Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

ڈاکٹر مصطفی حسن علوی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338805

Access

Open/Free Access

Pages

174

ڈاکٹر مصطفےٰ حسن علوی
افسوس ہے اسی مہینہ ڈاکٹر مصطفےٰ حسن صاحب علوی کاحادثہ وفات بھی پیش آگیا۔اس وقت ان کی عمر۸۶برس کے لگ بھگ تھی، ان کا اصل وطن کاکوری تھا۔ اردوزبان کے مشہور نعت گو جناب محسن کاکوروی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل تھے۔ حضرت شیخ الہندؒ سے حضرت شیخ کے درس بخاری کے آخری سال میں دورۂ حدیث کی تکمیل تھی اوراس کے بعد حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن ؒ نے دیوبند کی جامع مسجد میں ان کودستار فضیلت عطا فرمائی تھی، اس حیثیت سے وہ غالباً حضرت شیخ الہند کی بزم تلامذہ کے آخری چراغ تھے، اب تودیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اعلیٰ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والے کثرت سے نظر آتے ہیں، لیکن غالباً مرحوم پہلے شخص تھے جنھوں نے دارالعلوم دیوبند سے باقاعدہ فارغ ہونے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم۔اے کرکے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد وہ ایک عرصہ تک لکھنؤ کے شعبۂ علوم مشرقیہ سے منسلک رہے۔ آخر میں چندبرس شعبۂ عربی میں بھی کام کیا، عربی بولنے اور لکھنے کا بڑا شوق تھا۔شعرو شاعری کا ذوق موروثی تھا،لکھنؤکی زبان اور اس کے رنگ میں غزلیں لکھتے اور ترنم سے پڑھ کر ارباب ذوق سے داد لیتے تھے۔ تصنیف وتالیف کا بھی ذوق تھا۔ان کی آخری کتاب ’’قائدبدرواحد‘‘ تھی جس پر بہار اردو اکیڈیمی نے انعام دیا تھا۔علاوہ ازیں عرصہ ہواان کو صدر جمہوریہ کی طرف سے عربی کاایوارڈ بھی ملا تھا۔ دارالعلوم دیوبند سے بڑی محبت تھی، اس کی مجلس شوری کے ممبر عرصۂ دراز سے تھے اور پابندی سے اس کے جلسوں میں شرکت کرتے تھے مگرادھرچند برس سے بتقاضائے عمر ضعف ونقاہت کے باعث شوریٰ کے جلسوں میں شرکت کامعمول نہیں رہا تھا۔عجب اتفاق ہے مارچ۱۹۸۰ء میں جواجلاس صد سالہ ہوا اس میں دیوبند آئے اورپھر اس کے بعد۱۱،۱۲/اکتوبر کومجلس شوری کا جو جلسہ ہوا تووہ اس میں بھی شریک ہوئے۔ ایسے موقع پر حضرت شیخ الہند کے آخری تلمیذ سمجھ کر طلباء ان کے پاس کثرت سے آتے اوراُن کی زبانی اکابردیوبند کے واقعات سنتے تھے۔ طلبا حسب معمول اس مرتبہ بھی ان کے کمرہ میں جمع ہوئے تو ان سے بولے: بچو!آفتاب عمر لب بام ہے، پتہ نہیں اب آئندہ کبھی میں دیوبند آبھی سکوں گا یا نہیں، اس لیے تم مجھ سے درس حدیث لے لوتاکہ میں تم کو اپنی سند دے دوں۔ چنانچہ انھوں نے یہی کیا دوچار حدیثیں بخاری کی پڑھیں اور طلباء کو اسناد کی اجازت دے دی۔ طبعاً بڑے خلیق،شگفتہ مزاج، وضعدار و بامروت انسان تھے۔ لکھنؤ کے شرفاء کے اوصاف وکمالات کے حامل تھے، خاتمہ بھی عجیب وغریب طریقہ پرہوا، ۲۶/نومبر۱۹۸۰ء کوعصر کی نماز اداکرتے کرتے سجدہ میں گئے تو پھر سراٹھانانصیب نہ ہوا،جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ دوسرے دن نمازجنازہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں اورتدفین وطن کاکوری کے خاندانی قبرستان میں ہوئی۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ [جنوری۱۹۸۱ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...