Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا حکیم فضل الرحمن سواتی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا حکیم فضل الرحمن سواتی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338746

Access

Open/Free Access

Pages

139

ایک مشہور گم نام کا انتقال
[ مولانا فضل الرحمن سواتی]
عقل من پروانہ گشت و ہم ندید
چوں تو شمع در ہزاراں انجمن
فارسی کاایک مشہور مصرعہ ہے کہ جب قضا آتی ہے توطبیب بے وقوف ہوجاتا ہے۔ یہ تو اچھی سچی حقیقت تھی جسے شاعر کاادراک پاگیا مگر اسی سے ملتی جلتی ایک حقیقت اورہے جوشاید شاعر کی نظروں سے اوجھل ہے وہ یہ کہ طبیب کی جب قضا آجاتی ہے تو سارا ہی عالم ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویربن کررہ جاتا ہے۔
ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی وفات پرپروفیسر رشیداحمد صاحب صدیقی نے ان الفاظ سے مقالہ شروع کیاتھا ’’کسی کے مرنے کی خبر سننے میں آتی تھی توسوال فوراً زبان پرآتا تھا ڈاکٹر انصاری کوبھی دکھایا تھا۔‘‘
مجاہدجلیل حکیم مولانا فضل الرحمن صاحب صواتی کی وفات پرمقالہ بھی انھیں الفاظ کااعادہ چاہتا ہے۔موصوف بڑے ماہر اور فیض شناس حکیم تھے۔ صرف تشخیص سے وہ بات بتادیتے جو بعد میں ایکسرے سے ظاہر ہوتی تھی۔ملک کے مشاہیر اطباسے آپ کو شرفِ تلمذ یا دوستانہ تعلقات حاصِل تھے۔
حکیم صاحب کہنے کو تو حکیم صاحب ہی کہلاتے تھے حالانکہ آپ صرف مریضوں کے لیے حکیم تھے۔معقولات سے شغف رکھنے والوں کے لیے آپ بہت بڑے منطقی اور متکلم تھے۔ منطق وفلسفہ کی ایک ایک کتاب پانچ پانچ چھے چھے اساتذہ سے سبقاً سبقاً پڑھ کراس کے مطالب اوراختلافات ازبر کرچکے تھے اور حافظہ بھی ایسا کہ پتھر کی لکیر ۔بحث ومباحثہ میں بے تحاشہ کتابوں کے حوالے دیتے چلے جاتے، عبارتیں فرفر پڑھتے جاتے، کبھی کوئی کتاب اُٹھاکے دیکھنے کی زحمت نہ فرماتے، چاہے بحث وتکرار تقریر میں ہو یا رسائل میں تحریری شکل میں۔ دارالسلام عمرآباد میں آپ معقولات ہی کے استاذتھے۔
تاریخی کام کرنے والوں کے لیے آپ کی ذات ایک مآخذ ومرجع کی حیثیت رکھتی تھی، آپ کا دماغ تاریخی معلومات کاایک خزانہ تھا۔حضرت سےّد احمد شہید کی تحریک جہاد کاجوسلسلہ شروع ہواتھا اس کی ایک اہم کڑی آپ کی ذات سے ملتی تھی۔’سرگزشتِ مجاہدین‘ اور ’سیرت سیداحمد شہید‘ کو مولانا غلام رسول مہر مرحوم نے پچیس سال کے مطالعہ کے بعد تکمیل کو پہنچایاتھا۔ملک کے کونے کونے سے مہرصاحب کودادِ تحقیق دی جارہی تھی۔میری درخواست پرحکیم صاحب نے سیرت سیداحمد شہید کابالا ستیعاب مطالعہ فرمایا۔ اور چھتیس ۳۶ صفحات پر مشتمل ایک تبصرہ میرے حوالے کرگئے جس میں مصنّف کی غلط معلومات اورغلط فہمیوں کا ازالہ کرکے ان کی تصحیح کی گئی تھی۔میں نے بڑے تامل کے بعد اس کی ایک قسط مہر صاحب کو بھیج دی تو مہرصاحب تڑپ اٹھے اور ذیل کا مکتوب میرے نام ارسال فرمایا۔
