Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولاناسید فخرا لحسن الحسنی العمری

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولاناسید فخرا لحسن الحسنی العمری
Authors

ARI Id

1676046603252_54338802

Access

Open/Free Access

Pages

172

مولانا سید فخر الحسن الحسنی العمری
بڑے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ گذشتہ مہینے ہمارے نہایت فاضل دوست اور دارالعلوم دیوبند کے سابق صدر المدرسین مولانا سید فخر الحسن صاحب الحسنی العمری کم وبیش دوبرس کی شدید اور مسلسل علالت کے بعد راہی ملک بقا ہوگئے اورایوان علم وفضل میں اپنی جگہ خالی چھوڑ کرگئے۔ اناﷲ واناالیہ راجعون۔
مرحوم عمری ضلع مرادآباد کے سادات حسنی میں سے تھے۔ابتدائی تعلیم گھر پر پائی پھر دیوبند چلے آئے، یہاں سات آٹھ برس رہ کر نصاب میں جو علوم و فنون شامل ہیں ازاوّل تا آخر تمام علوم وفنون کی تمام کتابوں کادرس لیا۔ان میں دونوں باتیں تھیں، محنتی بھی اور ذہین وطباع بھی، اس لیے استعداد کے اعتبار سے طلباء میں ممتاز اوراساتذہ کے مقرب ومحبوب تھے۔ دارالعلوم کی روایات کے مطابق ہم جماعت طلباء کی ایک بڑی تعداد کوتکرار کراتے تھے۔ دورۂ حدیث حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کی خدمت میں دارالعلوم کے ساتھ حضرت کے تعلق کے پہلے برس ہی کیا۔ یہاں سے فارغ ہوکر مدرسۂ عالیہ مسجد فتح پوری دہلی میں مدرس ہوکرچلے گئے۔ راقم الحروف کامدرسۂ عالیہ سے جب تعلق ہواہے (۱۹۳۱ء) تویہ چند برس پہلے سے وہاں مدرس تھے، مدرسہ میں وہ حدیث و تفسیر، منطق وفلسفہ اورادب کی متوسط اوراونچی کتابوں کادرس دیتے تھے۔ پختہ اورٹھوس استعداد کے ساتھ تقریر اور افہام وتفہیم کا ملکہ خداداد تھا، خندہ جبینی اورشگفتہ مزاجی طبیعت اورفطرت تھی، طلباء کے ساتھ حسن واخلاق سے پیش آتے اوران کی ہرقسم کی مدد کرنے کے لیے ہروقت آمادہ رہتے تھے، نتیجہ یہ ہواکہ چند برسوں میں ہی ان کی شہرت کاطوطی مدارس عربیہ کے بام و در پر بولنے لگا اورعوام وخواص ان کانام عزت سے لینے لگے۔
دارالعلوم دیوبند کے اکابر اساتذہ کوجومعاملہ پیش آیا ہے وہ مرحوم کوبھی پیش آیا۔یعنی جب کسی مدرسہ میں شہرت ونیک نامی کے ساتھ درس دیتے کئی برس گزرگئے تومرکز نے اپنی طرف کھنیچ بلایا، چنانچہ دس بارہ برس کے بعد یہ بھی فتح پوری سے دیوبند منتقل ہوگئے۔ یہاں جوہر قابل نے وہ چمک دمک دکھائی کہ جلد ہی طبقۂ علیاکے ممتاز اساتذہ میں شمار ہونے لگے، ناظم تعلیمات بھی رہے اور آخرمیں صدرالمدرسین ہوگئے جوایک استاذ کے لیے انتہائی نقطۂ عروج ہے، اس حیثیت سے مجلس شوری کے ایک رکن بھی تھے۔ چند برس ہوئے مرحوم کے فرزند رشید مولوی بہاء الحسن مدرس دارالعلوم دیوبند کا جوتنومند جوان تھے، اچانک قلب کی حرکت کے بندہوجانے کے سبب سفر کے عالم میں انتقال ہوگیا تھا اورمیت دیوبند لائی گئی تھی۔ مولوی صاحب پر اس حادثہ کااثر اس قدر شدید ہواکہ ہوش و حواس کھو بیٹھے، طاقت نے جواب دے دیا، اعضائے رئیسہ نے اپناکام چھوڑ دیا اور آخرکم وبیش تین برس تک قفس جبر وقدر میں پھڑپھڑانے کے بعد روح عالم بالا کی طرف پرواز کرگئی۔
دیوبند منتقل ہونے کے بعد تصوف کی طرف میلان زیادہ ہوگیا تھا۔ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری ؒ سے بیعت ہوئے اورغالباً خلیفۂ مجاز بھی ہوئے۔ تصنیف وتالیف سے دلچسپی نہ تھی،وعظ وارشاد کامشغلہ رکھتے تھے۔ ان کے سرچشمۂ علم وفضل سے ہزاروں طلباء فیض یاب ہوئے جوبرصغیر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی وفات ایک عظیم ملی حادثہ ہے عمر۷۷ کے لگ بھگ ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ ان کی قبر کو ٹھنڈی رکھے اور رحمت وبخشش کی نعمت بے کراں سے نوازے۔ آمین!
[اکتوبر۱۹۸۰ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...