Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338797

Access

Open/Free Access

Pages

169

آہ!مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
موت وحیات قانون فطرت ہے، جو اس دنیا میں آیاہے اسے ایک دم جانا ضرور ہے، لیکن بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب وہ اس جہان آب وگل سے رخصت ہوکرعالم آخرت کی طرف پرواز کرتی ہیں توایسا محسوس ہوتاہے کہ قلب و دماغ کی دنیا میں ایک زلزلہ ساآگیاہے اورخرمن ہوش وحواس پربجلی گرپڑتی ہے، اس زلزلہ اورصاعقہ فگنی کااحساس مقید اور محدود نہیں ہوتا بلکہ عالمگیر ہوتاہے اور اس کی شدت اورکرب مشرق ومغرب اورشمال وجنوب میں یکساں محسوس ہوتا ہے، یہی وہ شخصیتیں ہوتی ہیں جن کی وفات پرنطق ربانی کے لفظوں میں زمین وآسمان روتے ہیں اوران کی موت عربی کے اس شعر کامصداق ہوتی ہے:
وماکان قیس ھلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم تھدما
اس میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی وفات ایسی ہی ایک شخصیت کی وفات ہے۔
اب سے ساٹھ اکسٹھ برس پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ جس سبزہ آغاز نوجوان نے اپنے والد ماجد کی ناگہانی وفات کے باعث معاشی ضرورت سے مجبور ہوکر اور اپنی تعلیم کوادھورا چھوڑ کر تاج(جبل پور)اورمسلم والجمعیت(دہلی)کی ایڈیٹری کو قبول کیا تھا، وہ ایک روزعالم اسلام کے افق پر آفتاب بن کرچمکنے اور ملت بیضا کی ایک نامور و عظیم تر شخصیت بننے والاہے لیکن موخرٔ الذکر اخبار کی ایڈیٹری (از۱۹۲۵ء تا۱۹۲۸ء)کے زمانہ میں ہی بعض مضامین اور خصوصاً ’’الجہاد فی الاسلام‘‘جواس نوجوان ایڈیٹر کے قلم سے نکلے وہ زبان و بیان اورحقائق و مطالب کے اعتبار سے اس درجہ موثر اورجاذب توجہ تھے کہ غیر منقسم ہندوستان کے ارباب فکر ونظر کی زبان بیساختہ نواسنج تحسین وآفریں ہوگئی اور دوراندیش نگاہوں نے تاڑ لیا کہ جرنلزم کے آسمان پرجو آج ہلال نوبن کر نمودار ہواہے وہ کل علم وتحقیق کے افق پرماہ کامل کی صورت میں جلوہ گر ہوگا۔
جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا مرحوم باقاعدہ تعلیم کی تکمیل نہیں کرسکے تھے، لیکن تعلیم جو کچھ بھی حاصل کی تھی وہ عربی اورانگریزی میں مطالعہ کے لیے کافی تھی، پھرخود طبعاً تھے بڑے ذہین اورطباع اورمطالعہ کے دھنی اوررسیا، علاوہ ازیں الجمعیت کی ادارت کے زمانہ میں ان کومفتی محمد کفایت اﷲ، مولانا عبدالسلام نیازی، مولانا محمد اشفاق کاندھلوی اوردوسرے علماء واساتذہ دہلی کے ساتھ معیت و صحبت اوراُن سے استفادہ کاموقع ملا۔ان سب چیزوں نے مل کر ان کے علم کو پختہ، استعداد بحث وتحقیق کواستوار اورنظر کووسیع کردیا۔طبیعت غووفکر کی خوگر تھی۔ عنفوان شباب کازمانۂ صحافت میں بسرہواتھا۔اس بناپر تحریر وانشا کااعلیٰ سلیقہ پیدا ہوچکا تھا اوراب وہ اس قابل تھے کہ قدرت نے انہیں جس اہم کام کے لیے پیدا کیا تھا اس کاآغاز کریں، اور یہ کام تھا احیائے واقامت دین کا۔