’’برادرِ مکرم گرامی نامہ وسط فروری میں مِل گیاتھا ۔میں نے ضروری سمجھا کہ حکیم صاحب محترم کی تحریر بہ تفصیل پڑھ کر جواب لکھوں اس میں تاخیر ہوتی گئی اور خود میری دوسری مشغولیتیں بھی حائل ہوئیں۔قدرت کے کرشمے بھی عجیب ہیں خداجانے میں نے سرحدِ آزاد کے مختلف حصوں میں کہاں کہاں کوہ پیمائی کی کہاں کہاں کی خاک چھانی،جملہ،بونیر، سوات، ضلع پشاور ضلع مردان،ضلع ہزارہ کے بیشتر مقامات دو دو تین تین مرتبہ دیکھے، ایک ایک شخصیت کے حالات پوچھے۔ مگرحالات تورہے ایک طرف بیشتر اصحاب ان شخصیتوں کے ناموں سے بھی آگاہ نہ تھے ۔حکیم صاحب محترم نے سرسری داستان سرائی میں اتنے حقائق بیان کردیے کہ جن کا خواب وخیال بھی نہ تھا۔وہی مولانا روم والی بات ہوئی۔
ع یار د رخانہ دمن گردِ جہاں می گردم
مولوی عبدالحق آروی مصنّف دُرِ مقال کے متعلق سید عبدالجبار شاہ نے بارہا بتایا کہ وہ شافعیوں کی بستی میں مقیم ہوگئے تھے۔جس کانام غالباً نواگئی تھا، یا ناوہ گئی تھا۔بونیر سے کوہ کراکٹرکوعبورکرکے سوات کی جانب اترمیں دامن کوہ سے ذرا بلندی پر یہ بستی بائیں ہاتھ ملتی ہے۔میں نے خداجانے کس ذوق وشوق سے اس بستی کو دیکھا تھا اب معلوم ہواکہ مولوی صاحب الاڈنڈ میں فوت ہوگئے۔ تھانہ میں نے دیکھا ہے الاڈنڈ نہیں دیکھا۔
بالکل اسی قسم کاواقعہ امام ابن تیمیہ کے سلسلہ میں پیش آیا ۔میں دمشق گیا تو سینکڑوں اصحاب سے امام موصوف کی قبر کے متعلق پوچھا۔مختلف قبرستانوں میں پِھرا۔ان کے نگہبانوں یابعض قبروں کے مجاوروں سے پوچھا مگرکوئی کچھ بتانہ سکا۔صوفیہ کے قبرستان کاپتہ بھی کہیں نہ مِلا۔چونکہ میں زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکتا تھا۔ اس لیے میں بہت مایوس اور افسردہ لوٹا۔اب آپ کی بھیجی ہوئی کتاب سے یہ نکتہ حل ہوا۔
حکیم صاحب محترم نے مولوی صاحب کے بیشتر حالات تحریر فرما دیے۔ اور اپنے متعلق بھی بعض ایسی باتیں لِکھ دیں جوکسی دوسرے سے معلوم نہیں ہوسکتی تھیں۔میری کتاب ’’سرگذشتِ مجاہدین‘‘ طبع ثانی کے لیے تیار ہورہی ہے۔ اس میں مولوی عبدالحق آروی کے وہ تمام حالات آجائیں گے جوحکیم صاحب محترم نے بیان کیے ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ خود حکیم صاحب کے متعلق بھی ایک باب بڑھادوں۔ایسے بے نفس، ایثار پیشہ اورحقیقی مجاہد کہاں ملیں گے وہ دور ہی گذر چکا جس کی آغوش میں ایسی شخصیتیں پرورش پاتی تھیں۔ حکیم صاحب محترم تو بہت اونچے ہیں۔انہیں پہچاننے والا کون ہوگا؟
تاہم ایسی تصویریں کسی نہ کسی مرقع میں محفوظ ہونی چاہئیں ۔شاید کبھی سازگار وقت آئے۔ اورایسی نگاہیں پھر پیدا ہوجائیں جوحقیقت شناسی کی میزان سے بہرہ مند ہوں۔
آپ نے مجھ پر جواحسان فرمایا خداشاہدہے کہ اس کاکوئی بدلہ دعا کے سِوا میں نہیں دے سکتا۔مگراِسے اتمام پر پہنچایے،مسافر کومنزلِ مقصود پر پہنچایے عرضِ راہ میں نہ چھوڑئیے۔ اگر آمدورفت میرے بس میں ہوتی اور وسائل بہ قدرِ ضرورت ساتھ لے سکتا توایک دن کابھی توقف نہ کرتا۔اوروہاں پہنچ جاتا۔اب بے دست وپاہوں تحریر مکمل کرایے اور جلد بھجوائیے۔
