Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا محمد سلیم
Authors

ARI Id

1676046603252_54338778

Access

Open/Free Access

Pages

160

مولانا محمد سلیم
سخت افسوس ہے کہ مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے ناظم اعلیٰ اورمہتمم مولانا محمد سلیم صاحب ایک ماہ کی معمولی علالت کے بعد۱۸/جولائی کوبروزشنبہ نمازفجر کے وقت نصف گھنٹہ پہلے رہ گزائے عالم جاودانی ہوگئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
مولانا کاآبائی وطن کیرانہ ضلع مظفر نگر تھا۔ آپ کے والد ماجد محمد سعید صاحب المتوفی ۱۳۵۷ھ مولانا رحمت اﷲ صاحب کیرانوی المتوفی ۱۳۰۸ھ صاحب ’’اظہار الحق‘‘کے بھتیجے محمد صدیق صاحب کے فرزند ارجمند تھے۔ مولانا رحمت اﷲ صاحب جب ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں شرکت کے بعد مکہ مکرمہ ہجرت کرگئے توآپ نے مولانا محمد سعید کوجن کی عمر صرف بارہ برس کی تھی، اپنے پاس مکہ مکرمہ بلالیا اوران کی تعلیم وتربیت کاخاص اہتمام کیا اوروہ بھی مستقلاً یہیں رہ پڑے، چنانچہ مولانا محمدسلیم صاحب کی پیدائش بھی مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ حضرت مولانا رحمت اﷲ نے کلکتہ کی ایک مخیرخاتون صولت النساء بیگم کی امداد واعانت سے مکہ کے محلہ خندریسہ میں زمین کا ایک پلاٹ خریدکرایک عمارت بنوائی اور ۱۲۹۰ھ میں انہی خاتون کے نام پر مدرسہ صولتیہ کے نام سے اس عمارت میں ایک مدرسہ جاری کیا تھا۔مولانا محمد سلیم صاحب نے اسی مدرسہ میں تعلیم پائی۔ فراغت کے بعد پندرہ بیس سال اسی مدرسہ میں درس دیا، ۱۳۴۶ھ میں اس کے نائب ناظم اور ۱۳۵۷ھ میں ناظم مقررہوئے جس پر وہ اخیرتک رہے۔
مولانا نے نصف صدی سے زیادہ کایہ مدرسہ کے اہتمام وانتظام کازمانہ جس عالی ہمتی،صبر واستقلال فہم وتدبر اورلیاقت وقابلیت سے گزاراہے، وہ اُن کی زندگی کاسب سے بڑا اور دوسروں کے لیے ایک بڑاسبق آموزکارنامہ ہے۔ چنانچہ اسی اثنا میں جب ملک کے سیاسی حالات بدلے تو آپ کوچند در چند دشواریوں اور مختلف قسم کی آزمائشوں سے سابقہ پیش آیا، لیکن آپ نے بڑی پامردی اور ہمت واستقلال سے ان کا مقابلہ کیا۔ انہی دنوں میں آپ عارضی طورپر حجاز مقدس کی سکونت ترک کرکے ہندوستان چلے آئے اورتقسیم سے قبل قرول باغ، دہلی میں کھجور روڈپر دفتربرہان سے متصل ایک کوٹھی کرایہ پر لے کر اس میں رہنا شروع کردیا۔ یہاں آپ نے مدرسہ صولتیہ کادفتر قائم کیااورایک ماہنامہ رسالہ ’’الحرم‘‘ کے نام سے جاری کیا۔ اس رسالہ کے ذریعہ آپ مدرسہ صولتیہ کی اہمیت وضرورت اوراُس کی خدمات وضروریات سے مسلمانوں کوواقف کرتے رہتے اورغیر منقسم ہندوستان کے اہل خیر سے چندہ وصول کرکے مدرسہ صولتیہ کی مالی ضرورتوں کوپوراکرتے رہتے تھے۔ تقسیم کے بعد دفتر برہان وہاں سے منتقل ہوا تومولانا بھی بدقت بسیار اپنا دفتر سمیٹ کر پاکستان چلے گئے۔ اس درمیان میں حجاز کے حالات بھی اعتدال پرآگئے تھے، اسی لیے مولانا پاکستان میں مختصر قیام کے بعد پھر مکہ مکرمہ واپس آگئے اورہمہ تن مدرسہ صولتیہ کی خدمت اور اس کوترقی دینے کی کوششوں میں لگ گئے۔ حالات کااقتضا تھا کہ مدرسہ صولتیہ کانصاب بھی بدلا جائے اوراس میں کچھ اور شعبوں کااضافہ کیاجائے۔ مولانا نے یہ کام نہایت حزم واحتیاط اوردوراندیشی سے انجام دیا چنانچہ مدرسہ کے لیے ایک ایسا نصاب مرتب کیا جسے اسلامی اورعرب ممالک کے علماء اور ماہرین تعلیم نے پسند کیا۔آج ایک سوبرس سے زیادہ یہ مدرسہ عالم اسلام کی اہم تعلیمی خدمات انجام دے رہاہے اوراس کے فارغ التحصیل طلبہ عرب و عجم میں ہرجگہ پھیلے ہوئے ہیں، پھر صرف یہ ایک مدرسہ نہیں بلکہ مولانا مرحوم کے حسن اخلاق اورجذبۂ خدمت خلق کے باعث ہندوستان اورپاکستان کے حاجیوں کے لیے ایک بڑا مرکزبھی تھا۔حاجی اپنی اپنی ضرورتوں کے لیے یہاں آتے اورمولانا بڑی خندہ پیشانی سے اُن ضرورتوں کے رفع اوراُن کی تکمیل کاانتظام کرتے تھے۔
