Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا محمد عثمان فارقلیط

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا محمد عثمان فارقلیط
Authors

ARI Id

1676046603252_54338767

Access

Open/Free Access

Pages

151

مولانا محمد عثمان فارقلیط
سخت افسوس ہے کہ مولانا محمد عثمان فارقلیط بھی ہم سے جدا ہوگئے۔ تقریباً اسّی برس کی عمر پائی۔مرحوم گوناگوں خوبیوں اورکمالات کے بزرگ تھے،علوم دینیہ و عربیہ کی باقاعدہ تکمیل مختلف مدارس میں اور بعض اربابِ کمال کی صحبت میں رہ کر شخصی طور پرکی تھی۔شروع میں طبیعت مناظرہ کی طرف مائل تھی،اس سلسلہ میں انھوں نے عیسائیت اوراُس کے لٹریچر کامطالعہ بڑی وقّتِ نظر اوروسعت سے کیا تھا۔ اسی شوق میں انھوں نے انگریزی پڑھی اوراُس میں بڑی اچھی استعداد پیدا کرلی، ساتھ ہی سنسکرت اور عبرانی زبان سے بھی واقفیت پیداکی،لیکن ان کی تقدیر میں اُردو زبان کاعظیم صحافی ہونا لکھا تھا،اس لیے وہ جلدہی جرنلزم کی طرف مائل ہوگئے۔ پہلے اِدھر اُدھر دہلی اور پنجاب میں مختلف اخبارات کی ادارت کرتے رہے ،اس کے بعد اخبار الجمعیۃ سے وابستہ ہوئے تو ایک مختصر وقفہ کومستثنیٰ کرکے اُس کے ہو کررہ گئے اورساری زندگی اُس کے لیے وقف کردی۔
مرحوم کا سیاسی اورمذہبی مطالعہ بہت وسیع تھا۔طبعاً نہایت ذہین اورطباع تھے۔ قلم بے حد شگفتہ تھا، جوکچھ لکھتے تھے بہت صاف، واضح، مدلل، پر مغز اور ساتھ ہی پرجوش اور ولولہ انگیز ہوتاتھا اس لیے ان کے افتتا حیے بڑے شوق وذوق سے پڑھے جاتے اورعوام وخواص سے خراجِ تحسین وصول کرتے تھے۔لیکن انگریزوں کے زمانہ کی بات دوسری تھی۔ ایک غیر ملکی حکومت سے واسطہ تھا اور ہندوستان اُس سے جنگِ آزادی لڑرہاتھا ۔قلم نے تلوار کی جگہ لے لی تھی، اس لیے جتنا سخت لکھتے کارِ ثواب تھا اوراُس کی پاداش میں جیل جانایا اخبار کی ضمانت کا ضبط ہوجانا استخلاص ِ وطن کی شریعت کاحجِ آزادی جواپنے جلومیں تقسیم اوراُس کی تباہ کاریاں لے کرآئی، اُس کے بعدصورتِ حال بالکل مختلف ہوگئی،اب مولانا محمد عثمان فارقلیط کے خامۂ شعلہ بار و آتش فگن کواس دوگونہ رنج وعذاب سے دوچار ہونا پڑا کہ :
عاشقی صبر طلب اور تمنّا بیتاب
دل کاکیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
مولانا محمد حفظ الرحمن صاحب سیو ہاروی ؒ مسلک عاشقی پر گامزن اور مولانا فارقلیط تمنا کی بے تابی کے صیدزبون! نتیجہ یہ ہوا کہ کشمکش بڑھنے لگی، ہم نے خود بارہایہ منظر دیکھا ہے کہ دفتر جمعیت علماء میں مغرب کے بعد مولانا حفظ الرحمن صاحب کا دربار لگا ہواہے، مفتی عتیق الرحمن صاحب اوردوسرے حضرات جوروز کے حاضر باش تھے بیٹھے ہوئے ہیں، اِدھر اُدھر کی باتیں ہورہی ہیں، اسی اثناء میں مولانا فارقلیط کوبلایا گیا،وہ آگئے تومولانا حفظ الرحمن صاحب نے حسب عادت اُن پر برسنا شروع کردیا:’’میں آپ سے کتنی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ قلم سنبھال کے لکھئے،اُس کو اسپ بے لگام نہ ہونے دیجیے، مگرآپ پرکوئی اثر نہیں ہوتا۔ الجمعیۃ اُٹھا کراُس کے مقالۂ افتتاحیہ کی بعض سطریں پڑھنی شروع کر دیتے ہیں اور غصہ سے اُسے رکھ کر پھر فرماتے ہیں: بھلا اس قدر سخت اور اشتعال انگیز لکھنے سے فائدہ کیا؟ اگراس سے کچھ مقصد برآری ہوتی ہو؟ایک بات بھی ہے، ورنہ کھسیانی بِلّی بننے سے اپناہی منہ بگڑتا ہے،حاصل وصول کچھ بھی نہیں ۔