Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

فخر الدین علی احمد
Authors

ARI Id

1676046603252_54338774

Access

Open/Free Access

Pages

156

آہ مرحوم صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد
ملیشیا میں مرحوم فخر الدین علی احمد صاحب کے بیمار ہونے کی اطلاع اخبارات میں پڑھی توان سے جو تعلق خاطر تھااس کے باعث تشویش پیداہوئی اور خصوصاً اس لیے کہ وہ دل کے مریض تھے، لیکن۱۱/فروری کی صبح کو انگریزی اخبارات میں مرحوم کے بخیریت ہندوستان واپس پہنچ جانے کی خبر کے ساتھ ان کا وہ فوٹو بھی دیکھا جس میں وہ ہشاش و بشاش اورمسکراتے ہوئے وزیراعظم اور کابینہ کے بعض وزراء کے ساتھ پالم پرہوائی جہاز سے اترکر کھڑے ہیں تودل کو اطمینان ہوااوراﷲ کاشکراداکیا، یہ آٹھ ساڑھے آٹھ بجے کی بات ہے۔ اس کے بعد سوا نوبجے حسب معمول انسٹیٹیوٹ آیا، سب سے پہلے انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر کرنل تاج الدین صاحب سے ملاقات ہوئی توعلیک سلیک کے بعد انھوں نے گلوگیر آواز میں کہا:’’سخت افسوس ہے کہ صدر کاانتقال ہوگیا۔‘‘یہ سننا تھا کہ جیسے بجلی گرپڑی اورجی دھک سے ہوکررہ گیا، میں اوروہ فوراً ٹیلی فون پرآئے اورآخر جس خبر پریقین کرنے کے لیے دل ہرگز آمادہ نہیں تھا اُس پریقین کرناپڑا اورعالم یہ ہواکہ:
تم کیاگئے کہ ہم پہ قیامت گذر گئی
آخر مرحوم کا ماتم گھر گھر بپاہوا، ان پر سینکڑوں مضامین لکھے گئے دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کے صدر کی حیثیت سے بڑی بڑی حکومتوں کے نمائندوں نے اُن کی وفات پراظہار غم کیا اوران کی تدفین میں شرکت کی، ہزاروں قرآن مجید پڑھ کر ان کی روح کوایصال ثواب کیا گیا، سرکاری طورپر جو رسوم ضروری تھیں وہ اداکی گئیں۔ ان کی زندگی سراپا عمل اورجدوجہد تھی، وہ ایک عظیم انسان کی طرح زندہ رہے اوراپنے ملک کے عظیم ترین انسان کی حیثیت میں جو ایک شخص کے لیے عزت ووجاہت دینوی کاآخری نقطۂ عروج و ترقی ہے، دنیا سے عالم عقبی کی طرف چل بسے۔ سدارہے نام اﷲ کا!اناﷲ واناالیہ راجعون۔
مرحوم کے والدماجد کرنل زیڈ۔احمد آسام کے باشندہ تھے اوران کی والدہ محترمہ نوابان لوہارو میں سے نواب زین العابدین عارف جن کا مرثیہ غالب نے لکھا ہے اُن کے خاندان سے تھیں، کرنل صاحب اگرچہ آسام کے تھے لیکن بسلسلۂ ملازمت سرکاری ان کودہلی اور اس کے اطراف واکناف میں رہتے ایک مدت ہوگئی تھی۔حکیم محمد اجمل خاں صاحب مرحوم کے خاص دوستوں اورہم نشینوں میں تھے اور کہتے تھے کہ آسام کادلی سے یہ پیوند حکیم صاحب کی خواہش اوران کی کوششوں پرہی لگا تھا۔یہ خاندان دولت و تمول، عزت ووجاہت اورتعلیم کے ساتھ دین داری اورشرافت میں ممتاز تھا۔ ایک مرتبہ مولانا محمد حفظ الرحمن صاحب نے سنایا کہ تحریک خلافت کے سلسلہ میں جب وہ پہلی مرتبہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ گرفتار ہوئے اوربجنور جیل میں رکھے گئے تواس زمانہ میں یہاں کے جیلر کرنل زید احمد صاحب ہی تھے۔کرنل صاحب کی بیگم صاحبہ نے قیدیوں کونماز پڑھتے اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے دیکھا توبولیں:’’ارے غضب خدا کا، تم نے کیسے اﷲ والوں کوجیل میں لاکر بندکردیاہے۔‘‘کرنل صاحب نے جواب دیا: میں تو ملازم سرکار ہوں جو حکم ہے وہ کروں گا، البتہ تم ان قیدیوں کی دیکھ بھال اور خاطر تواضع کرتی رہو، چنانچہ مولانا کہتے تھے جب تک کہ وہ جیل میں رہے ان کے اور ساتھیوں کے لیے طرح طرح کے عمدہ کھانوں کے خوان جیل میں آتے رہے۔اس واقعہ کے بعد سے ہی مولانا کواس خاندان سے بالکل برادرانہ اور عزیزانہ تعلق پیداہوگیا تھا جوآخر تک قائم رہا۔
جناب فخر الدین علی احمد صاحب جو غالباً بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، ۱۹۰۵ء میں دہلی میں پیداہوئے، تعلیم کلکتہ اوردہلی میں پائی، ایڈوکیٹ کی حیثیت سے کچھ دنوں پنجاب اوراترپردیش میں پریکٹس کی، پھر یورپ چلے گئے ، وہاں آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی۔اے کیا اوربار۔ایٹ لاء ہوئے۔ اس زمانہ میں وہاں ان کے ساتھی مرحوم بیرسٹر نورالدین(دہلی)اورقاضی عبدالودود صاحب(پٹنہ)تھے۔ یورپ سے واپس آکرآسام میں پریکٹس شروع کی، چند برسوں میں ہی وہاں کے نہایت کامیاب اورممتاز بیرسٹر ہوگئے۔ اﷲ نے کیا کچھ نہیں دیا تھا، اگروہ چاہتے توزندگی بڑے عیش وآرام اورشہرت وناموری کے ساتھ گزار سکتے تھے مگروہ سچے محب وطن اورفطرتاً نیشنلسٹ تھے اس لیے جلد ہی خار زار سیاست میں گھس پڑے۔ ان کی سیاسی زندگی کاآغاز آسام سے ہوا۔ ۱۹۳۵ء ایکٹ کے ماتحت ملک میں جو انتخابات ہوئے، اگرچہ یہ زمانہ مسلم لیگ کی تحریک کے انتہائی شباب کا تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے سرسعد اﷲ جیسی کہن سال و تجربہ کارشخصیت کوشکست دی۔ آسام میں ان کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کایہ عالم تھا کہ وہاں کی سیاست ان کے اشارۂ چشم وابرو پررقص کرتی اور وہ یہاں کے مردآہن کہلاتے تھے۔وہ اعلیٰ درجہ کے کانگریسی اورنیشنلسٹ ہونے کے باوجود نہایت انصاف پسند،جری اورحق گو بھی تھے، چنانچہ تقسیم کے بعد ایک وہ وقت بھی آیا جبکہ آسام کے سرحدی علاقوں سے وہاں کے مسلمانوں کو پاکستانی کہہ کر نکالاجارہا تھا، مرحوم نے اس کی شدید مخالفت کی، اسمبلی میں گورنمنٹ کی اس پالیسی کے خلاف سخت تقریریں کیں، سینٹرل گورنمنٹ کومیمورنڈم بھیجا۔اس سلسلہ میں خود وہاں کی کانگریس نے انھیں کیا کچھ بدنام نہیں کیا، ان کے نیشنلزم کو مطعون کیا گیا اورملک سے ان کی وفاداری تک کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے جس کام کا بیڑا اٹھایا تھا آخرکار اسے انجام تک پہنچاکے رہے اورگورنمنٹ کواپنی یہ پالیسی ترک کرنی پڑی۔ مرکز میں آنے کے بعد اگرچہ ان کی شخصیت کا وہ طنطنہ اوردبدبہ باقی نہیں رہا جو آسام میں تھا لیکن وہ کانگریس کے ہائی کمانڈ میں تھے، اس بناپر ان کی رائے اورمشورہ کی بڑی اہمیت تھی، وہ تقریر کم کرتے کام زیادہ کرتے تھے، جوشیلی باتیں کہنے سے اجتناب کرتے اورٹھوس حقائق پرنظر رکھتے تھے۔ گزشہ چند برسوں میں ملک میں سرکاری سطح پر اردو کو جو فروغ ہواکون کہہ سکتا ہے کہ اس میں آں مرحوم کی درپردہ مساعی اورکوششوں کا دخل نہیں ہے۔ دلّی میں ایوان غالب ان کی ایسی عظیم الشان یادگار ہے جوآیندہ نسلوں کے دل میں ان کی یاد اوران کے لیے جذبات شکرگزاری کاچراغ ہمیشہ روشن رکھے گی۔ وہ قدیم دلّی کی تہذیب،شرافت اوراس کی حسین روایات کے پیکر اتم تھے اورانھیں ان روایات پرفخر تھا۔چنانچہ پہلے غالب صدی تقریبات اور اس کے بعد امیرخسرو تقریبات ان کے اہتمام وانتظام میں بصرفِ زرِکثیر جس شان سے منائی گئیں وہ کل کی سی بات ہیں۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا جناب فخر الدین علی احمد صاحب کاخاندان دین داری اور شرافت میں ممتاز ہے، آں مرحوم اوران کے خاندان کے ساتھ میرے بردرانہ اورعزیزانہ تعلقات چالیس برس سے ہیں، ان کی بہنوں اوربھائیوں کی طرح میں بھی انھیں ہمیشہ آکابھائی کہتا تھا۔ میرے کلکتہ کے زمانۂ قیام میں متعدد بار انھوں نے شلانگ سے دہلی آتے جاتے کبھی تن تنہا اورکبھی متعلقین کے ساتھ،کبھی فقط ایک شب کے لیے اورکبھی ایک دودن کے لیے میرے ساتھ قیام کیا۔ ان کے علاوہ ان کی بہنیں اوربھائی کلکتہ آتے تووہ بھی یہیں قیام کرتے تھے، اسی طرح مرحوم کے بردارخورد جناب حاجی احتشام الدین احمد صاحب عرف چھمن میاں جو آسام گورنمنٹ میں اعلیٰ افسر تھے ان کی دعوت اوراصرار پر متعدد بار میں شلانگ گیا توہفتوں دونوں بھائیوں کامہمان رہا۔اس بناپرجناب مرحوم اور ان کے خاندان کومیں نے جلوت میں بھی دیکھاہے اورخلوت میں بھی،گھر کے اندر بھی دیکھاہے اورگھر سے باہر بھی،میں اپنے علم وبصیرت کی روشنی میں کہہ سکتاہوں کہ ایسے اعلیٰ انگریزی تعلیم یافتہ خاندان میں نے کم دیکھے ہیں جہاں یہ دونوں چیزیں بیک وقت اس طرح مجتمع ہوں۔ خود مرحوم کی دین داری کاعالم یہ تھا کہ صوم صلوٰۃ کے پابند تھے، قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور حلال و حرام کاخیال رکھتے تھے۔ صدر جمہوریہ ہونے کے بعد بھی جمعہ کی نماز کے لیے نئی دہلی کی جامع مسجد پابندی سے آتے اوررمضان میں ختم تراویح کی تقریب میں شریک ہوکر حافظ اورامام صاحبان کو خلعت وانعام اپنے ہاتھ سے دیتے تھے۔ قربانی بہت اہتمام اورپابندی سے کرتے تھے، رمضان میں افطار اورکھانے کی مکلف دعوتیں جو وزارت کے زمانہ میں ہوتی تھیں وہ ہرسال راشٹر پتی بھون میں بھی ہوتی رہیں۔
