1676046603252_54338759
Open/Free Access
147
آغا شورش کاشمیری
مولانا محمد میاں کے ماتم میں ابھی اشک غم دیدۂ پُرنم میں خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ اچانک لاہور سے آغا شورش کاشمیری کے انتقال پرملال کی خبرملی اورجی دھک سے ہوکررہ گیا۔اردو صحافت و جزنلزم کی تاریخ میں دبستان ظفر علی خاں نے پنجاب میں ارباب قلم اوراصحاب شعرو ادب کی جو ایک نہایت عظیم الشان اور نامور نسل پیداکی ہے، مرحوم اس کے گل سرسبد تھے۔نوعمری میں ہی قومی اور ملی تحریکات میں سرگرمی اورجوش کے ساتھ عملاً شریک ہوجانے کے باعث تعلیم کبھی ڈھنگ سے نہیں پائی اورنہ اس کی تکمیل کی لیکن تحریر وتقریر کاملکہ خداداد تھا، مولانا ظفر علی خاں،سید عطاء اﷲ شاہ بخاری اوردوسرے زعمائے مجلس احرار نے اس کو جلا دی، نتیجہ یہ ہوا کہ اردوزبان کے منفرد صحافی،ادیب،بلندپایہ زودگوشاعر اورشعلہ بیان خطیب و مقرر بن گئے۔ان کو نثرونظم دونوں پربلا کی قدرت تھی اوردونوں میں خطابت کا رنگ جھلکتاتھا، اس اعتبار سے ان کے عبقری ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ ان اوصاف وکمالات کے ساتھ اگر ان میں مصلحت پسندی بھی ہوتی توان کے لیے کیا کچھ نہیں تھا لیکن انھوں نے اصحاب دارورسن کی راہ اختیار کی اوراس جوش وجذبہ کے ساتھ کہ عمرعزیز کاایک بڑاحصہ قیدوبند میں گزارنا پڑا۔ابھی چند ماہ پہلے اُن کامحبت نامہ جواڈیٹر برہان کے نام آیاتھا اس میں بڑی حسرت سے لکھا تھا:’’اس قید وبندنے مجھے کہیں کا نہیں رکھا اورمجھ میں کچھ نہیں رہا، تمناہے کہ زندگی میں ایک بار آپ کواوردیکھ لوں۔‘‘کیاخبر تھی کہ مرحوم کایہ آخری خط ہے، ورنہ اس کے جواب میں مکتوب الیہ خودلاہور پہنچنے کی کوشش کرتا۔یہ عجب شرط دوستی ووفاداری ہے اے دوست کہ ادھریہ تمنا اورادھر یہ بے رخی کہ
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیاخوب قیامت کاہے گویا کوئی دن اور
مولانا ابوالکلام آزاداور مولانا حفظ الرحمن کے نام کے عاشق تھے، مجھ سے اکثر شکایت کرتے تھے کہ برہان نے ان دونوں کاحق ادا نہیں کیا۔اب ایسے پیکر اخلاص ووفا دوست کہاں ملیں گے! اللھم اغفرلہ وارحمہ۔ [نومبر۱۹۷۵ء]
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |