Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

امتیاز علی خاں عرشی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338807

Access

Open/Free Access

Pages

176

مولانا امتیاز علی خاں عرشی
سخت افسوس ہے گذشتہ ماہ فروری کی۲۵/تاریخ کومولانا امتیاز علی خاں عرشی بھی ۷۷برس کی عمر میں اپنے وطن رامپور میں داعیٔ اجل کولبیک کہہ کراس عالم فانی سے رخصت ہوگئے۔اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کی شہرت کاآغاز اوّل اوّل غالبیات کے ماہرکی حیثیت سے ہوا،انھوں نے غالب کے دیوان اور خطوط پرجوتحقیقی مقالات لکھے،انھوں نے اردو زبان وادب کے حلقہ میں دھوم مچادی۔ وہ بیک وقت عربی، فارسی اوراردو تینوں زبانوں اوران کے ادب کے نامور مبصرومحقق تھے۔
وہ رامپور میں۱۹۰۴ء میں پیداہوئے۔رامپور پٹھانوں کی مشہور بستی ہے جو افغانستان کے مختلف قبیلوں سے منسوب ہیں۔ مرحوم کاخاندانی تعلق حاجی خیل قبیلہ سے تھا جویوسف زئی قبیلہ کی ایک شاخ ہے، ابتدائی تعلیم مطلع العلوم نامی ایک مقامی مدرسہ میں پائی۔اسی زمانہ میں پنجاب یونیورسٹی سے عالم کاامتحان پاس کیا۔پھر اورینٹل کالج لاہور میں داخلہ لے کر اولاً مولوی فاضل کااوراس کے بعد منشی فاضل کاامتحان پرئیویٹ طورپر دیا اوردونوں امتحانوں میں درجہ اوّل میں کامیاب ہوئے۔ رامپور واپس آکر مدرسۂ عالیہ کی اونچی کلاس میں داخل ہوئے اور اس سے سند فراغ لی۔تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد چند دنوں ندوۃ العلماء کے سفیر رہے، اس سے بیزار ہوکر مستعفی ہوئے توتجارت کرنے لگے، ناتجربہ کاری کے باعث اس میں گھاٹاہوا تو دامن جھاڑ کراس سے بھی الگ ہوگئے۔ آخر۱۹۳۲ء میں رامپور کے مشہور زمانہ کتب خانہ جوتقسیم کے بعد سے رضا اسٹیٹ لائبریری کہلاتا ہے اس سے بحیثیت ناظم کے وابستہ ہوئے۔
کتب خانہ کے ساتھ ان کی یہ وابستگی زندگی کے آخری سانس یعنی کم و بیش نصف صدی تک باقی رہی۔اس مدت میں انھوں نے کتب خانہ کی کیسی عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں۔اس کااندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ملازمت سے سبکدوشی کے عام قانون سے مستثنیٰ کرکے گورنمنٹ نے آرڈر دے دیا ہے کہ وہ تاحین حیات اپنے عہدہ پر برقرار رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ عرشی صاحب کو کتب خانہ کے ساتھ محبت نہیں عشق تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی کی تمام صلاحیتیں اور توانائیاں کتب خانہ کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھیں جس کی وجہ سے آج کتب خانہ مشرق ومغرب کے ارباب علم وتحقیق کے لیے کعبۂ آمال و امانی کی حیثیت رکھتا ہے اورہندوستان کے لیے سرمایۂ افتخاربناہواہے۔ دوسری طرف کتب خانہ نے عرشی صاحب کو ایسا چمکایا اور جگمگایا کہ ان کا شمار عربی، فارسی اور اردو کے بلندپایہ محققین ومبصرین میں ہونے لگا۔ ۱۹۶۵ء میں مرحوم کے اعزاز میں ایک ضخیم کتاب’ نذر عرشی‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی، جس کا اجراء صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم نے کیا تھا۔ اس کتاب میں مرحوم کے خلف الرشید اکبر علی خان صاحب نے نگارشات عرشی کی جو طویل فہرست نقل کی ہے اگرچہ وہ جامع نہیں ہے تاہم اس سے اندازہ ہوگا کہ مولانا مرحوم نے عربی،فارسی اوراردو کے کیسے اورکتنے نادر مخطوطات کو ایڈٹ کیا اورکتنے اہم موضوعات پر پُرمغز مقالات لکھ کرداد تحقیق دی۔ اس فہرست سے سبھی کویہ معلوم ہوگاکہ مولانا کی نگارشات کاایک بڑا اور نہایت اہم حصہ وہ ہے جو اب تک زیورطباعت سے آراستہ نہیں ہوسکاہے۔ اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ مولانا نے تحقیق وتنقید کا جوبلند معیار قائم کیاہے وہ اس میدان کے نوجوان رہ نوردوں کے لیے ایک مینارۂ روشنی کا حکم رکھتاہے۔
مرحوم جس مرتبہ اورپایہ کے عالم وفاضل اورمحقق تھے۔بحیثیت ایک انسان کے بھی اعلیٰ مکارمِ اخلاق وفضائل کے حامل تھے۔ نہایت خندہ جبین،شگفتہ رو، متواضع اورمنکسر المزاج، ہرایک کے ساتھ ہمدردی اورمحبت،ان کی فطرت بے لوث وبے غرض،طمع اورریاسے نفور، اخلاص ووفا کے پیکر! ہمہ شرافت اورمجسمہ وضعداری ومروت، قیام ِکلکتہ کے زمانہ میں ایک مرتبہ راقم الحروف سخت بیمار ہو گیا۔جب کچھ صحت ہوئی توڈاکٹروں نے کسی پہاڑ پرجانے کا مشورہ دیا۔میں نے ایک ماہ کی رخصت لی اورنینی تال چلاآیااورایک ہوٹل میں مقیم ہوگیا۔دلّی سے مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی اوربھائی مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی عیادت کے لیے نینی تال آئے۔مولانا عرشی ماسکو(روس)گئے ہوئے تھے جس دن اس طویل سفر سے رامپور واپس آگئے اورانھیں میری علالت کاحال معلوم ہوا، اسی روز شام کو روانہ ہوکر نینی تال پہنچ گئے اورتین چار دن ہوٹل میں میرے ساتھ مقیم رہے۔مولانا کے اس کرم بے غایت کی لذت آج تک دل کی امانت ہے، ایک میں نہیں سب دوستوں کے ساتھ ان کامعاملہ یہی تھا۔
دس بارہ برس سے دل کے بیمار تھے، دومرتبہ شدید دورہ ہوچکا تھا اس لیے رفتار وگفتار اورروزمرہ کے معمولات میں بڑے محتاط ہوگئے تھے، سفر بالکل ترک کردیا تھا لیکن اس عالم میں بھی کتب خانہ کاکام پابندی سے کرتے رہے۔چنانچہ کتب خانہ کے مخطوطات کی تشریحی فہرست جواب تک متعدد جلدوں میں شائع ہوچکی ہے اس کا ایک بڑاحصہ اسی زمانہ میں مرتب ہواہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کہ مولانا عرشی کاحادثۂ وفات علم وادب کی دنیا کاایک عظیم حادثہ ہے جس کی تلافی ایک عرصہ تک نہ ہوسکے گی۔ عقیدہ اورعمل کے اعتبار سے صفِ اوّل کے مسلمان تھے۔نماز روزہ کے پابند اورشعائر اسلام کابڑااحترام ملحوظ رکھتے تھے۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ وبرد مضجعہ۔ [مارچ۱۹۸۱ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...