مولانا مرحوم جید عالم وفاضل ہونے کے ساتھ عربی،فارسی اور اردو شعر و ادب کابھی بڑالطیف اورشگفتہ ذوق رکھتے تھے، ہزاروں اشعاربرنوک زبان تھے۔ نہایت بذلہ سنج، شگفتہ طبع، خندہ جبین اورزندہ دل انسان تھے۔ مزاج میں لطافت اورنفاست بلا کی تھی، حددرجہ خوش لباس تھے، غالباً ایک جوڑا روزبدلتے تھے، عطروپھلیل کے رسیا تھے۔ نہایت متواضع اورمہمان نواز تھے، کھانا بہت عمدہ کھاتے اوردوسروں کوپُرتکلف دعوتیں کھلاکرمسرت محسوس کرتے تھے۔ قرو ل باغ کے زمانۂ قیام میں مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب اورراقم الحروف سے مولانا کو خصوصی قلبی تعلق تھا۔اکثرشام کونمازعصر کے بعد مولانا کے ہاں ہماری نشست ہوتی تھی اوراس میں مولانا اپنی طلاقت لسانی اور بذلہ سنجی سے ہنستے ہنساتے ہی رہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ علماء اورمشائخ کے طبقہ میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مدظلہ العالی کے سوا مولانا مرحوم جیسا شگفتہ طبع اورخندہ جبین و متواضع آج تک میں نے کوئی اورنہیں دیکھا۔ جن بزرگوں کا خداکے ساتھ خاص معاملہ ہوتاہے وہ خدا کی مخلوق پرایسے ہی مہربان اورشفیق ہوتے ہیں اور آخر اس صفت خاص کا اصل منبع اورسرچشمہ توحضوراکرم رحمۃ للعالمین ﷺ ہی کی ذاتِ اقدس واکرم ہے۔
راقم الحروف کو ۱۹۶۷ء میں عمر میں دوسری مرتبہ حج وزیارت حرمین شریفین کی سعادت حاصل ہوئی تو مولانا محمد سلیم صاحب سے تقسیم کے بعد پہلی ملاقات کا بھی شرف حاصل ہوا۔اتنے عرصہ کے بعد بھی مولانا اسی دیرینہ محبت وشفقت سے پیش آئے جس کی لذت وحلاوت آج تک فراموش نہیں ہوسکی ہے، لیکن سخت افسوس ہے کہ چونکہ میں گورنمنٹ آف انڈیا کے حج ڈیلی گیشن میں تھااس لیے نہ مدینہ طیبہ میں اتنا طویل قیام کرسکا جتنا کہ میں چاہتا تھا اورنہ مکہ مکرمہ میں مولانا کے ساتھ حسب خواہش زیادہ وقت گزار سکا۔اس بناپر میں نے عہد کرلیا کہ اب آئندہ کبھی یہاں سرکاری ڈیلی گیشن میں نہیں آؤں گا اورخدا توفیق دے گا تو بال بچوں کے ساتھ خودیہاں حاضر ہوں گا اورکم ازکم تین چارمہینے قیام کروں گا لیکن یہ توفیق آج تک حاصل نہ ہوسکی۔ولعل یحدث بعدذالک امراً۔
مولانا مرحوم کے صاحبزادہ عزیزم مولوی محمد شمیم صاحب نے۲۶/جولائی کو مولانا کے حادثۂ وفات کی اطلاع کے لیے مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی کوخط لکھا ہے، اُس میں خاکسار راقم الحروف کے متعلق یہ جملہ ہے۔حضرت مولانا سعید اکبر آبادی کے متعلق مولانا فرمایا کرتے تھے کہ اگر صرف تین مہینے کے لیے مکہ معظمہ میرے پاس آجائیں تومیری ایک بہت بڑی تمنا اُن کے تعاون سے پوری ہوجائے گی،اس کی تفصیل آئندہ کبھی لکھوں گا۔ اس جملہ کو پڑھ کر مفتی صاحب بھونچکے رہ گئے اورمجھ پر بھی سکتہ کا عالم طاری ہوگیا۔ نجانے وہ تمنا کیا تھی، اگر مجھے اُس کاعلم ہوجاتا تومکہ مکرمہ دور ہی کتنا ہے میں حاضر ہوکرمولانا کی تمنا کو اپنے لیے سرمایۂ سعادت وشرف سمجھتا۔اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
مولانا کاحادثۂ وفات عالم اسلام کاحادثہ ہے۔
اللھم اغفرلہ وارحمہ رحمۃً واسعۃً شاملہ وکاملہ۔
[اگست۱۹۷۷ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...