Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا اسعد اﷲ
Authors

ARI Id

1676046603252_54338794

Access

Open/Free Access

Pages

168

مولانا اسعداﷲ
اس حادثہ کے چند روز بعدہی مدرسۂ مظاہر العلوم سہارنپور کے ناظم مولانا اسعد اﷲ صاحب کے انتقال پُرملال کا واقعہ پیش آیا۔ میرا دیوبند میں طالب علمی کازمانہ تھا کہ مولانا کی شہرت کے چہرہ کاسبزہ آغاز تھا۔طلبا میں جہاں ان کے علمی اورتدریسی کمالات کاچرچا تھا وہ خاص طورپر اس کابھی تذکرہ کرتے کہ آزاد منش اس درجہ کے ہیں کہ کوٹ پتلون پہنتے ہیں اوراسی لباس میں درس دیتے ہیں۔ مجھ کوبھی ان کے دیکھنے کااشتیاق پیداہو ا، اتفاق سے انہی دنوں ایک دن وہ دیوبند آئے تواس شان سے کہ ہاتھ میں بندوق تھی، شکاری لباس یعنی کوٹ اور برجس زیب تن اورکارتوسوں کی ایک پیٹی حمائل۔ مفتی صاحب(مولانا عتیق الرحمن عثمانی) سے ہم سنی اورصاحبزادگی کے باعث خاص تعلق رکھتے تھے، ان سے بے تکلف ہوکربات چیت کی اورچلے گئے۔ اس کے بعد، مدرسۂ مظاہرالعلوم سہارنپور کاسالانہ جلسہ بہت شاندار ہوتا تھا، دیوبند اورسہارنپور کے اکابر اس میں جمع ہوتے اوران کے مواعظ ہوتے تھے، اس لیے میں اکثر ان جلسوں میں شریک ہوتا۔اس موقع پر اوریوں بھی جب کبھی سہارنپور جانا ہوتا مولاناسے ضرور ملتا۔ان سے مل کر بڑی خوشی ہوتی تھی، وہ عجیب وغریب جامع صفات انسان تھے، نہایت ذہین و طباع، اعلیٰ درجہ کے نغمہ گو شاعر، پرجوش خطیب، بلندپایہ مناظر، شروع میں منطق، فلسفہ اور عربی شعروادب ان کے خاص مضامین تھے، لیکن حضرت مولانا تھانوی سے بیعت کے بعد ان کی حالت یکسر منقلب ہوگئی تھی۔اب تفسیر وحدیث کے ساتھ اشتعال بڑھ گیا تھا اور اوراد و وظائف کے پابند ہوگئے تھے۔شوخی اور طراری کی جگہ سنجیدگی اور متانت نے لے لی تھی، پہلے شکار کے بڑے شوقین تھے اب ایک پیرجنید نظیر کی نظیر کیمیا اثر کے خوداسیر ہوگئے تھے۔ سہارنپور میں مولانا اسعداﷲ اوردیوبند میں مولانا بدرعالم ان دونوں کے حالات کم وبیش یکساں تھے۔تصنیف و تالیف سے کوئی دلچسپی نہ تھی ، اس لیے غالباً کوئی وقیع اور قابلِ ذکر علمی یادگار نہیں چھوڑی۔
چند برس ہوئے حضرت شیخ الحدیث مدظلہ العالی کی خدمت میں سہارنپور حاضر ہوا تو مدرسہ سہارنپور مظاہر العلوم کے ایک کمرہ میں مولاناسے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا۔ مولانا اس وقت نہایت کمزور ہوگئے تھے، نقل و حرکت میں بھی دشواری ہوتی تھی، تاہم بڑے تپاک سے ملے اور شفقت سے پیش آئے، اور مدینہ طیبہ کی کھجوروں سے تواضع کی۔ جب رخصت ہونے لگا توایک اعلیٰ قسم کے عطر کی شیشی تحفہ میں عطا فرمائی۔ عمر غالباً اسّی کے لگ بھگ ہوگی۔ اب ایسے بزرگ کہاں ملیں گے جنھیں دیکھ کر سلف صالحین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ رحمہ اﷲ رحمۃ و واسعۃ۔
[جولائی۱۹۷۹ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...