شرافت کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ آدمی اپنے بڑے سے بڑے مخالف اور دشمن کے ساتھ بھی زبان اورعمل کاکوئی غیرشریفانہ معاملہ نہ کرے، یہ وصف مرحوم میں بدرجۂ اتم موجود تھا۔وہ بہت نرم خو اورنرم گفتگو تھے، خندہ جبین اور خندہ رو تھے، میں نے اشتعال کی حالت میں بھی انھیں بلندآواز میں بولتے نہیں سنا۔ کبھی کوئی ناشائستہ اور نامہذب لفظ ان کی زبان سے آشنا نہیں ہوا۔ بیرسٹر نورالدین مرحوم بڑے پھکڑ قسم کے انسان تھے، بعض مرتبہ میں نے دیکھا ہے کہ قدیم دوستی اور بے تکلفی کے باعث وہ فخر الدین علی احمد صاحب کے سامنے پھکڑ پن کے ساتھ حکومت پرتنقید کررہے ہیں، مگر فخرالدین علی احمد صاحب ہیں کہ ہنس رہے ہیں اورخاموش ہیں۔ اُن کادل انسانی محبت وہمدردی کے جذبات سے معمور تھا، اُن کے ہاں امیرغریب کی کوئی تفریق نہیں تھی، وہ ہر ضرورت مند کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے،نہایت بامروت اوروضعدار انسان تھے، جس سے جو وضع تھی اسے برابر نباہتے تھے۔لوگوں کاحال یہ ہے کہ ان کاکوئی عزیز قریب یا دوست وزارت کے عہدہ پرپہنچ جاتاہے تواس سے میل ملاپ اورملاقات کی لے کوبڑھا دیتے ہیں، لیکن میرامعاملہ اس کے برعکس ہے میں اس کے ہاں ازخودجانا ترک کردیتاہوں، اوراس کی وجہ یہ ہے کہ میں کسی سے کوئی غرض نہیں رکھتا۔چنانچہ فخرالدین احمد صاحب کے ساتھ بھی میرا معاملہ یہی رہا۔کبھی عید بقرعید پرچلا گیا توخیر، ورنہ ان کی وزارت اورصدارت کے زمانہ میں ازخود کبھی نہیں گیا۔ لیکن اُن کی وضع داری کایہ عالم تھا کہ انھوں نے کبھی مجھے فراموش نہیں کیا، سرکاری تقریبات کے علاوہ اپنی پرائیویٹ دعوتوں اور پارٹیوں میں بھی بلاتے تھے، گھر کی تقریبات کے موقع پربھی یاد فرماتے تھے اور جب میں جاتا مصافحہ اورمعانقہ کرتے اور گفتگو کرتے تھے۔ گزشتہ رمضان المبارک میں افطار پارٹی کے موقع پرکھانے سے فراغت کے بعد وہ ایک صوفہ پر بیٹھے ہوئے تھے، لوگ باری باری ان کے پاس جاکربیٹھتے اورکچھ دیر گفتگو کرکے اٹھ جاتے تھے،میں ہال میں ایک طرف کھڑاہواتھا انھوں نے دیکھا توبڑی محبت سے آوازدے کر مجھے بلایا اوراپنے پاس بٹھالیا اورہنس ہنس کردیر تک باتیں کرتے اور میری ایک تقریر کی تعریف کرتے رہے، جوچند روز پہلے ہی راشٹر پتی بھون کی ایک تقریب میں ہوئی تھی۔
غرض اُن کی کس کس خوبی کاذکر کیاجائے، اس میں شک نہیں کہ اُن کا سانحۂ وفات ایک عظیم قومی اورملی حادثہ ہے جس کے اثرات عرصہ تک محسوس ہوتے رہیں گے، لیکن وہ اپنے کردار وعمل اورحسن اخلاق وفضائل کی ایسی زندۂ جاوید یادگاریں چھوڑ گئے ہیں جن کوہندوستان کامورخ کبھی فراموش نہ کرسکے گااورآیندہ نسلیں شکر گزاری اورعزت واحترام کے ساتھ انھیں یادکریں گی۔
اﷲ تعالیٰ نے جس طرح انھیں حسنات دنیوی سے نوازا، دعا ہے کہ حسنات عقبیٰ و آخرت سے بھی اُن کو سرفرازفرمائے اور ان کے مدارج ومراتب بلند ہوں۔ آمین۔
اب بھی ہے تیرے تصور سے وہی رازو نیاز
اپنی بچھڑی ہوئی آغوشِ محبت کی قسم
[مارچ۱۹۷۷ء]