‘‘ مولاناکو تو تقریر کاایک بہانہ ملنا چاہیے تھاوہ ہیں کہ کہے چلے جارہے اور فارقلیط صاحب گردن جھکائے خاموش بیٹھے زجر و توبیخ کے تلخ گھونٹ حلق سے نیچے اُتار رہے ہیں۔تھوڑی دیر کے بعد مجلس برخاست ہوتی اور میں اور فارقلیط صاحب دفتر سے باہر آتے تو فارقلیط صاحب آبدیدہ ہوکرمجھ سے کہتے :۔ ’’مولانا !ہائے کیا بے بسی اور بے چارگی کاوقت آیا ہے کہ ہم روتے ہیں تو اس کی اجازت بھی نہیں ملتی ‘‘، اس کے بعد غالب کایہ شعر پڑھتے:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گُھٹ کے مر جاؤں، یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
قومی اور ملکی مسائل ومعاملات کے علاوہ انھوں نے مسلمانوں کی اخلاقی، مذہبی، معاشی اور سماجی اصلاح کے لیے بھی ایک سے ایک بہتر، فکرانگیز اور بصیرت افروز سینکڑوں مقالات لکھے۔ اُن کی تنقید ہمیشہ تعمیری ہوتی اورجو بات کہتے وہ اُن کے سوزِ درون کا؟ ہوتی تھی۔ بحیثیت انسان کے وہ عجیب وغریب اوصاف وکمالات کے بزرگ تھے نہایت سادہ ،قانع، بے لوث وبے غرض ،نہ کسی دعوت اور پارٹی سے غرض، نہ کہیں آنا نہ جانا،نہ دنیوی عیش اور آرام سے واسطہ! اُن کی چاء اور بیڑی سلامت!پھر انھیں کسی چیز سے کوئی غرض نہیں۔
[جولائی ۱۹۷۶ء]
_____________
گزشتہ ماہ کے نظرات میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے مولانا محمد عثمان فارقلیط مرحوم کے متعلق دو واقعوں کاذکر ہونے سے رہ گیا۔اس کی تلافی اب کی جاتی ہے۔ مرحوم جس درجہ مخلص، بے نفس اوربے لوث وبے غرض تھے، اسے ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے سب جانتے ہیں لیکن اس سلسلہ میں میرے ساتھ جو ایک واقعہ پیش آیا میرے دل پرمرحوم کے لیے جذبات شکرگزاری کے ساتھ اب تک اس کاگہرااثرہے۔ دو سوا دو برس پہلے کی بات ہے ایک دن مرحوم نے مجھے لکھا: ’’میرے پاس انگریزی کی چند اہم علمی کتابیں اورپرانے انگریزی رسالے ہیں میں چاہتاہوں کہ وہ آپ کی نذر کردوں کیونکہ میرے نزدیک آپ سے زیادہ کوئی اور شخص مستحق نہیں۔میں خود اب ان کتابوں سے استفادہ نہیں کرسکتا‘‘۔میں نے کہا: بہت بہتر!میں شکریہ کے ساتھ قبول کروں گا۔دوسرے دن مولانا نے ایک صاحبزادے کے ہاتھ ایک بڑا بنڈل میرے پاس بھیج دیا۔میں نے شوق اشتیاق کے ہاتھوں سے اسے کھولا تومیری خوشی کی انتہا نہیں رہی،جب میں نے اس بنڈل میں دوسری چیزوں کے ساتھ تاریخ یہودپرانگلینڈکی ایک بہت پرانی مطبوعہ اوربہت ضخیم کتاب بھی دیکھی۔میں اس کتاب کے نام سے واقف تھا مگر تلاش کے باوجود کہیں دستیاب نہ ہوئی تھی۔اس غیر معمولی عنایت وکرم کاشکریہ ادا کرنے کی غرض سے میں خود مولانا کے مکان پرگیا۔حسب معمول بڑی محبت اور ولولے وجوش سے ملے۔الجمعیتہ سے الگ ہونے کی داستان سنائی۔برہان اور خاص طورپر اس کے نظرات کی تعریف کرتے رہے اورتجویز کیاکہ یہ سب نظرات کتابی شکل میں یکجا شایع ہونے ضروری ہیں۔مسلمانوں کی بے حسی اورغفلت شعاری کاماتم کرتے رہے کہ میں نے خفتہ بخت قوم کوبیدار کرنے کے لیے کیا کچھ جتن نہیں کیے مگر اس پر ذرااثر نہیں ہوا۔اس لیے وہ کہتے تھے کہ میں تواس ملک میں ان کے مستقبل کی طرف سے مایوس ہوں۔یہ کہہ کرآبدیدہ ہوگئے اور ایک گہری سوچ میں ڈوب گئے۔
میں نے ان کے گراں قدر تحفہ کاشکریہ ادا کیا۔اورکہا: ’’تاریخ یہود پرجو کتاب آپ نے بھیجی ہے وہ اب نایاب ہے مگر ہے بہت اہم۔ اس لیے اگر آپ اس کو کسی یونیورسٹی کے ہاتھ فروخت کردیں تو منہ مانگے دام مل سکتے ہیں۔ مرحوم نے کہا: ’’جی ہاں مجھے معلوم ہے لیکن فارقلیط صاحبِ قلم ہے، صاحب دوکان نہیں۔بات یہ ہے کہ میرے پاس کتابوں اورقدیم مجلات کابڑا ذخیر ہ ہے، اب زندگی کاچراغ جھلملا رہاہے۔یہ سب چیزیں میرے لیے بے کار ہیں۔ انھیں کسی اور کی نظرکروں گا۔تاریخ یہودپرجوکتاب آپ کوبھیجی ہے ا س کی علمی اہمیت اور قدروقیمت کی وجہ سے میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ آپ جس ذوق کے آدمی ہیں اور جو علمی خدمات آپ کی ہیں اورکررہے ہیں، ان کے اعتراف کے طورپر یہ کتاب آپ کی نظر کروں گا۔آپ نے اسے قبول فرمالیا میں شکرگزار ہوں۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ انہی دنوں میں حیات ونزول مسیح کے مسئلہ میں جب بعض اخبارات نے مولانا فارقلیط پرلے دی کی اورشور مچایا توازراہِ تعلق خاطر انھوں نے مجھے لکھا: میرے خلاف سخت ہنگامہ بپاہے۔لکھنؤ کے ایک مولوی صاحب اپنے ایک رفیق کے ساتھ مجھ کو تبلیغ کرنے کے لیے آنا بھی چاہتے ہیں۔ میں اس سلسلہ میں آپ کا خیال معلوم کرنا چاہتاہوں۔اس سے مجھ کو بڑی روشنی ملے گی۔میں نے مولانا کوحسب عادت مختصر خط لکھا: ’’جس طرح قرآن مجید میں متشابہات ہیں اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی کے بقول میرے نزدیک بعض احادیث بھی متشابہات ہیں اورمسئلہ متعلقہ کے بارے میں جو احادیث صحیح ہیں وہ سب اسی قسم میں شامل ہیں۔اس بناپر آیات متشابہات کے بارے میں میرا جوعمل ہے یعنی مثلاً صفات باری کے متعلق قرآن میں جوکچھ ہے اورجس طرح ہے میں اُس پرایمان رکھتا ہوں لیکن ساتھ ہی کہتاہوں کہ اُن کی حقیقت کیاہے؟مجھے نہیں معلوم، کائنات میں کتنی چیزیں ہیں جن کا وجود یقینی ہے لیکن سائنس کو ان کی حقیقت کے معلوم نہ کرسکنے کااعتراف ہے، پس میرایہی طریقہ عمل اُن احادیث کے متعلق ہے جو میری رائے میں متشابہات میں داخل ہیں۔ اس بنا پر اُن سے متعلق نہ میں بحث کرنا پسند کرتاہوں اورنہ کسی سے الجھنا۔اورنہ ہم شرعاًاس پر بحث کرنے کے مکلف ہیں، بلکہ امور قدر و جبر کی طرح یہ معاملات ومسائل وہ ہیں جن پربحث کرنے کی ممانعت حدیث سے نکلتی ہے۔ یوں شرح عقائد نسفی میری محبوب کتاب ہے، مدرسہ عالیہ کلکتہ میں بیضاوی وغیرہ کے ساتھ اس کتاب کا درس سالہا سال سے دیتارہاہوں اوراس قسم کے مسائل و مباحث پرطلبا کے سامنے تقریریں کرتارہاہوں لیکن پبلک میں ان چیزوں کو معرض بحث میں لانا سخت ناپسند کرتاہوں۔ایک صدی اور انتظار کیجئے سائنس خودقرآن کے بیان کردہ حقائق غیبیہ کوآپ کے سامنے بے نقاب وحجاب لاکرپیش کردے گی۔وما ذلک علی اﷲ بعزیز۔‘‘
یہ خط بہت سرسری اورجلدی میں لکھا گیا تھا، مگر وقت کی بات!مرحوم پر اس کا غیرمعمولی اثرہوا، اس کے جواب میں ایک پرزہ پرصرف یہ لکھ کر بھیجا: ’’جزاک اﷲ! دل کے دریچے کھل گئے۔‘‘میراخیال ہے کہ مرحوم کاآخری بیان جس پراُن کے خلاف ساراہنگامہ فرو ہواہے میرے اس خط کے بعدہی نکلاہے، واﷲ ا علم بالصواب۔ایک اخبار کاایڈیٹر اس حیثیت سے بڑا بدنصیب ہوتاہے کہ ہزاروں صفحات اچھے سے اچھے لکھتاہے لیکن حاصل وصول کچھ نہیں، سب کچھ ردی کے بھاؤ بک جاتاہے اورکوئی چیز اس کی یادگار نہیں رہتی، اسے نہ تاریخ ادب میں جگہ ملتی ہے اورنہ مصنفین ومؤلفین اورادیبوں کے زمرہ میں اُس کا شمار ہوتاہے، ایک شعٔلہ مستعجل کی طرح چمکتا ہے اوربجھ کرہمیشہ کے لیے روپوش ہوجاتاہے، فارقلیط مرحوم کے ساتھ اگرایساہواتوقوم کی بڑی بدنصیبی ہوگی۔
[اگست۱۹۷۶ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...