Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > سید امین الحسینی [مفتی اعظم فلسطین)]

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

سید امین الحسینی [مفتی اعظم فلسطین)]
Authors

ARI Id

1676046603252_54338751

Access

Open/Free Access

Pages

143

مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی
افسو س ہے گزشتہ ماہ عالم اسلام کی ایک اورنہایت بلند پایہ شخصیت یعنی مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی۷۷برس کی عمر میں وفات پاگئے۔اناﷲ و اناالیہ راجعون۔وہ ۱۸۹۷ء میں قدس کے ایک معزز گھرانے میں پیداہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم اورثانوی تعلیم وطن مالوف میں ہی پائی اس کے بعد مصر چلے گئے اوروہاں جامعہ ازہر میں علوم دینیہ واسلامیہ میں تکمیل کے مدارج ومراتب طے کئے۔ جنگ عالمگیر اوّل(۱۹۱۴ء۔۱۹۱۸ء) کے دوران ترکی افواج سے وابستہ رہے۔۱۹۲۱ء میں فلسطین کے مفتی اور۱۹۲۲ء میں وہاں کی مجلس اعلیٰ اسلامی کے صدر مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۱ء میں قدس میں جو موتمر عالم اسلامی ہوئی تھی اُس کے صدر منتخب ہوئے۔۱۹۳۶ء میں جب انگریزوں کی مداخلت بے جا کے باعث فلسطین میں شورش اورہنگامے بپا ہوئے تووہ لبنان آگئے اور۱۹۳۷ء سے۱۹۳۹ء تک یہاں مقیم رہے پھر عراق چلے گئے اورسید رشید عالی الگیلانی نے انگریزوں کے خلاف جو بغاوت کی تھی اُس میں بڑی سرگرمی اور جوش سے حصہ لیا۔ لیکن جب یہاں کے سیاسی حالات میں انقلاب رونما ہواتووہ بھاگ کرپہلے ایران اور پھر وہاں سے جرمنی گئے اور۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۵ء جب کہ دوسری عالمگیر جنگ میں جرمنی کوشکست فاش ہوئی اوراتحادیوں نے اُس پرقبضہ کرلیا،وہاں مقیم رہے جنگ کے خاتمہ پرفرانس میں قید ہوگئے۔۱۹۴۶ء میں رہا ہوکر مصر آگئے۔ مرحوم کی پوری زندگی فلسطین کی آزادی وخودمختاری اوریہودیوں کووہاں سے بے دخل کرنے کے لیے وقف تھی چنانچہ پہلی جنگ عظیم عالمگیر کے خاتمہ پرجب مجلس اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے مطابق۱۹۲۲ء میں فلسطین پربرطانوی انتداب قائم ہواتواُس وقت اس کی مخالفت میں اوراس کے بعد ۱۹۴۷ء کے خاتمہ پرجب فلسطین کی تقسیم اوراسرائیل کے قیام کافیصلہ ہواتواب اُس کی مقاومت میں کوئی سیاسی اورجنگی تدبیر ایسی نہیں تھی جوانھوں نے اختیار نہ کی ہو۔ وہ ہرمحاذ پرلڑے، ہرمورچہ پرانھوں نے دادشجاعت دی، ناکامی پرناکامی ہوتی رہی، لیکن انھوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ان غیر معمولی مجاہدانہ سرگرمیوں کے علاوہ مرحوم علم و فضل، تقوی وطہارت اورعمل وکردار کے اعتبار سے بھی ایک بلند مرتبہ و مقام کے مالک تھے اوروہ اتحاد عالم اسلامی کے بھی بہت بڑے علم بردار تھے، اس بناپر نہ صرف عرب بلکہ پورے عالم اسلام میں ان کوبڑی قدرومنزلت اورعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا۔ سخت افسوس ہے آپ کی وفات سے جوخلا پیداہواہے وہ آسانی سے پُر نہیں ہوسکتا!
