Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

پروفیسر رشید احمد صدیقی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338773

Access

Open/Free Access

Pages

155

پروفیسر رشید احمد صدیقی
افسوس ہے ابھی مولانا عبدالماجد دریابادی کے اشک ماتم خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ اردو ادب وانشا کے میدان کاایک اورشہسوار گرا یعنی پروفیسر رشید احمد صاحب صدیقی نے کم وبیش پچاسی برس کی عمر میں علی گڑھ میں وفات پائی اور وہیں سپردخاک ہوئے۔ مرحوم کا اصل وطن جونپور تھا لیکن طالب علمی کے زمانہ میں علی گڑھ آئے تو بس یہیں کے ہوکر رہ گئے، یہیں انھوں نے تعلیم حاصل کی۔ اُس زمانہ میں اردو میں ایم۔اے نہیں ہوتاتھا اس لیے فارسی میں ایم۔اے کیا، پھر یہیں اردوکے لیکچرر ہوئے اورایک عرصہ کے بعدریڈر بنے۔ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب جن کومرحوم ہمیشہ مرشد کہتے اورلکھتے تھے اُن کی وائس چانسلری کے زمانہ میں پروفیسر ہوگئے لیکن اس عہدہ پرفائز ہوئے ابھی دو ہی برس ہوئے تھے کہ ملازمت سے سبکدوش کردیے گئے۔ یونیورسٹی کے قانون کے مطابق وہ ابھی توسیع کے مستحق تھے لیکن اس زمانہ میں یونیورسٹی میں جو سیاست چل رہی تھی وہ مانع ہوئی اور شیخ عبدالرشید(شعبۂ تاریخ)وغیرہ کے ساتھ یہ بھی ریٹائرڈ کرد یے گئے۔ مرحوم نہایت خوددار اورحساس تھے اس لیے انھوں نے شکوہ شکایت کسی سے نہیں کیا لیکن انھیں اس کااحساس عمر بھررہا چنانچہ وہ علی گڑھ میں ہی اپنے ذاتی طویل و عریض مکان میں ایسے گوشہ نشین ہوکربیٹھ گئے کہ نہ کبھی اردو ڈپارٹمنٹ میں قدم رکھا اورنہ یونیورسٹی کی کسی تقریب،کسی پارٹی اورفنکشن میں کہیں نظر آئے۔
مرحوم نے اگرچہ کوئی مستقل کتاب کبھی نہیں لکھی اورنہ کوئی علمی اورتحقیقی کام کیا لیکن وہ اردو زبان کے عظیم نکتہ دان اورادیب تھے، اس لیے مضامین کثرت سے لکھے جن کے دومجموعے ’ ’طنزیات ومضحکات‘‘ اور ’’مضامین رشید‘‘ کے نام سے طبع ہوکر ارباب ذوق میں مقبول اورمشہور ہوئے۔ علاوہ ازیں بعض خطبات بھی چھپے ہیں۔ ان کااردو، فارسی اور انگریزی ادب کا مطالعہ وسیع تھا، ذہانت خداداد، طبیعت میں جولانی اورنکتہ آفرینی، قوت مشاہدہ تیز، ان سب چیزوں نے جمع ہوکر انھیں ایک بالغ نظر،دقیقہ رس اوراعلیٰ درجہ کاادیب اور نقاد بنا دیا۔ اُن کی تحریر میں زبان وبیان کی صحت وشگفتگی کے ساتھ ایک خاص قسم کا بانکپن اور تیکھاپن پایاجاتا تھا۔سنجیدگی اورمتانت کے ساتھ لطیف طنز ومزاح کی آمیزش ان کی نگارش کوشراب دوآتشہ بنا دیتی تھی۔ اس وصف خاص میں اگر کوئی ان کا ہمسر تھا تووہ احمد شاہ بخاری پطرس تھے لیکن کمیت اورکیفیت کے اعتبار سے رشید احمد صدیقی، احمد شاہ بخاری پرترجیح کے مستحق ہیں، یہی وجہ ہے کہ برصغیر ہندوپاک کے ادباء اوردانشور انھیں اپنا سالارکارواں مانتے اورتسلیم کرتے تھے۔
انھوں نے ایک زمانہ میں علی گڑھ سے ایک سہہ ماہی مجلہ’’سہیل‘‘کے نام سے نکالنا شروع کیا تو ظاہری اورمعنوی حیثیت سے یہ ایسی آن بان اورشان کا مجلہ تھا کہ بڑے بڑے نامور ادبی مجلات ورسائل اس کی آب وتاب کے سامنے ماند پڑگئے۔ اس زمانہ کے اکابر علم وادب حافظ محمود خاں شیرانی،پروفیسر محمد اقبال (پنجاب یونیورسٹی) مولانا ابوبکر شیث اس کے مقالہ نگاروں میں تھے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی کاڈرامہ’’زودپشیمان‘‘سب سے پہلے اسی میں شایع ہوا تھا لیکن افسوس ہے کہ یہ مشعلۂ مستعجل ثابت ہوا،چھ سات نمبر ہی نکل پائے تھے کہ بند ہوگیا۔ اس کے بعد علی گڑھ میگزین کے دوخاص اورضخیم علی گڑھ تحریک نمبر ان کی نگرانی اوررہنمائی میں شایع ہوئے تووہ بھی مہدی افادی کے بقول’’خاصہ کی چیز تھے‘‘۔ غرض کہ ان کا جوکام تھا اعلیٰ قسم اوربلند معیار کا تھا، وہ علی گڑھ اوراس کی روایات کے دلدادہ اورعاشق تھے، اوراس درجہ کہ علی گڑھ ہی ان کا منبع خیال، مرکز فکر و نظر اور سرچشمۂ احساسات وجذبات تھا۔چنانچہ ان کے اکثر مقالات و مضامین میں جوواقعات یاتلمیحات یاکردار مذکور ہیں وہ سب علی گڑھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ رشید احمد صاحب صدیقی پران کی حیات میں کافی مقالات لکھے گئے اور ان پر تحقیقی مقالہ لکھ کر بعض لوگوں نے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری بھی لی،لیکن ہمارے نزدیک اس سلسلہ کاسب سے بہتر مقالہ وہ ہے جو پروفیسر محمد اسلوب انصاری (شعبۂ انگریزی، علی گڑھ)نے رشید صاحب کے فکروفن پر لکھا اور جو ’’فکر و نظر‘‘ علی گڑھ میں کئی قسطوں میں چھپاتھا۔ طبعاً شگفتہ مزاج،خوش خلق، غیور و خوددار، مرنج ومرنجان مگر کم آمیز اورخلوت پسند تھے۔ وہ در حقیقت ان لوگوں میں سے تھے جن کے دیکھنے کوآیندہ نسلیں ترسیں گی مگر ان جیسا کسی کونہ پاسکیں گی۔ اﷲ تعالیٰ ان کومغفرت وبخشش کی نعمتوں سے نوازے۔آمین
[فروری۱۹۷۷ء ]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...