Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

ڈاکٹر عبدالستار صدیقی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338732

Access

Open/Free Access

Pages

134

ڈاکٹر عبدالستار صدیقی
افسوس ہے پچھلے ماہ ڈاکٹر عبدالستار صاحب صدیقی کاالہٰ آباد میں انتقال ہوگیا۔ مرحوم ہندوستان کے ان مغربی تعلیم یافتہ اکابراساتذہ عربی وفارسی میں سے تھے جن کی نسل اب چراغ سحری ہے۔مرحوم علی گڑھ کے اس زمانے کے پڑھے ہوئے تھے جب کہ ابھی وہ صرف کالج تھا۔انہوں نے یہاں پروفیسر یوسف ہورووتس(JOSEF HOREVITZE)جو صدر شعبۂ عربی تھے ان کی شاگردی میں عربی میں ایم۔اے کیااور جب ان کوحکومت ہند کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفہ ملا توموصوف کے ہی مشورے سے۱۹۱۲ء میں جرمنی چلے گئے۔اس زمانے میں جہاں تک عربی اور فارسی میں ریسرچ کاتعلق ہے فرانس کے ساتھ جرمنی کے نام کابھی دنیا میں غلغلہ بلند تھا۔جرمنی میں جو مستشرقین علم و تحقیق کے جوئے شیر کے کوہکن مشہور تھے ان میں پروفیسر تھیوڈور نولڈیکی اورپروفیسر انولتمان(ENNO LITTMAN)(۱۸۷۵ء۔۱۹۵۸ء) سرخیل گروہ تھے۔ان دونوں کااورخصوصاً موخرالذکر کاخاص فن سامی لسانیات تھا۔خوش قسمتی سے مرحوم کوجرمنی میں ان اساتذہ سے استفادہ کاپورا موقع ملا۔پروفیسر انولتمان ان کے استاد خصوصی تھے۔جن کی خدمت میں وہ مسلسل سات برس یعنی۱۹۱۹ء تک رہے۔استاد نہایت شفیق اورعلم وتحقیق کے بحر ناپیداکنار کا کامیاب شناور اور شاگرد نہایت ذہین اورہمہ طلب وجستجو! پھر کمی کس چیز کی تھی۔ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے فن لسانیات میں وہ کمال پیداکیا کہ یورپ تک میں مشہور ہوگئے۔ جرمنی سے آنے کے بعد وہ علی گڑھ،حیدرآباد اورڈھاکہ رہے لیکن آخرکار الہٰ آباد یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر اورصدر شعبۂ کی حیثیت سے ایسے جمے کہ یہیں سے ۱۹۴۶ء میں ریٹائرڈ ہوئے اوریہیں مستقل طورپررہ پڑے۔اپنے علم و فضل اورلسانیات میں خصوصی وسعت وقت نظر کے باعث جامعات اورارباب علم کے حلقوں میں بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے جرمنی زبان میں ان کے مقالہ فضیلت کے علاوہ غالباً کوئی مستقل تصنیف ان کی یادگار نہیں ہے۔تاہم جو مضامین(عربی کے علاوہ اردو وفارسی ادبیات پربھی)ان کے قلم سے نکلے ہیں علم و تحقیق کاشاہکار ہیں۔
چار پانچ برس پہلے مرحوم سے آخری ملاقات جو علی گڑھ میں ہوئی تھی اس میں انھوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے اپنے تمام مطبوعہ مضامین فراہم کرلیے ہیں اورآج کل وہ ان پرنظر ثانی اوران کی ترتیب وتدوین میں مصروف ہیں۔مرحوم علم وفضل کے ساتھ ہی اخلاق وعادات کے اعتبار سے نہایت شریف الطبع، باوضع اورخوش اخلاق وملنسار بزرگ تھے۔ان کی گفتگو معلومات سے پُر ہوتی تھی۔اصول و ضوابط کے سخت پابند تھے۔ان میں کسی قسم کی مداہنت یارواداری کوگوارا نہیں کرسکتے تھے۔جس سے جووضع ہوگئی اسے آخر تک نباہتے تھے۔راقم الحروف کے ایم۔اے(عربی)کے امتحان میں فلالوجی کے پرچہ کے وہی ممتحن تھے اوراس میں انہوں نے فرسٹ ڈویژن کے نمبردیے تھے، جو وہ کسی خوش نصیب کوہی شاذونادر دیتے تھے۔ اس کے چند برسوں کے بعد جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی اورمیں نے ان کویاددلایا کہ میں نے ان سے اتنے نمبر حاصل کیے ہیں توانہوں نے فوراً پہچان لیااور اس دن کے بعد سے ہمیشہ جب کبھی اورجہاں کہیں ملے بڑی محبت اورشفقت بزرگانہ سے ملے۔اب ایسے باوضع بزرگ کہاں ملیں گے!چند برس سے چند در چند عوارض واسقام کے باعث چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے اورقوت حافظہ جس کے لیے وہ اپنے ہم عصروں میں ہمیشہ ممتاز رہے بالکل جواب دے چکی تھی۔انتقال کے وقت عمر۹۰ سے کچھ زیادہ تھی۔اﷲ تعالیٰ ان کو مغفرت وبخشش کی نعمتوں سے نوازے۔ [ستمبر۱۹۷۲ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...