حکیم صاحب محترم کی خدمت میں میرا سلامِ شوق پہنچائیے۔مجھے ان کے ارشادات کاانتظار رہے گا۔سید احمدشہید کی اشاعت پر پانچواں سال گذر رہا ہے۔ آپ یقین فرمائیں گے اس پوری مدت میں ایک صاحبِ نظر بھی نہ ملا جو کتاب کے بنیادی مطالب ومقاصد پر مجھے مفید مشورے دے سکتا ۔
حکیم صاحب محترم سے میں ایسے ہی مشوروں کاامیدوارہوں، نیز پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا ’’جماعت مجاہدین‘‘ اور ’’سرگذشتِ مجاہدین‘‘ ان کی دسترس میں ہیں؟ انہیں بھی ایک نظر ملاحظہ فرمالیں اس لیے کہ پوری تحریک کے متعلق میری کاوشوں کاصحیح اندازہ اسی وقت ہوسکے گا۔اﷲ تعالیٰ انہیں باصحت وعافیت رکھے۔ عرض کیجیے کہ اپنی دعاؤں میں اس رو سیہ کوبھی شامل فرمالیں۔
والسلام ۔مہر ۲۹ جنوری ۶۳ء
ہندوستان کی جنگ آزادی میں بھی حکیم صاحب نے نمایاں کردار ادا کیا۔ برسوں جیلوں میں رہے ۔مصائب جھیلے، ترکِ وطن کرکے دوایک بارافغانستان پہنچ گئے مگر دماغ میں آزادی وطن کے لیے جہاد کاجولاوا سُلگ رہاتھا اُسے چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔پھر واپس آکے گرفتار ہوئے ۔تین تین مرتبہ بنابنایا ہزاروں کامطب اجڑا مگراس راہ کاہر نقصان فتح ونصرت کاپرچم بن کر تصور میں لہرارہا تھا۔
ع درد میں لطف ہے، ایذا میں مزا، غم میں خوشی
ہرمیدان میں آپ کا کام انتہائی بے لوث اور بربنائے اخلاص ہی ہوا کرتا تھا۔ آپ نے ہر خدمتِ ملک وقوم کچھ دینے ہی کے لیے کی۔لیناآپ کی فطرت میں تھاہی نہیں۔ جنگِ آزادی کے دوران آپ کی ڈھارس بندھانے والی رفیقۂ حیات داغ مفارقت دے گئیں۔ جواں سال وجیہ لڑکے الطاف الرحمن نے سبھاش کی فوج میں سرگرمِ عمل رہ کر وطن کی راہ میں جامِ شہادت نوش کیا۔ملک جب آزاد ہواتو بڑے مجاہدوں کی فہرست میں آپ کا بھی نام تھا۔ایک معقول جائداد آپ کے نام الاٹ ہوئی تواُسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔
جنگِ آزادی کے مشاغل میں مطب سے آپ کاتعلق بالکل ہی ٹوٹ چکا تھا۔میدانِ کارزار سردپڑنے کے بعد مطب کی طرف لوٹے تووہ کسی طرح جم نہیں رہاتھا۔معاشی حالت پتلی ہوتی جارہی تھی۔دوسری شادی کے بعد اولاد کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔احباب نے مشورہ دیاکہ پاکستان چلے جائیں جہاں ان کے خاندان کے پیشتر احباب خوشحال اوراربابِ اقتدارتھے۔خودآپ کے داماد پائندہ محمدخاں فوج کے اعلیٰ عہدے پرفائز تھے۔آپ کو باصرار دعوت دے رہے تھے مگرسب کے جواب میں اس مومن مخلص نے یہی کہا کہ ہم زندگی بھر پاکستان بننے کی مخالفت کرتے رہے اب پاکستا ن کس منہ سے جائیں گے ۔
