بھی کرتاہوں تواس میں جمع بین الصلوٰتین کرتا ہوں اور پھرہوائی جہاز ہر ڈیڑھ دو گھنٹہ کے بعد کہیں نہ کہیں اترتا اور چالیس پینتالیس منٹ قیام کرتا ہے اس لیے جس کسی ائیرپورٹ پروقت ہوادونمازیں ایک ساتھ پڑھ لیتا ہوں مجھے اندیشہ تھاکہ مولانا میرا یہ جواب سن کر برہم ہوجائیں گے لیکن مجھے تعجب کے ساتھ خوشی ہوئی جب مولانا نے فرمایا: اورہاں!ہوائی جہاز میں نماز ہوبھی تونہیں سکتی۔عبدالجبار صاحب ایڈوکیٹ جواس وقت موجود تھے انھوں نے پوچھا : ’’حضرت کیوں؟ فرمایا: نمازکے لیے ضروری ہے کہ علی وجہ الارض ہو:’’ تو پھر پانی کے جہاز میں نماز کیوں پڑھتے ہیں‘‘؟ انھوں نے پھردریافت کیا:ارشاد ہوا:سمندر حکم میں زمین کے ہے ‘‘ میں نے عرض کیا: یہ بات تودوسری ہے کہ میں نماز نہیں پڑھتا۔ لیکن جہاں تک مسئلہ کاتعلق ہے میری رائے میں نماز ہوائی جہاز میں ناجائز یا نادرست نہیں۔کیوں کہ وجوب و ادائے صلوٰۃ کے لیے انسان کا’زمین‘ پرہونا شرط نہیں ہے ۔قرآن مجید یاحدیث میں کہیں اس کاذکر نہیں فقہانے اگر ’’علی وجہ الارض‘‘کی قید لگائی ہے تو یہ صحیح نہیں،کیونکہ اب انسان تنگنائے ارض کواپنے لیے ناکافی پاکردوسرے سیاروں کواپنامسکن بنانے کی جدوجہد کررہا ہے اور اس میں آج نہیں توکل ضرور کامیاب ہوگا۔اقبال پہلے ہی کہہ گئے ہیں:
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
لیکن انسان خواہ کہیں بھی رہے ،بہرحال اسے عبد ہوکر رہنا ہے۔ اوراس لیے عبادت سے خلاصی نہیں‘‘ ابھی میں بول ہی رہاتھا کہ مغرب کی اذان ہوگئی اور میں حضرت الاستاذ سے رخصت ہوکر مسجد میں چلاگیا ۔
طبعاً نہایت خلیق ،متواضع اور بڑے عابد وزاہد بزرگ تھے۔اﷲ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کی قبر ٹھنڈی رہے۔آمین۔
[نومبر ۱۹۷۱ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...