Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > پروفیسر اشتیاق حسین قریشی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

پروفیسر اشتیاق حسین قریشی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338806

Access

Open/Free Access

Pages

174

پروفیسر اشتیاق حسین قریشی
اخبارات سے یہ معلوم کرکے سخت افسوس ہواکہ پروفیسر اشتیاق حسین قریشی گزشتہ ماہ جنوری کے تیسرے ہفتہ میں کراچی میں انتقال کرگئے۔اناﷲ واناالیہ راجعون۔ مرحوم برصغیر ہندوپاک کے نامور مورخ اورماہر تعلیم تھے، ان کااصل وطن مارہرہ (اترپردیش میں ضلع ایٹہ کاایک مردم خیز قصبہ) تھا، وہیں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گھرپر پائی۔انٹرنس کا امتحان مولوی بشیر الدین مرحوم کے قائم کیے ہوئے اٹاوہ کے ہائی اسکول سے پاس کیا۔مولوی صاحب سرسید مرحوم کے صحبت یافتہ تھے اس لیے ایک زمانہ میں اسی اسکول کی مسلمان لڑکوں کی بہترین تعلیم گاہ کی حیثیت سے بڑی شہرت تھی۔ ڈاکٹر ذاکرحسین اور ان کے برادر خوردڈاکٹر یوسف حسین خان اسی اسکول کے فیض یافتہ اورڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مرحوم کے ساتھی تھے، اس کے بعد ابھی زیر تعلیم ہی تھے کہ تحریک خلافت شروع ہوئی۔یہ شروع سے ہی تھے بڑے جذبیلے اورجوشیلے، انھوں نے تحریک میں اس جوش وخروش سے حصہ لیا تھا کہ تعلیم کاسلسلہ منقطع ہوگیا۔چندبرسوں کے بعد جب کمال اتاترک کے الغائے خلافت کے باعث مسلمانوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی تومرحوم نے پھرتعلیم کاسلسلہ شروع کیا اوربی۔اے کرنے کے بعد سینٹ اسٹیفینس کالج، دہلی میں داخل ہوکر دہلی یونیورسٹی سے تاریخ اورفارسی دونوں میں ایم۔اے کاامتحان پاس کیااورپھراسی کالج میں تاریخ کے لیکچرر ہوگئے۔ سات آٹھ برس کے بعد کالج کے معمول اوردستورکے مطابق کیمبرج یونیورسٹی گئے اور ڈاکٹر ہوکرواپس ہوئے ۔ ڈاکٹریٹ کے لیے انھوں نے جومقالہ لکھا تھا وہ ’’دلّی سلطنت کانظم ونسق‘‘کے نام سے اسی زمانہ میں ہی شائع ہوکرارباب علم وتحقیق میں مقبول ہوچکاتھا۔کیمبرج سے آنے کے بعد چندبرس کالج میں رہے اورپھر دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کی چئیرقائم ہوئی تو یہ یونیورسٹی کے پہلے پروفیسر تاریخ مقرر ہوکروہاں چلے گئے اورساتھ ہی فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین منتخب ہوئے۔ کالج اور یونیورسٹی میں ان کا بڑا وقار اورمرتبہ تھا، اساتذہ اورطلباء سب ان کالحاظ اور احترام کرتے تھے۔
مرحوم نہایت پختہ عقیدہ، نماز روزہ کے پابند اوربڑے جوشیلے اورجذباتی مسلمان تھے۔ سیاسی خیالات کے اعتبار سے کٹر مسلم لیگی اورتحریک پاکستان کے سرگرم حامی تھے چنانچہ وہ پاکستان کی دستور سازاسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء کواسمبلی کاجو پہلا اجلاس کراچی میں منعقد ہواتھا ڈاکٹر صاحب اس میں شریک تھے۔ چندروز کے بعد جب ڈاکٹر صاحب ہم لوگوں کی توقع کے برخلاف دہلی میں واپس آگئے اوریونیورسٹی میں باقاعدہ کام کرنے لگے توسب کو بڑی حیرت ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کالج اوریونیورسٹی میں تومیرے رفیق کار تھے ہی یوں بھی ذاتی طورپرمیرے نہایت بے تکلف اورعزیز دوست تھے، ایک دن میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب کیا واقعی آپ نے ہندوستان میں رہنے کافیصلہ کرلیا ہے؟ بولے جی ہاں!میں کراچی سے آیا توہوں اسی عزم اورارادہ کے ساتھ۔میں نے کہاـ: پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ ہوں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے ممبر اور رہیں ہندوستان میں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا:میں کراچی اسی ارادہ سے گیا تھا کہ اب ہندوستان میں نہ رہوں گا، لیکن قائد اعظم نے مجھ سے فرمایا: اب جبکہ پاکستان بن گیا ہے مجھ کوامید ہے کہ دونوں ملک مل جل کررہیں گے اس لیے تم جیسے مسلمان جو اعلیٰ عہدہ پر ہیں میں چاہتا ہوں کہ وہ ہندوستان میں ہی رہیں۔ چنانچہ قائد اعظم کے اس ارشاد پر میں واپس آگیا ہوں، حالات اگر ٹھیک رہے تو میں پاکستان کی دستورسازاسمبلی سے استعفیٰ بھیج دوں گا۔ لیکن اس گفتگو کے چند روز بعد ہی دلّی میں قتل وغارت گری کابازار ایسا گرم ہواکہ۱۸۵۷ء میں بھی ایساگرم کیا ہواہوگا۔ ستمبر۱۹۴۷ء کے پہلے ہفتہ میں ڈاکٹر صاحب کی کوٹھی اوردلّی یونیورسٹی کے مسلمان رجسٹرار کے مکان پریونیورسٹی کے کیمپس میں شدید حملہ ہوا اور دونوں کواپنی جانیں بچا کر ترک وطن کرناپڑا۔
ذاتی واقفیت کی بناپر مجھ کو یقین ہے کہ ڈاکٹر صاحب ان چند مخلص مسلمانوں میں سے تھے جنھوں نے نیک نیتی اورایمان داری سے یہ سمجھا تھاکہ پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم ہوگا وہاں کے مرد، عورت، جوان اور بوڑھے عقیدہ اورعمل اوراخلاق وعادات کے اعتبار سے بہتر مسلمان ہوں گے اور دونوں ملک امن وسلامتی سے رہیں گے۔ لیکن وہاں ان معصوم توقعات کے بالکل برعکس جوحالات رونما ہوئے انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو سخت مایوس کردیا اور وہ اس صورت حال پراپنے غم وغصہ اوردردوکرب کااظہار تقریروں،تحریروں اور نجی گفتگوؤں میں برملا اورعلی الاعلان کرتے تھے۔ تاہم قائد اعظم اورنواب زادہ لیاقت علی خاں ان کے بڑے قدردان تھے، اس بنا پر وہ آبادکاری کے وزیر مقرر کئے گئے تھے بڑے شریف اوردوست۔ اس زمانہ میں میں کلکتہ میں تھا، وہاں سے میں نے کراچی اورلاہور کے بعض دوستوں اورعزیزوں کی سفارش میں ڈاکٹر صاحب کوخطوط لکھے توان کاخاطر خواہ اثرہوا اورڈاکٹر صاحب نے فراخدلی سے ان کی مدد کی۔ نواب زادہ کی شہادت کے بعد جب پاکستان میں الٹ پلٹ ہوئی توڈاکٹر صاحب بددل ہوکرامریکہ کی ایک یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر ہو کر چلے گئے، یہاں انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں پرلیکچردئیے جوکتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں اور ہماری نظر سے گذرے ہیں۔ مرحوم کے بلندپایۂ مورخ اور محقق ہونے میں شبہ نہیں ہوسکتا، لیکن مجھ کو ہمیشہ ان سے یہ شکایت رہی کہ ان کی غیر معمولی جذباتیت کہیں کہیں مؤ رخانہ معروضیت پرغالب آجاتی ہے، یہ رنگ ان کی اس کتاب میں بھی ہے اورایک دوسری کتاب’’علماء‘‘[۱]میں بھی۔ آپ کہیں گے ہندومؤرخین بھی توغیر متعصب نہیں ہیں، میں عرض کروں گا۔قرآن مجید میں ارشاد ہے: لایضرکم من ضل اذااھتدتیم۔’’یعنی بلا سے کوئی گمراہ ہوتاہے تو ہونے دو، تم اے مسلمانوں! بہرحال سیدھے راستے پررہو۔‘‘
اس بنا پر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کوئی لاکھ دھاندلی کرے ایک مورخ کوبہر صورت تاریخ کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے۔
امریکہ اوردوسرے ملکوں کے دورہ کے بعد کراچی واپس آئے تویہاں مختلف اوقات میں مختلف عہدوں پررہے۔اسی اثناء میں ایک مرتبہ وزیر تعلیم بھی رہے۔آخرمیں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے اوربھٹو گورنمنٹ کے عہد میں اس سے سبکدوش ہوکرخانہ نشین ہوگئے، لیکن سیاسیات سے ان کی دلچسپی برابر قائم رہی جس کی وجہ سے وہ بھٹو گورنمنٹ کے معتوب بنے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کی وائس چانسلری کے زمانہ میں۱۹۶۹ء میں پہلی مرتبہ میں پاکستان گیااور کراچی بھی پہنچا توایک دن صبح کے وقت ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی غرض سے کراچی یونیورسٹی بھی گیا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے دفتر میں موجود تھے میں نے اطلاع کرائی نام سنتے ہی فوراً باہر نکل آئے، ۲۳برس کے بعد یہ پہلی ملاقات تھی، فرط محبت میں بغلگیر ہوگئے اوردفتر کے اندر آکرسخن گذشتہ گفتن وگلہ را دراز کردن کا دور شروع کردیا۔ ابھی ہم کافی پی رہے اورباتیں کررہے تھے کہ اچانک ایک نہایت شائستہ و بائستہ خاتون کمرہ میں داخل ہوئیں اورڈاکٹر صاحب سے بولیں: وقت ہوگیا!آپ کا انتظار ہورہاہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فوراً گھڑی دیکھی اور کھڑے ہوگئے، مجھ سے بولے آپ بھی میرے ساتھ چلئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے ڈپارٹمنٹ کے ماتحت ایک شعبہ اسلامک سوشیالوجی کاقائم ہواہے، یہ خاتون ڈپارٹمنٹ کی صدر ہیں اورڈاکٹر صاحب اس وقت اسلامک سوشیالوجی کے سیکشن کاافتتاح کرنے جارہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب مجھے ساتھ لئے ہوئے ڈپارنمنٹ کے ایک وسیع اورکشادہ کمرہ میں داخل ہوئے جواساتذہ، طلباء اورطالبات اوراخبارات کے نامہ نگاروں سے بھراہواتھا۔ڈاکٹر صاحب ڈائس پراپنی کرسی پربیٹھے اورایک قریب کی کرسی پرمجھے بٹھادیا۔ قرآن مجید کی تلاوت کے بعد فوراً ڈاکٹر صاحب کھڑے ہوگئے اور میرے تعارف میں ایک مختصر تقریر کی جس میں بڑی محبت سے ’برہان‘ اورمیری کتابوں خصوصاً ’صدیق اکبر‘ کاتذکرہ کرنے کے ساتھ مجھ سے اپنے دیرینہ تعلق کا بھی ذکر کیا، یہاں تک توخیر غنیمت تھا، غضب یہ ہواکہ اب ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے تقریر کی بھی فرمائش کردی۔میں یہ سنتے ہی سٹ پٹا کے رہ گیا، تاہم اپنے آپ کو سنبھالا اورایک منٹ کے لئے سرنگوں ہوکر خدا سے دعا کی: ’’بارالہا! تونے میرے دوستوں کے دلوں میں یہ حسن ظن پیداکیا ہے کہ میں ہرموضوع پرہروقت فی البدیہہ تقریرکرسکتا ہوں تواس وقت میری مدد بھی فرما۔‘‘ اس کے بعد کھڑاہوا اور بولنا شروع کردیا۔پون گھنٹہ بولاہوں گا تقریر میں،میں نے پہلے ڈاکٹر صاحب کومبارکباد دی کہ ان کے عہد میں یہ ڈپارٹمنٹ قائم ہورہاہے اورپھر میں نے یہ بتایا کہ اسلامک سوشیالوجی کیاہے؟اسلام کس طرح انسان اورمعاشرہ کو مختلف طبقات پرتقسیم کرتاہے، ہرطبقہ کے الگ الگ حقوق وفرائض کومتعین کرتاہے، ان سب کی بنیاد اوراساس ایک ہے اس کے ذریعہ اسلام کس طرح کثرت میں وحدت اورسماج میں ہم آہنگی اورتوازن واعتدال پیداکرتاہے۔ آخر میں،میں نے یہ بھی کہا کہ اب جب کہ انسانی معاشرہ بدل رہاہے ضروری ہے کہ اجتہاد کے ذریعہ اسلامی سماجیات کے جدید مسائل ومعاملات کوحل کرنے کی کوشش کی جائے۔ میری تقریر کے بعد ڈاکٹر صاحب نے تقریر کی اورڈپارٹمنٹ کا افتتاح کیا۔
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ایک دن لیاقت آباد میں اپنی کوٹھی پر کھانے پرمدعو کیااور یہ میری اوران کی آخری ملاقات تھی۔ انتقال کے وقت ان کی عمر کیا تھی؟میرااندازہ۷۴،۷۵ برس کاتھا۔ لیکن علی گڑھ کے ایک ممتاز خاندان کے ایک پیرکہن سال جو میرے قریب رہتے ہیں، ابھی چند روز ہوئے ان سے معلوم ہواکہ۱۹۱۴ء میں ڈاکٹر صاحب مارہرہ کے ایک اسکول میں اسکول ماسٹر تھے اور وہ خودان کی کلاس میں تھے،مزید برآں انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس اب تک ڈاکٹر صاحب کے قلم کی ایک تحریر موجود ہے جس پران کے دستخط ہیں اور۱۹۱۴ء کی تاریخ پڑی ہے۔ یہ صحیح ہے تواُن کی عمر میرے اندازہ سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہے واﷲ اعلم۔ بہرحال بڑی خوبیوں کے اوربڑی آن بان کے مسلمان تھے، اعلیٰ انگریزی تعلیم یافتہ لوگوں میں دینی حمیت و غیرت اور ایمانی حرارت وجسارت کے ایسے لوگ کم ہی ہوں گے۔اللھم اغفرلہ وارحمہ۔
[۱] کتاب کا پورا نام ہے ’’علماء میدان سیاست میں‘‘ [مرتب]
[فروری۱۹۸۱ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...