Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا احتشام الحق تھانوی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا احتشام الحق تھانوی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338800

Access

Open/Free Access

Pages

171

مولانا احتشام الحق تھانوی
افسوس ہے کہ پاکستان کے نامور عالم اورشیریں بیاں خطیب ومقرر مولانا احتشام الحق تھانوی اجلاس صد سالہ کے تین دن بعد دیوبند پہنچے اوروہاں سے مدراس گئے۔جہاں وہ اس سے پہلے بھی کئی بار آچکے تھے وہاں سے بمبئی کاارادہ تھا کہ وانمباڑی میں اچانک دل کادورہ پڑااورجاں بحق ہوگئے۔اناﷲ واناالیہ راجعون۔ جنازہ کراچی پہنچایاگیا اوروہیں تدفین ہوئی مرحوم کااصل وطن تھانہ بھون تھا۔ایک دور کے رشتہ سے حضرت مولانا تھانوی کے بھانجے بھی تھے۔ والد اٹاوہ میں ملازم تھے مرحوم کی پیدائش۱۹۱۵ء میں وہیں ہوئی، تعلیم دارالعلوم دیوبند میں پائی۔یہاں سے فراغت کے بعد اپنے برادر بزرگ مولوی عزیز الحق صاحب جوگورنمنٹ آف انڈیا کے کسی محکمہ میں افسر اعلیٰ تھے اورنئی دہلی میں خواجہ میردرد روڈ پررہتے تھے ان کے پاس چلے آئے اوراسی علاقہ کی ایک مسجد میں خطیب مقررہوگئے۔روزانہ فجر کی نماز کے بعدقرآن مجید کادرس دیتے اورجمعہ کے دن وعظ کہتے تھے۔ آدمی تھے خوش الحان اورشریں بیان ،اس لیے مقبولیت بڑھنے لگی۔ملازمت کے ساتھ انہوں نے مدرسہ عالیہ مسجد فتح پوری کی مولوی فاضل کلاس میں داخلہ لے لیا۔میں اس کلاس کاسینئر استاذ تھا اس بناپرمرحوم میرے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہوگئے، کلاس میں پابندی سے آتے اور درس ہمہ تن متوجہ ہوکرسنتے اورکبھی کبھی سوال بھی کر تے تھے۔مولوی عزیز الحق صاحب سے تعلق پہلے سے تھا ہی، اب مرحوم سے بھی قریبی تعلق پیدا ہوگیا۔ان کی مسجد میں سیرت مقدسہ کایاکوئی اورجلسہ ہوتاتوتقریر کے لیے مجھے بالالتزام بلاتے تھے۔
تقسیم کے وقت اپنے خاندان کے ساتھ ترک وطن کرکے کراچی میں جا بسے۔یہاں بہت کچھ چمکے اوربڑانام پیداکیا۔ریڈیو پرایک عرصہ تک روزانہ قرآن مجید کادرس دیتے رہے، قرآن مجید اورمثنوی مولانا روم بڑی خوش الحانی سے پڑھتے اوراس لیے عوام وخواص میں بڑے مقبول تھے۔ بیرونی ممالک جہاں اردو بولی اورسمجھی جاتی ہے وہاں بھی بلائے جاتے تھے اورلوگ ان کے وعظ میں بڑے شوق اوردلچسپی سے شریک ہوتے تھے۔تصنیف وتالیف سے کوئی دلچسپی نہ تھی اس لیے کوئی علمی یادگار نہ چھوڑی۔ بعض وجوہ سے پاکستان کے لوگوں اور خصوصاً دیوبندی مسلک کے علماء میں مرحوم کی شخصیت ہمیشہ مختلف فیہ رہی۔ بہر حال شگفتہ طبع اور خوش مزاج عالم تھے تقریر کی طرح گفتگو بھی بڑی دلچسپ اور پُرلطف ہوتی تھی۔مجھ سے جو ربط خاص اورتعلق خاطر شروع میں تھا وہ اخیر تک قائم رہا۔۱۹۶۹ء میں پہلی مرتبہ میں کراچی گیا تومولانا بڑی محبت اور تپاک سے ملے اورایک نہایت شاندار اورپُرتکلف استقبالیہ دیا، جس کاانتظام ایک انگریزی ہوٹل نے کیا، اورکم وبیش ڈھائی سوافراد جن میں علماء، تاجر،صنعت کار،سیاسی لیڈر، سرکاری افسر اوروکلاء وڈاکٹر غرض کہ ہرطبقہ اورہر گروہ کے حضرات شامل تھے، اس استقبالیہ میں موجود تھے اس موقع پر مولانانے جو تقریر کی تھی اس میں کہا تھا: کراچی والے جانتے ہیں کہ یہاں بڑے سے بڑے لوگ آتے ہیں مگر میں نے کسی کواستقبالیہ نہیں دیا، آج یہ پہلا استقبالیہ ایک ایسے شخص کودے رہا ہوں جس کے سامنے میں نے زانوئے تلمذ تہہ کیاہے اورجو چنیں وچناں بھی ہے۔ مولانا نے جس محبت اورخلوص سے یہ الفاظ فرمائے تھے کام ودہن اس کی حلاوت سے آج تک آشنا ہیں۔اللھم اغفرلہ وارحمہ۔
[مئی۱۹۸۰ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...