چنانچہ الجمیعتہ کی ادارت سے سبکدوش ہوکر حیددآباد منتقل ہوگئے وہاں سے ۱۹۳۳ء میں ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ جاری کیا جو عمر بھر ان کے افکار وخیالات کا ترجمان بنارہا۔اسی رسالہ میں اسلامی نظام کوجسے شروع میں انھوں نے حکومت الٰہیہ کانام دیا تھا نصب العین بنا کراسلام کی حقیقت، عقائد و اعمال،احکام و مسائل، معاملات حاضرہ اوراسلام پریورپ کے اعتراضات پر پیہم ومسلسل اس عزم وجزم اورزور و قوت سے لکھنا شروع کیا کہ تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں میں ایک ہلچل پیداہوگئی اورمولانا کے عقیدت مندوں کا حلقہ روزبروز وسیع ہونے لگا۔ تقسیم سے چند برس قبل آپ نے پٹھان کوٹ (پنجاب)میں جماعت کی بنیاد رکھی۔ حصول آزادی کے بعد مع اپنی جماعت کے لاہور منتقل ہوگئے۔ابھی حال میں لندن سے ایک ضخیم انگریزی کتاب’’نذرسید ابوالاعلیٰ مودودی‘‘کے نام سے شائع ہوئی ہے۔اس کے مطالعہ سے معلوم ہواکہ مولانا کی چھوٹی بڑی تصنیفات کی تعداد ایک سوچالیس اورخطبات وتقریروں کی تعداد ایک ہزار ہے۔مولانا نے جو کچھ لکھا صرف اردو میں لکھا۔لیکن اس کاترجمہ عربی اورانگریزی میں خصوصاً اور دوسری ملکی و غیر ملکی زبانوں میں عموماً برابر بڑی باقاعدہ کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ اس کا اثریہ ہواکہ مولانا کی شہرت اوران کے افکار وخیالات کی گونج عالم اسلام کے گوشہ گوشہ میں پہنچی اورجماعت اسلامی کی شاخیں جگہ جگہ قائم ہوئیں جو اعلیٰ تنظیم اور ضبط و نظم کے ساتھ مولانا مودودی کے مشن کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف ومنہمک ہیں۔
اختلاف کب اورکس سے نہیں ہوا، لیکن اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ مولانا سید ابوالاعلی مودودی ایک بلند پایہ مفکر ومبصر اسلام،ایک مصنف ومحقق اور ایک بانی جماعت اسلامی کی حیثیت سے عہد حاضر میں عالم اسلام کی عظیم ونامور شخصیت تھے۔انھوں نے اپنے قلم سے ایک اہم فکری اورذہنی انقلاب برپا اور تعلیم یافتہ مسلمانوں میں مغربی علوم وفنون اورتہذیب وتمدن سے جو مرعوبیت تھی اسے دور کرکے ان میں انفرادیت کااحساس،خوداعتمادی اور اعلاء کلمۃ اﷲ کاجذبۂ و جوش پیداکیاہے، اخلاق وعادات اورذاتی خصائل وشمائل کے اعتبار سے بھی بڑی خوبیوں کے انسان تھے۔
ایک زمانہ تھا کہ تقسیم اور جماعت اسلامی کی تاسیس سے بہت پہلے دلّی میں اُن سے ملاقات اوربے تکلف گفتگو ہوتی تھی۔اس کے بعدحجاز اورپاکستان میں بھی متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ان ملاقاتوں میں مولانا ہمیشہ جس محبت اور شرافت ِاخلاق سے پیش آئے اس کی خوشگواریادیں آج بھی حافظہ کے خزانہ میں محفوظ اورمشام جان کومعطر کررہی ہیں۔اﷲ تعالیٰ فردوس بریں میں ان کو مقام جلیل عطافرمائے۔آمین ثم آمین [اکتوبر۱۹۷۹ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...