Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

حاجی محمد صالح
Authors

ARI Id

1676046603252_54338741

Access

Open/Free Access

Pages

137

حاجی محمد صالح
دوسرا افسوسناک سانحہ۶/مئی کی شام کو محترم حاجی محمد صالح صاحب کی وفات کاپیش آیا۔ صالح صاحب کئی سال سے معذور ہوگئے تھے اورصاحب فراش تھے،یوں بھی عمر طبعی کی سرحد پارکرچکے تھے لیکن چل رہے تھے اوران کے صاحبزادے حاجی خواجہ محمد سلیم صاحب دل وجان سے ان کی خدمت کر رہے تھے۔ اس طویل مدت میں کبھی کبھی حالت نازک بھی ہوجاتی تھی مگرسنبھل جاتے تھے۔ ۶/مئی کی صبح کو آخری سانس لینے لگے اورشام کے ۵بجے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ حاجی محمد صالح صاحب اپنی گوناگوں اورغیر معمولی خصوصیات کی وجہ سے دہلی والوں میں ممتاز بلکہ لاجواب تھے اوراپنی ذات سے صحیح معنی میں ایک انجمن تھے۔ اجتماعات اورمجالس کی رونق اورجان۔ سوسائٹی کے ہرطبقے میں مذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر مقبول تھے اور قدرو منزلت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ان کی فرم ’’حاجی علی جان‘‘نہ صرف دہلی بلکہ پورے ملک کی روایتی فرم تھی، ایک زمانے میں اس کا کاروبار نہایت وسیع تھا،اوردہلی اورحجاز دونوں جگہ بڑے پیمانے پرلین دین ہوتاتھا۔ فرم حاجی علی جان کی امانت ودیانت کاعام شہرہ تھااس فرم میں لاکھوں روپے کی امانتیں رہتی تھیں۔حج کوجانے والے بے جھجک لاکھوں روپے اس فرم کو جمع کراتے تھے اورمکہ معظمہ میں صرف رقعہ دکھا کر رقم لے لیتے تھے۔ یہ کہنا شاید مبالغہ سے پاک ہے کہ فرم حاجی علی جان مسلمانوں کے لیے ریزرو بینک سے بھی زیادہ معتبر ومستند تھی۔ حاجی صاحب مرحوم اس تاریخی فرم کے مالک تھے، قومی اورملی کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے تھے۔ ایک وقت میں بڑے بڑے اہم اجتماعات کوٹھی حاجی علی جان ہی میں ہواکرتے تھے۔ حاجی صاحب کے والد محترم حاجی عبدالغفار صاحب جن کی ہم نے بارہا زیارت کی تھی، حکیم محمد اجمل خاں اورڈاکٹر مختار احمد انصاری کے ندیم خاص تھے۔امام صاحب جامع مسجد، نواب ابوالحسن خاں،نواب فیض محمد خاں وغیرہ اصحاب کی ایک خاص مجلس تھی اور دہلی کے اکثر مسلم مسائل اسی مجلس کے گرد گھومتے رہتے تھے، حاجی محمد صالح صاحب نے بھی اپنے بچپن اورجوانی میں ان اکابر کی مجلس میں شریک ہوکر کسب فیض کیا تھا۔
مسلک کے اعتبار سے اہل حدیث سمجھے جاتے تھے لیکن ان کی پاک روح پر مذہبی گروہ بندیوں کی پرچھائیں تک نہیں پڑی تھیں۔رواداری اوروسیع المشربی کاصاف وشفاف پیکر تھے اورحقیقی معنی میں قومی یک جہتی کی نشانی،راسخ العقیدہ قوم پرور تھے۔ ۱۹۴۷ء کے ہنگامۂ بربریت میں ماریں بھی کھائیں، جان کو خطرے میں بھی ڈالا لیکن اپنے طے شدہ مسلک پرچٹان کی طرح جمے رہے، عین اُس وقت بھی دکان جاتے تھے جب نئی سڑک سے گزرناہرکس وناکس کاکام نہیں تھا۔جب تک چلنے پھرنے کے لائق رہے عید، بقرعید کے موقع پرہم لوگوں کو ساتھ لے کر جواہر لعل جی، مولانا آزاد اوردوسرے حضرات کے یہاں بڑے اہتمام سے جاتے تھے اوراس طرح دیرینہ روایات تازہ ہوجاتی تھیں۔ جواہر لال جی سے تو زبردستی معانقہ کیاکرتے تھے۔ مولانا محمد حفظ الرحمن مرحوم کے دور میں مغرب کے بعد سے رات کے۱۰،۱۱بجے تک جمعیۃ علمائے ہند کے دفتر میں مجلس گرم رہاکرتی تھی اور اس میں ہرطرح کے مسائل زیر بحث آیاکرتے تھے، حاجی صاحب ہرمسئلے سے پوری دل چسپی لیتے تھے۔
اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، اب ایسے باوضع بزرگ تلاش کرنے سے بھی نہیں ملیں گے۔ [مئی۱۹۷۳ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...