مطب چلتا کیاتھا گھسیٹے لیے جارہے تھے۔اوراسی پر کچھ ایسے اصول اپنے اوپر عائد کیے ہوئے تھے کہ لگی بندھی آمدنی بھی کم سے کمتر ہونے لگی۔ مسجد اور مدرسے کے کسی بھی ملازم سے چاہے اس کاعلاج کیساہی اہم اور اس کی دواکتنی ہی قیمتی ہوایک پائی وصول نہیں کرتے تھے۔مدرسے کے ایک خوشحال استاذ نے بتایا کہ حکیم صاحب نے کئی ماہ کے لیے قیمتی دوائیں انھیں دیں۔وہ جیب سے نوٹ نکالنے لگے توحکیم صاحب نے منع کردیا اور فرمایا کہ میں عہد کرچکا ہوں کہ مدرسہ اور مسجد کے ملازمین سے معاوضہ ہرگز وصول نہیں کرونگا۔ ایک طرف سے اصرار دوسری طرف سے انکار ،اس تکرار کاتماشہ دیکھنے بچے گھر سے نکل آئے تو مولوی صاحب کوایک ترکیب سوجھی ،جھٹ سے نوٹ نکال کر بچوں کو دے دیے۔ اورکہا میں عیدی دے رہاہوں آپ مجھے اس سے نہیں روک سکتے۔اور وہ عیدالفطر کا دوسرا یاتیسرا دن تھا۔مولوی صاحب کاجملہ ختم ہونے بھی نہ پایا کہ حکیم صاحب ان سے لپٹ پڑے اور گلوگیر آواز میں کہنے لگے۔واﷲ تم رحمت کے فرشتے ہو۔صبح سے گھر میں کھانے کوکچھ بھی نہیں تھا۔
حکیم صاحب کی کتابِ زندگی میں ایسے نادر روزگار ایک دونہیں سیکڑوں واقعات ہیں چونکہ قارئین میں اکثر کے لیے موصوف اجنبی ہیں۔اس لیے ان واقعات کی اہمیت ایک کہانی سے بڑھ کر کیاہوسکتی ہے۔
حکیم صاحب کا سترہ سالہ سرخ وسپید سندر اورتوانا بچہ عتیق الرحمن دوپہر کاکھانا کھاکر اسکول گیا۔وہاں ایک حادثے میں اس کی موت ہوگئی ۔عصرکے قریب لاش گھر لائی گئی۔ بوڑھاپے کی اولاد کیسی عزیز ہوتی ہے مگراس صبر و استقامت کی چٹان کی زبان سے جوالفاظ ادا ہورہے تھے، وہ سامعین کودیوانہ کردینے کے لیے کافی تھے۔حکیم صاحب فرمارہے تھے۔’’اچھا ہوامرگیا ذرا چوری کی عادت تھی اس میں۔‘‘
مولاناآزاد ؒ سے حکیم صاحب کو بڑی گہری عقیدت تھی۔عقیدت تو بہتوں کو بہت ساروں سے ہوتی ہی ہے مگر اس درجہ کی عقیدت حکیم صاحب ہی کے حصّہ میں آئی تھی۔مولانا سے متعلق جس قدر باتیں آپ کومعلوم تھیں شاید ہی اس باب میں آپ کاحریف مِل سکے۔تفسیرترجمان القرآن کے انتساب کاانکشاف فرما کرحکیم صاحب نے علمی دنیا کوچونکادیا۔مولاناآزاد کانام عزّت سے کوئی لیتا تواسے حکیم صاحب اپنا عزیز ماننے لگتے۔چاہے دوسرے امورمیں کتناہی اختلاف ہو۔مولاناآزاد کی شان میں کسی نے ذرا بھی توہین کی تو حکیم صاحب کا اس سے بڑا دشمن کوئی نہیں ہوسکتا۔ ماہرالقادری نے ’’پردہ اٹھنے کے بعد‘‘ لکھ دیا توحکیم صاحب کا غیظ وغضب دیکھنے کاقابل تھا۔کئی دِن گذرجانے کے بعد باربار یہی کہتے تھے کہ ایک ہی خواہش ہے کراچی جاؤں اورماہر القادری کاگلہ گھونٹ دوں۔ حکیم صاحب مجاہد تھے جو کہتے وہی کرتے بھی تھے۔اتفاق ایسا ہوا کہ انہیں دِنوں ۱۹۶۰ء میں ماہر صاحب دارالسلام عمرآباد تشریف لائے۔حکیم صاحب کا مکان عمرآباد سے پانچ میل کے فاصلہ پر تھا۔ دارالسلام کی ہر چھوٹی بڑی تقریب کے جیسے مہمان خصوصی حکیم صاحب ہی ہواکرتے تھے۔اربابِ جامعہ نے عمداً حکیم صاحب کوماہر صاحب کی تشریف آوری سے بے خبر رکھا۔ مبادا کوئی ناخوشگوار بات ہوجائے اورادارے کے نام پر دھبّہ لگ جائے۔ دارالسلام میں آپ چند سال استاذ رہے۔