1676046603252_54338772
Open/Free Access
154
مولاناعبدالماجد دریابادی
افسوس ہے بہت دنوں سے جس کا کھٹکا لگاہوا تھا آخر وہ دن بھی آگیا یعنی مولانا عبدالماجد صاحب دریابادی نے کم وبیش ۸۵برس کی عمر میں ایک طویل علالت کے بعد۶/جنوری ۱۹۷۷ء کواپنے وطن دریا باد میں وفات پائی۔ اناﷲ واناالیہ راجعون۔
مولانا اپنی خصوصیات اورکمالات واوصاف کے باعث ایک خاص اور نمایاں شخصیت کے مالک تھے۔ برصغیر ہندوپاک کے علمی اورادبی اوراسلامی حلقے اُن کو اپنا بزرگ مانتے اوراس لیے ان کا بڑا ادب واحترام کرتے تھے۔مولانا کی اصل تعلیم انگریزی کی تھی، فلسفہ اورنفسیات اُن کے خاص مضمون تھے۔لکھنؤ سے بی۔اے کیا تھا اس کے بعد کچھ دنوں علی گڑھ میں بھی رہے، لیکن ایم۔اے نہ کرسکے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ بی۔اے کی قدر آج کل کے پی ایچ۔ ڈی سے بھی زیادہ ہوتی تھی اوروہ درحقیقت ان سے زیادہ قابل اور لائق بھی ہوتا۔مولانا نے باقاعدہ کبھی اورکہیں ملازمت نہیں کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد کچھ دنوں دار الترجمہ حیدرآباد دکن سے منسلک رہے اورمنطق و فلسفہ کی بعض کتابوں کو انگریزی سے اردو میں منتقل کیا، مگر وہاں جی نہ لگااوروطن چلے آئے، یہاں آکر ایسے جمے کہ بڑے بڑے انقلابات آئے، زمین اورآسمان زیروزبر ہوگئے مگر مولانا اپنے قصباتی کنج عافیت سے نہ نکلے اورساری عمر وہیں گزار دی۔
مولانا کی تصنیفی زندگی کاآغازایک فلسفی اوراردو شعر وادب کے ایک نقاد کی حیثیت سے ہوا۔ مطالعہ کے دھنی اوررسیا،نظر میں وسعت اورذہانت وفطانت خداداد، اس زمانہ کے باکمال ارباب قلم کی معیت وصحبت، پھر سب سے بڑی بات یہ کہ انشاوتحریر کاایک منفرد اسلوب، ان سب چیزوں نے مل جل کر عنفوان شباب میں ہی اردو زبان کاایک ممتاز ادیب اورمصنف بنادیا۔مولانا نے تذکرۂ و سوانح،شعر وادب،تاریخ وفلسفہ اوراجتماعی مسائل، ان سب پربہت کچھ لکھا اور اچھے سے اچھا لکھا، لیکن آپ کاسب سے بڑا کارنامہ جوبقائے دوام کا ضامن ہے وہ انگریزی اوراردو میں ترجمہ وتفسیر کلام مجید ہے۔ ابھی عمر کی درمیانی منزل میں ہی تھے کہ آپ کواپنے پیرومرشد حضرت مولانا محمد اشرف علی صاحب تھانویؒ کے فیض صحبت واثر سے قرآن مجید کے ساتھ ایسا شغف وانہماک پیداہوا کہ زندگی اس کی خدمت کے لیے وقف کردی، اگرچہ وہ دوسرے کام بھی کرتے رہے لیکن ان کی حیثیت ضمنی تھی۔ترجمہ وتفسیر کے سلسلہ میں مولانا نے مسلسل سالہا سال جو محنت شاقہ برداشت کی ہے اورجس ذوق شوق اورانہماک سے یہ عظیم الشان خدمت انجام دی ہے اُس کااندازہ کتاب دیکھنے سے ہی ہوسکتا ہے۔ اس ذیل میں مولانا نے عربی اوراردو زبان کی تفاسیر اورعربی وقرآنی لغات کا مطالعہ تومحنت اوروسعت سے کیاہی تھا، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چونکہ قرآن مجید میں اہل کتاب اوراُن کی کتابوں کاتذکرہ کثرت سے ہے پھر امم قدیمہ کے حالات و سوانح بھی جگہ جگہ بیان کئے گئے ہیں، اس بناپر مولانا نے کتب قدیمہ یعنی New Testament And Old Testament کے پرانے اور نئے ایڈیشن اورامم سابقہ کی تاریخ پرنہایت مستند اور محققانہ کتابوں کاوہ عظیم ذخیرہ بڑی محنت اوردل کی لگن کے ساتھ کہاں کہاں سے فراہم کیا، اس سلسلہ میں عبرانی زبان بھی سیکھی، پھر قرآن مجید سے متعلق جوکچھ یورپ میں لکھا گیا تھا اس کی کتابیں بھی برابر بہم پہنچاتے اوربڑے غوروخوض سے ان کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ علاوہ ازیں فلسفہ اورسائنس کے نئے نئے نظریات وافکار سے بھی واقف رہتے تھے ان سب چیزوں سے انھوں نے اپنی تفسیر میں کام لیا اور یہی چیز مولانا کی تفسیر کی وہ انفرادی خصوصیت بن گئی جس میں کوئی ان کاسہیم و شریک نہیں ہے۔ تفسیر ماجدی کے بعد جن حضرات نے قرآن مجید کی تفسیر یا اس کی تفہیم کے سلسلہ میں ان موضوعات پرلکھاہے اُس میں انھوں نے درحقیقت مولانا کی ہی خوشہ چینی کی ہے۔ مولانا کے خامۂ زرنگار سے جو مضمون نکل گیا سدا بہار ہوگیا، لیکن علمی،تحقیقی اورادبی حیثیت سے تفسیر ماجدی مولانا کاوہ عظیم الشان کارنامہ ہے جس کی آب وتاب وقت گزرنے کے ساتھ اور بڑھے گی اورآیندہ نسلیں شکرگزاری کے ساتھ انھیں یاد کریں گی۔
مولانا کاسانحۂ وفات علم وادب کی دنیا کاعظیم حادثہ ہے لیکن مولانا کوندوۃ المصنفین اورخاص طورپر برہان کے ساتھ جوقلبی لگاؤ اورندوۃ المصنفین کے ناظم اوربرہان کے ایڈیٹر کے ساتھ جو غیر معمولی شفقت بزرگانہ کاتعلق تھااُس کی وجہ سے یہ حادثہ خود اپنا ذاتی حادثہ بھی ہے جس کے اثرات بہت دنوں تک محو نہ ہوں گے۔ مولانا علم وعمل،حق گوئی وصاف بیانی،اخلاق وشمائل اورعادات وخصائل کے اعتبارسے سلف صالحین کانمونہ تھے۔ اُن کی وفات ایک دور کاخاتمہ اور مسلمانوں کی تاریخ عصر حاضر کے ایک باب کی انتہا ہے۔رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ ۔ [جنوری۱۹۷۷ء]
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |