Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

نور الدین بیرسٹر
Authors

ARI Id

1676046603252_54338754

Access

Open/Free Access

Pages

145

مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی/نورالدین
حیدرآباد سے واپس پہنچتے ہی مولانا شاہ معین الدین احمد صاحب ندوی اورجناب نورالدین صاحب بیرسٹر کے حادثۂ وفات کی خبراچانک سُنی توجی دھک سے ہوکر رہ گیا اورقلب ودماغ پرگویا بجلی گرپڑی۔ شاہ صاحب ندوۃ العلماء کے گل سرسبد، نہایت پختہ قلم مصنف، تاریخ اسلام کے وسیع النظر محقق، اردو زبان کے ادیب اورسوباتوں کی ایک بات یہ ہے کہ مولانا سید سلیمان ندوی کے صحیح جانشین اوران کے قائم مقام تھے، اوراس میں کوئی شبہ نہیں کہ تقسیم ہند کے بعد سے اب تک انہوں نے دارالمصنفین کے علمی وقار اورمرتبہ کو قائم و برقرار رکھا اور ملک کے نہایت سخت طوفانی دور میں بھی اس باغیچۂ علم وادب کی جس طرح حفاظت اوردل وجان سے اس کی آبیاری کی وہ ان کی قبائے فضل کا تکمۂ زریں ہے۔ علم وفضل اورتحقیق وتصنیف کے علاوہ اخلاق وعادات اورکردار وعمل کے اعتبار سے بھی وہ سلف صالحین کانمونہ تھے نہایت مخلص،بے لوث، عابد و زاہد، خندہ جبیں،شگفتہ طبع،ملنسار اورمتواضع اورمرنجان ومرنج۔
موخرٔ الذکر ہندوستان کے نامی گرامی بیرسٹر تھے سپریم کورٹ کے ممتاز قانون دانوں میں ان کاشمار ہوتاتھا۔ قومی اورملی کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ طبیعت قلندرانہ پائی تھی۔ایک برس دلی کے مئیر ( MAYOR)اوراس حیثیت سے بہت کامیاب رہے تھے، دوسرے برس انہوں نے میئر ہونے سے انکار کردیا۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی وائس چانسلر شپ کئی مرتبہ پیش کی گئی لیکن انہوں نے قبول نہیں کی، وہ اگر چاہتے تومرکزی کابینہ میں شمولیت اورکسی ملک کی سفارت کاحصول اُن کے لیے معمولی بات تھی، لیکن کبھی ان چیزوں کی طرف انہوں نے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ بیرسٹر بہت اونچے درجے کے تھے، وہ بہت آسانی سے کروڑ پتی بن سکتے تھے، لیکن عمر بھر کرایہ کے مکان میں رہے، اور یوں بھی بہت سادہ اور درویشانہ زندگی بسرکرتے تھے، اکثر کہتے تھے، ’’میں صرف اتنا کماتا ہوں، جس کی مجھے ضرورت ہوتی ہے، اس سے زیادہ کا غم میں نے کبھی نہیں پالا۔‘‘
نہایت حق گو، جری اور بے باک تھے۔ صوم و صلوٰۃ اور تلاوت قرآن کے سختی سے پابند تھے، حج بھی کر آئے تھے، اس میں شبہ نہیں کہ ان دونوں بزرگوں کی وفات ایک عظیم قومی وملّی حادثہ ہے، جس کی تلافی آسان نہیں ہے۔ لیکن شاہ صاحب اور نور الدین صاحب دونوں ہمارے ان نہایت عزیز اور مخلص دوستوں میں سے تھے جن کی معیت لطفِ حیات کا باعث ہوتی اور جدائی زندگی کو بے کیف و بے مزہ بنادیتی ہے، اسی وجہ سے یہ دونوں دوست چلے گئے مگر ہمارا عالم جگرؔ کے الفاظ میں اب تک یہ ہے:
اب بھی ہے تیرے تصور سے وہی راز و نیاز
اپنی بچھڑی ہوئی آغوشِ محبت کی قسم
اللھم ارحمھما واغفر لھما مغفرۃ عامۃ، شاملۃ، کاملۃ۔
[جنوری۱۹۷۵ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...