Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > خان بہادر میجر محمد یٰسین خان ناغڑ

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

خان بہادر میجر محمد یٰسین خان ناغڑ
Authors

ARI Id

1676046603252_54338787

Access

Open/Free Access

Pages

163

خان بہادر میجر محمد یسیٰن خان صاحب ناغڑ
میجر محمد یسیٰن خاں صاحب مرحوم ندوۃ المصنفین کے قدیم ترین معاون تو تھے ہی ادارے کی خدمات کوبھی نہایت قدرومنزلت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ادارے سے مرحوم کی وابستگی ندوۃ المصنفین کے مخلص ترین محسن مرتضیٰ صاحب مرحوم کے واسطے سے ہوئی تھی دونوں میں قابل رشک مخلصانہ تعلقات تھے، سید صاحب ہی کے ذریعہ مرحوم کے کارکنان ادارہ سے روابط بڑھے اور پھر یہ روابط بڑھتے ہی چلے گئے، تھوڑی دیر کے لیے بھی دہلی تشریف لاتے تو ندوۃ المصنفین کے دفتر میں ضرورآتے۔ ممبری کی فیس اداکرنے میں بھی بے مثال تھے۔ ان کاشمار ادارے کے اُن چند گنے چنے معاونوں میں ہوتاتھا جووقت سے پہلے کسی یاددہانی کے بغیر شوق وذوق سے سالانہ فیس دیتے ہیں۔ ایک پوتے کی المناک شہادت کی خبر تواس مضمون میں ہے، کم وبیش دو سال قبل ان کا دوسرا جوان پوتا دنیا سے رخصت ہواتوبڑاہی دردناک خط آیا تھا، میں نے تعزیت نامے میں اپنے عزیز ترین ہونہار پوتے کی حسرت ناک وفات کاذکر کیا توان کو بڑی تسلی ہوئی تھی اور اُس تاثر کااظہار انھوں نے ایک طویل مکتوب میں کیا تھا۔ پچھلے دنوں حباب آفرید صاحب کامکتوب آیاجس میں زیر نظرمضمون کاتذکرہ کیاتھا، یہ میجر صاحب مرحوم کوندوۃ المصنفین اورہم لوگوں سے جوغیر معمولی تعلق تھااس کے پیش نظر میں نے حباب صاحب کومضمون بھیجنے کے لیے لکھ دیا، مضمون ہراعتبار سے سبق آموز ہے اور اسی لیے برہان میں شریک اشاعت کیا جا رہا ہے۔ (ع)
جئیے پہاڑی سے یوسف بھائی کے الم نامہ نے غمزدہ دل کوہمیشہ کے لیے سوگوار کردیا کہ’’آپ کویہ دردناک خبر پڑھ کربے حد افسوس ورنج ہوگا کہ والد بزرگوار میجر محمد یسیٰن خاں کچھ دنوں کی علالت کے بعد اس عالم فانی سے مورخہ ۱۴/ اگست ۱۹۷۸ء/۹رمضان بروز پیر رات کے۴۳:۸پرہم سب کو چھوڑ کرعالم جادوانی کوکوچ کرگئے۔مرحوم نے آپ کوخط لکھنے کی غرض سے لفافے پرپتالکھ کررکھا تھالیکن علالت کی وجہ سے نہ لکھ سکے۔‘‘
صورتِ ازبے صورتی آمد بُروں
بعد شد انا الیہ راجعون
چہل سالہ مراسم وتعلقات، وہ شفقتیں، عنایتیں وہ مہربانیاں اورنوازش نامے کیا کیایاد آتارہے گا!میرے بڑے لڑکے سلیم فریدی کی پچھلے برس جواں مرگی پر دلاسے اورتسلیوں کوکیسے فراموش کرسکوں گا۔۱۹۳۷ء کے دوران سفر یورپ کی لگاتار خط کتابت کوکیونکر بھلا سکوں گا۔
گلہ فلک سے ہمیں کس قدر ہے کیاکہییے
وہ چھریرا بدن،گندمی رنگ،کشادہ سینہ،روشن جبیں،گھنے ابرو،منور بڑی بڑی آنکھیں، گھٹاہوابدن،خط مستقیم قامت مردانہ۔ آہ اب یہ چہرہ بھی دل کی گہرائیوں میں ڈوب کررہ گیا۔
خان بہادر کاذکرہمارے گھر کے نصاب میں شریک تھا۔بہ یک نظرکوئی کیسے سمجھ سکتا تھا کہ یہی وہ ہند کی عظیم شخصیت ہے جس پر ریگ زار راجپوتانہ کوناز اور قبیلۂ ناغڑی کوفخر ہے، جس کے سینے میں سرسید کا دل اوردل میں حالیؔ کادرد موجود ہے، جس کی روح سرمدؔ واقبالؔ کے نغموں سے سرشار ہے، جس کے اخلاق سعدی کی حکیمانہ نصیحتوں سے مزین ہیں اورجس کااعلیٰ دماغ حافظ کے آب رکن آباد سے سیراب ہے۔
عہد طفلی کاوہ زمانہ نظروں میں پھررہا ہے جبکہ خان بہادر سے والد مرحوم (حکیم سبط احمد فریدی)کے ابتدائی تعلقات پیداہوئے اوررفتہ رفتہ عدیم المثال بے غرض دوستی میں تبدیل ہوگئے اور خان چچا کی دیر آشنائی نے اپنے منتخب احباب کے رشتہ میں فریدیت کوبالآخر پرولیا۔ میری بڑی بھتیجی سعید فاطمہ کووہ توتلی پوتی سے مخاطب فرماتے اور یہ اپنے لڑکپن میں میجر دادا پکاراکرتی تھی۔