مفتی اعظم مرحوم سے راقم الحروف کی پہلی ملاقات عجب ڈرامائی انداز میں ہوئی،غالباً ۱۹۳۳ء یا۱۹۳۴ء تھا کہ مفتی اعظم مرحوم اورمصر کے وزیر اوقاف محمد علی علویہ اپنے کسی ایک مشن کے سلسلہ میں ہندوستان آئے تھے اورملک کادورہ کررہے تھے، اس سلسلہ میں یہ دونوں آگرہ بھی آئے، میں ان دنوں اپنے وطن میں ہی مقیم تھا لیکن مجھ کو ان حضرات کے ورودہند تک کی اطلاع نہیں تھی۔ اتفاق سے ایک دن شہر گیا اورعصر کی نماز ادا کرنے کے لیے جامع مسجد میں داخل ہوا تو دیکھاکہ دوعرب کھڑے ہیں اورچند مسلمان ان کے گرد جمع ہیں۔مجھ کوعربوں سے ملنے اورعربی میں بات چیت کرنے کاشوق توتھا ہی،میں بھی وہاں پہنچا اور گفتگو شروع کردی۔ جب ان سے تعارف ہواتوچونکہ مفتی اعظم کے کام اورنام سے عربی جرائد ورسائل کے ذریعہ پہلے سے واقف تھا اس لیے اب ان کو اپنے سامنے اوراُن کے ساتھ مصر کے وزیر اوقاف کوبھی دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی لیکن ان دونوں کو بھی مجھ سے ملاقات کرکے کچھ کم خوشی نہیں ہوئی۔ مفتی اعظم نے فرمایا:کل جامع مسجد میں ہماری تقریریں ہیں لیکن اب تک کوئی ترجمان نہیں ملا تھا۔اس لیے ہم سخت پریشان تھے اب خدا کاشکر ہے تم مل گئے تواس کام کو تم ہی کرنا، ہم کو اطمینان ہوگیا۔مجھے اس میں کیا عذر ہوسکتا تھا چنانچہ دوسرے دن عصر کی نماز کے بعد آگرہ کے مشہور ایڈوکیٹ مسٹر اختر عادل مرحوم کی صدارت میں جلسہ شروع ہوا۔میں والد صاحب قبلہ مرحوم کے ساتھ اس میں شریک تھادونوں معزز مہمانوں نے(ایک نے مصری اوردوسرے نے شامی لب ولہجہ میں)عربی میں تقریر کی اورمیں فی البدیہہ ان کا ترجمہ کرتاآگیا۔آخر میں جناب صدر کی فرمائش پراہل آگرہ کی طرف سے دس پندرہ منٹ میں نے عربی میں شکریہ کی تقریر کی۔جلسہ ختم ہواتومفتی اعظم اوروزیر محمد علی دونوں نے بڑی تعریف کی اور فرمایا:جب سے ہم ہندوستان میں ہیں ہماری اچھی ترجمانی اور عربی میں تقریر کراچی میں مولوی نورالحق ندوی الازہری ۱؂ نے کی تھی اوراُس کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ ہماری خاطر خواہ ترجمانی اورعربی تقریر تم نے کی ہے۔
اس واقعہ کے عرصۂ دراز بعد مفتی اعظم سے میری آخری ملاقات ۱۹۶۷ء میں حجاز مقدس میں ہوئی تھی جب کہ میں وہاں کی گورنمنٹ آف انڈیا کے حج ڈیلی گیشن کے ممبر کی حیثیت سے گیا تھا، یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ہندو پاک جنگ ہو چکی تھی، مرحوم کواس جنگ کاسخت ملال اورصدمہ تھا۔ جب مجھ سے گفتگو ہوئی تووہ اس صدمہ کو چھپا نہیں سکے، اُن کے دل میں مسلمانان عالم کے موجودہ حالات، باہمی تشنت و تفرق،سیاسی عدم استحکام اوردینی واخلاقی انحطاط کابڑا درد اورغم تھا۔ وہ ہر وقت انھیں کے افکار اورمعاملات ومسائل میں غلطاں پیچاں رہتے تھے۔ رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ۔ [اگست۱۹۷۴ء]

۱؂ یہ میرے عزیز دوست ہیں، اصلاً پشاوری ہیں، ندوۃ العلما لکھنؤ سے فراغت کے بعد سیٹھ عبداﷲ یوسف ہارون(کراچی) کے وظیفہ پرقاہرہ گئے، جامعہ الازہر میں تعلیم پائی، وہیں ایک مصری خاتون سے شادی کی، واپس آکر کراچی کے سندھ مدرسہ میں مدرس ہوگئے۔ پھر اسلامیہ کالج پشاور میں دینیات کے ڈین ہوئے، اس سے سبکدوش ہوکر جامعۂ عباسیہ بہاولپور کے وائس چانسلر ہوگئے۔اب سنا ہے کہ اس سے بھی سبکدوش ہوگئے ہیں۔ ایک زمانہ میں برہان کے مستقل خریدار اوراُس کے بڑے قدردان تھے۔

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...