ان چنددنوں کے تعلق سے آپ کو پورے عمرآباد ہی سے کہنا چاہیے ۔جنون کی حدتک عشق ہوگیاتھا۔ہفتہ میں دو ایک بار عمرآباد کاچکر نہیں لگالیتے توچین نہیں آتاتھا۔ضعف بڑھا،دماغی توازن بگڑا، بینائی جواب دینے لگی۔ہرچیز ذہن سے نکل گئی،احباب کی شناخت ناممکن ہوگئی، مگرعمرآباد کی زیارت میں کوئی فرق نہیں آیا ۔بچے اس سے بازرکھنے کی کوشش کرتے توان سے لڑ پڑتے۔بس میں جگہ نہیں ہوتی توکنڈکٹر سے الجھ پڑتے۔یہ سب جھمیلے اٹھاکر اتنی خلیجیں پاٹ کر عمرآباد تشریف لاتے رہے۔ دارالسلام کی ایک ایک درسگاہ سے رک رک کر گزرتے۔جی میں آیا کسی استاذ سے مصافحہ کرلیتے،کسی کے پاس بیٹھ کرچائے پی لیتے۔ پھردوسری بس سے واپس ہوجاتے ۔عمرآباد کے احباب گھرپر ملاقات کے لیے جاتے اپنا نام بتاتے ۔حکیم صاحب ہیں کہ اجنبی بنے بیٹھے رہتے۔باتوں میں عمرآباد کاذکر آجاتا تو چونک کر پوچھتے آپ عمرآباد سے تشریف لائے ہیں؟ جواب اثبات میں سُن کر جزاک اﷲ جزاک اﷲ فرمادیتے اور کبھی کھڑے ہوکر معانقہ بھی کرلیتے۔ اگلے وقتوں کے لوگ بھی کیا خوب انسان تھے۔چاہتے توٹوٹ کرچاہتے۔نفرت کرتے توڈٹ کر کرتے۔ نفاق ،تملق، ریا اور نموونام کی کوئی چیزان کی زندگیوں میں بھٹک کر بھی نہیں گذرتی تھی۔ان کاچہرہ دل کا آئینہ ہوتا اور زبان دل کی ترجمان۔
لکیلا یعلم بعد علم شیاکی عملی تفسیر کرنے کے لیے بڑی طویل عمرمانگ کر لائے تھے۔شوال ۱۳۰۴ء کی ولادت تھی ۱۳۹۵ھ ۷؍ محرم جمعہ کی شب میں گیارہ بجے انتقال ہوا۔
زندگی تجربات سے بھرپور اور واقعات وحکایات سے لبریز تھی۔ آئے خالی ہاتھ اور گئے بھی اسی طرح خالی ہاتھ ۔لاکھوں کمائے اور کمائی کی کوئی نشانی بھی نہیں چھوڑسکے۔زندگی بھر دھوپ چھاؤں دیکھتے رہے مگردھوپ سے بچنے کے لیے ایک سائبان بھی اپنا نہیں بناسکے۔
کس کی راہ میں سب کچھ لٹادیا ہم نے
یہاں تو وہ بھی نہیں جو کفن کے کام آئے
سردی اور بارش کے موسم میں مسجد کی پہلی صف میں موذن کے داہنے ہاتھ کھڑی ہونے والی شخصیت وفات سے کچھ روز قبل جماعت میں شریک ہونے سے محروم ہوگئی توکیا؟ اس کا دِل تومسجد ہی میں اٹکارہتاتھا،کسی بات کاہوش نہیں رہتا، لیکن اذان ہوتی تو جواب دینا کبھی نہیں چوکتا تھا۔لیٹے ہی لیٹے نیت باندھ کر نماز شروع کردیتے۔قر أ ت میں جہرہی فرماتے تھے۔اکژسورہ والفجر پڑھتے، آہستہ آہستہ پڑھتے کوئی آیت چھوٹنے نہیں پاتی اور جب آخری آیت فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی پر پہنچتے توآواز اتنی اونچی کردیتے کہ گلی سے آدمی بخوبی سن لے۔گلی کے لوگ جب ان کی قرأت سن کر ان کے جنتی ہونے کی بشارت دے سکتے ہیں تو پھر ان کی قرأت سمیع وبصیر اور لطیف وخبیر کی بارگاہ میں کس مقام ومرتبہ کی مستحق ہوگی یہ ماوشماکے قیاس وگمان سے ماوراہے۔ع
مرگِ مجنوں پر عقل گم ہے میرؔ
کیا!دیوانے نے موت پائی ہے
الرحمن العمری، فروری ۱۹۷۴ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...