چودہ برسوں تک شہزادہ برار کے محل بلاوسٹہ تین روزانہ ملاقاتیں،حکیمانہ باتیں،ظریفانہ حکایتیں اورسپاہیانہ جرأتوں کی طویل داستان جوورق درورق یاد ہے ایسی نہیں ہے جسے چند سطروں میں بیان کیاجاسکے۔ رحمہ اﷲ رحمۃً واسعۃً۔
حادثات زمانہ نے۱۵/اگست۱۹۴۷ء کے بعد انتہائی صبرآزما منزلوں سے انہیں ہمکنار کیا۔دلّی کے مکان میں نایاب کتب خانہ تھا، قادرخاں کی نگرانی پوتا زیر تعلیم تھا اطلاع آئی کہ یسٰین پکارنے والی ماں کاسایہ سرسے اٹھ گیا۔دلّی سے جئے پہاڑی پہنچے اورتربت مادرپر فاتحہ پڑھ کر دل کوسکون پہنچایا۔دلّی سے لوٹناچاہتے تھے کہ کتابوں کوگھر لے جائیں، لاری کے لیے باہرنکلے واپس آ کر کیا دیکھتے ہیں کہ نہ کتابیں اورنہ جیتی جاگتی جانیں۔آگ اور دولاشیں پہلی قادرخاں کی اوردوسری پوتے کی۔قادرخاں نے آخری سانس تک سردار زادے کوبچایا، انجام کار دونوں ختم ہوگئے۔ قضاوقدر کے اس لرزا دینے والے فیصلے نے تسلیم و رضا کے پیکرخان بہادر کے ضبط واستقلال کو ذرہ برابر جنبش نہ دی اور ہرچہ از دوست میرسدنیکو ست کہتے ہوئے گھرلوٹ آئے۔
عظیم مصائب میں ثابت قدم رہنا،قول کاسچا اوروعدے کاپکا ہونا،راستی و امتیا زی کی خاطرخندہ پیشانی کے ساتھ صعوبتوں کوبرداشت کرنا،حق وصداقت کی راہ میں مالی نقصانات سہہ لینا،غورکیجیے عملی حیثیت سے کس قدر دشوار ہے!اس میں کسی مبالغہ کی گنجائش نہیں کہ خان بہادر کی شخصیت میں تمام اوصاف حمیدہ اور فضائل برگزیدہ قدرت نے کچھ اس توازن سے جمع کئے تھے جنھیں دیکھ کر پہلی ہجری کے مسلمان کی جیتی جاگتی تصویر آنکھوں میں پھرجایاکرتی تھی۔ان کے عزائم پہاڑ سے زیادہ استوار،اُن کے ارادے چٹانوں سے بڑھ کر مضبوط اوران کے خیالات سمندر کی گہرائیوں سے فزوں ترتھے۔
آن کی خاطر جان کی پرواہ نہ کرنے والے،زبان کی پاسداری کے لیے خطرات مول لینے والے اوروعدہ خلاف حاکموں کے مناصب سے آن واحد میں معافی چاہ لینے والے خان بہادر نے رندانہ محفلوں میں شب بیداری کی اوراپنا دامن بچائے رکھا، بدمستوں سے جوبات کی ہوشیاری سے کی،بے خودوں کو جب سبق دیا خودی کادیا، گمرہوں کوراہ دکھلائی توسچی اورسیدھی، مختصر یہ کہ ماحول میں ڈھل کرزمانہ سازکہلانے کے بدلے ہمیشہ اورہرجگہ ماحول کواپنے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی اورزمانہ باتونہ سازدتوباززمانہ ستیزکے مردانہ اصولوں پر ناقابل شکست عزائم کے ساتھ آخری دم تک قائم رہے۔
خان بہادر کی سپاہیانہ زندگی پہلی جنگ عظیم کے میدان سے شروع ہوئی۔ شہسواری، نیزہ بازی اورچوگان بازی نے بین الاقوامی شہرت کامالک بنایا۔ درباری سلیقہ مندیوں نے کبھی مرزبان دستیاسے وابستہ رکھا، کبھی ایوان جئے پور سے، کبھی کشمیر کی وادیوں میں راجہ کوہندومسلم اتحاد کے اٹل مشورے دئیے اورکبھی نواب بھوپال کے ہاں بے لوث کارنامے انجام دئیے۔
بالآخر ہزہائینس پرنس آف برار کی نظر انتخاب مرحوم پرپڑی اورنواب خسرو جنگ کی معرفت حیدرآباد بلوائے گئے۔یہاں مرحوم ہزہائینس کے اے ڈی سی رہے۔ہزہائینس کے کنڑولر رہے، پرنس باڈی گارڈ کی کمانڈنگ افسری کی اور رجمنٹ کوریگولر آرمی کاہم پلہ بنادیا۔شکار کے موقع پر شیر کے مقابل آکر ٹیپو اور شیر افگن کی جرأت پارینہ کوزندہ کردکھایا، اسی مرحلہ کے بعد بایاں پاؤں بالکل سیدھا ہوگیاتھا، اس کے باوجود معمولات زندگی شہہ سواری وچوگان بازی اسی پھرتی سے انجام دیتے رہے۔مجھے مرحوم کے لیٹرپیڈ کایہ شعر کبھی نہ بھولے گا:
آسائش دو گیتی تفسیر ایں دو حرف است
بادوستان تلطف بادشمنان مدارا
خداان کی آخری آرام گاہ کواپنے نور کے پھولوں سے ہمیشہ معمور رکھے۔
[حباب آفرید (حبیب احمد فریدی)،اکتوبر۱۹۷۸ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...