Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا فضل اﷲ الگیلانی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338792

Access

Open/Free Access

Pages

166

سید فضل اﷲ الگیلانی
افسوس ہے ہماری بزم علم وفضل کی ایک اورشمع روشن بجھ گئی، یعنی ۲۳/مئی کو مولانا سید فضل اﷲ الگیلانی نے۷۸ برس کی عمر میں علی گڑھ میں وفات پائی اور یونیورسٹی کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔اناﷲ واناالیہ راجعون۔حضرت مولانا محمد علی مونگیری جن کاسلسلۂ نسب باپ کی طرف سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی تک پہنچتا ہے مولانا کے دادا تھے۔ والد یعنی مولوی احمد علی کاانتقال جوانی میں ہوگیا جب کہ مولانا صرف سات برس کے تھے، اس لیے دادا نے آپ کو تربیت میں لے لیا اورمونگیر میں رہ کرآپ نے علوم دینیہ واسلامیہ کی تکمیل کی۔ بعض کتابوں کا درس مفتی عبداللطیف سے بھی لیا جوبعد میں آپ کے خسر بھی ہوگئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کے شعبۂ دینیات میں لیکچرر ہوئے۔ ۱۹۵۶ء میں،۱۹۵۷ء میں ریڈر اورصدر شعبہ کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔اس کے بعد آپ نے کاروبار شروع کردیا اور ملازمت کبھی نہیں کی۔
مولانا علم وفضل کے اعتبار سے سلف صالحین کانمونہ تھے استعداد نہایت پختہ، مطالعہ بے حد وسیع اورنظر دقیق تھی۔ان کوسب علوم سے یکساں مناسبت تھی، مطالعہ اور درس کے دھنی تھے، لکھتے کم تھے مگر جب کبھی لکھا بہت خوب لکھا، چنانچہ امام بخاری کی کتاب’’ ادب المفرد‘‘ کی جوشرح دوجلدوں میں مرحوم نے لکھی اورمدینہ سے شائع ہوئی ہے۔تحقیق اوردقت نظر کاشاہکار ہے۔ اس کے علاوہ چند چھوٹے بڑے رسالے جو بعض جزئی مسائل پرلکھے گئے ان میں بھی تحقیق کی یہی شان ہے۔ عملاً نہایت عابدوزاہد اورصاحب اورادوظائف، جماعت سے نمازادا کرنے کااہتمام سخت معذوری کی حالت میں بھی کرتے تھے۔ اخلاق وعادات کے اعتبار سے بڑے متواضع،خوش مزاج،باوضع اورقلندر منش انسان تھے۔ضرورت مندوں کی مدد کرنے میں انہیں خوشی محسوس ہوتی تھی۔ برسوں سے دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے ممبر تھے اُس کے جلسوں میں پابندی سے شریک ہوتے اورکاروائی میں توجہ سے حصہ لیتے تھے۔ پندرہ سولہ برس سے حیدرآباد کی سکونت ترک کرکے مستقلاً علی گڑھ میں مقیم ہوگئے تھے جہاں ان کی دوصاحبزادیاں یونیورسٹی زنانہ کالج کے شعبۂ دینیات میں علی الترتیب ریڈر اور لیکچرر ہیں اوراپنے خاندانی روایات کوبوجوہ احسن قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء۔یہاں ان کی زندگی مکمل گوشہ نشینی کی تھی۔مطالعہ اوردرس ان کامحبوب مشغلہ تھا۔اس کے علاوہ کسی اورچیز سے کوئی سروکار نہ تھا۔برہان کے بڑے قدردان تھے، شروع سے اس کے خریدار تھے اور بڑے شوق سے اس کا مطالعہ پابندی سے کرتے تھے۔ ان کی وفات علم و ادب، زہد و ورع اورحسن عمل اور اخلاق کی دنیا کاعظیم حادثہ ہے۔رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ۔ [جون۱۹۷۹ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...