 

استدراک:
ذیل میں محترمہ حمیدہ سلطان کا وہ خط شائع کیاجاتاہے جوانھوں نے ماہ گزشتہ کے برہان کے نظرات سے متعلق لکھاہے،اڈیٹر سے واقعی یہ غلطی ہوئی کہ خاندانی امور کے متعلق اُ س نے تحقیق کیوں نہ کرلی اور محض اپنی سنی سنائی باتوں پر اعتماد کیا__ ایڈیٹر
علی منزل،کوچہ پنڈت،دہلی۶
۲۱؍مارچ۱۹۷۷ء

محترم بھائی سعید احمد صاحب!تسلیم
’برہان‘کے نظرات پرنظر پڑی تواس میں ہمارے خاندانی حالات نیز اورواقعات کے متعلق کافی غلطیاں نظرآئیں۔ان کی تصحیح کرناآپ کے لیے ضروری ہے تعجب ہے کہ آپ نے اس موضوع پرقلم اٹھانے سے پہلے مجھ سے رابطہ کیوں نہیں قائم کیا۔
۱۔اباجان کے نانادلّی کے تراہابیرم خاں کے رہنے والے تھے اوریہاں سے سفیرہوکر آسام کے راجہ کے یہاں گئے تھے۔اس لیے اباجان کودلّی سے شغف تھااورشادی بھی انھوں نے اس تعلق کی وجہ سے دلّی میں کی تھی۔
۲۔والدہ مرحومہ کے دادانواب زین العابدین خاں عارفؔ خلف نواب غلام حسین خاں مسرورؔ تھے۔
۳۔اباجان پہلے مسلمان آئی۔ایم۔ایس اورلیفٹنٹ کرنل تھے۔بھلا اتنی بڑی پوزیشن کاآدمی معمولی جیلر کیسے ہوسکتاتھا۔وہ اس زمانے میں بجنور کے سپرٹنڈنٹ جیل تھے اورسول سرجن تھے۔
۴۔ والدہ صاحبہ پردے کی پابند تھیں۔وہ بھلا قیدیوں کودیکھنے کہاں جیل میں جاسکتی تھیں۔واقعہ یہ ہے کہ میں کبھی کبھی اباجان کے ساتھ گاڑی میں لدجاتی تھی اور ہمارے گھر کے داروغہ امین الدین میرے ساتھ ہوتے تھے وہ آن کر والدہ صاحبہ کو سیاسی قیدیوں کے متعلق خبریں پہنچاتے اوروالدہ صاحبہ اس طرح شریف اورمذہبی لوگوں کاجیل میں سُن کر پریشان ہوجاتی تھیں اوراباجان سے اصرارکرتی تھیں کہ ان لوگوں کوکوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔مولانا حفظ الرحمن فرماتے تھے کہ آپ کی والدہ مرحومہ کی بدولت جیل میں رمضان آیا توکورے گھڑوں کاٹھنڈاپانی بھی ملا،افطار بھی ملتی تھی اور سحری پردودھ بھی۔یہ سب چیزیں اباجان اپنے پاس سے روپے دے کر کراتے تھے۔
۵۔آکابھائی دوبہنوں سے چھوٹے تھے۔۱۶،دریاگنج ۱۹۰۵ء،۱۳؍مئی کو پیدا ہوئے۔ تعلیم کے لیے کبھی کلکتے نہیں گئے،البتہ گونڈے (یوپی)میں انھوں نے مڈل کاامتحان پاس کیا کیونکہ اباجان اس زمانے میں وہاں سول سرجن تھے۔دلّی سے انھوں نے میٹرک کیا،چھ مہینے سینٹ سٹیفن کالج میں رہے اوراٹھارہ سال کی عمر میں کیمبرج چلے گئے۔وہاں انھوں نے بی۔اے کیا اور بارایٹ لاء ہوئے۔
۶۔انھوں نے پنجاب میں صرف کورٹ فیس داخل کی تھی۔پریکٹس کبھی نہیں کی۔البتہ کلکتے میں تین سال پریکٹس کی۔۱۹۳۲ء سے۱۹۳۴ء تک،پھر آسام میں پریکٹس کی اور وہیں سیاست میں کام کیا۔
راقمہ
حمیدہ سلطان
[اپریل۱۹۷۷ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...