1676046603252_54338803
Open/Free Access
173
علامہ جمیل مظہری
علامہ جمیل مظہری اردو کے بلند پایہ شاعر،ادیب اورنقاد تھے، انہوں نے مشرقی ومغربی فلسفہ،ادبیات ومذہبیات اورانسانی فکر و نظر کی تاریخ اورطلسم کدۂ کائنات وحیات کامطالعہ اس عمیق و دقت نظر سے کیا تھا کہ ان پر عالم حیرت طاری ہوگیا اوراس میں تشکیک کارنگ پیدا ہوگیا تھا۔ اس تشکیک نے رمزیت، تفلسف اوراظہار کی ندرت وبرجستگی کے ساتھ آمیز ہوکران کے کلام کوگہری انفرادیت سے ہم آہنگ کردیا تھا۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کہ ایک فنکار کی حیثیت سے برصغیر کے شعراء میں وہ ایک ممتاز مرتبۂ ومقام کے مالک تھے لیکن ان کی طبیعت ہنرفروشی جوہنرنمائی کی ایک شاخ ہے ا س سے ہمیشہ سخت متنفر رہے۔ مزاج میں کمال استغناء وبے نیازی کے ساتھ گوشہ گیری وکم آمیزی کی خُو تھی اس لیے ان کو شہرت وعظمت کے دربار میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ بجا طورپر مستحق تھے۔ افسوس ہے۲۳/جولائی کوان کابھی انتقال اپنے وطن مظفرآباد میں ہوگیا۔مرحوم اوران کے برادرخورد سید امیر رضاکاظمی میرے ان احباب خاص میں تھے جن کی صحبت ومعیت کی وجہ سے کلکتہ میرے لیے باغ وبہار تھا، اس لیے علامہ جمیل مظہری کاانتقال دنیائے شعروادب کاہی ایک سانحہ نہیں، ذاتی طورپر بھی ایک المناک حادثہ ہے۔
اردو کا ایک نوزائیدہ ادبی مجلہ ’’مظہری نمبر‘‘ شائع کررہاہے، اس میں مرحوم پرمیرا مفصل مقالہ بھی ہوگا اس لیے یہاں صرف اس نوٹ پراکتفا کیاجاتا ہے کہ مرحوم حضرت ابوالکلام آزاد کے خاص صحبت یافتہ تھے، ان کو موصوف سے اورموصوف کوان سے ربط و انس خاص تھا۔ ایک مدت تک ادھر ادھر تلاش معاش میں سرگرداں رہنے کے بعد پٹنہ یونیورسٹی میں پہلے اردو کے لیکچرر ہوئے اورپھر ریڈر اوراسی پوسٹ پرسبکدوش ہوگئے۔ نظم اورنثر میں متعدد کتابیں اپنی یادگار چھوڑی ہیں، درویش صفت وقلندر منش، نہایت بے تکلف اور بے تصنع، باہمہ اوربے ہمہ انسان تھے، کسی کی دلآزاری کاغالباً انہیں کبھی تصور بھی نہ آیا ہوگا۔ میں نے اس درجہ قریبی تعلق کے باوجود ان کی زبان سے کبھی کسی کی برائی نہیں سنی، درحقیقت یہ وصف خاص ہزارنیکیوں کی ایک نیکی ہے۔
اللھم اغفرلہ وارحمہ۔
[اکتوبر۱۹۸۰ء]
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |