Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > حافظ احمد سعید خان[نواب آف چھتاری ]

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

حافظ احمد سعید خان[نواب آف چھتاری ]
Authors

ARI Id

1676046603252_54338810

Access

Open/Free Access

Pages

178

نواب آف چھتاری سرحافظ احمد سعید خان
افسوس ہے ۶/جنوری کی شام کونواب آف چھتاری سرحافظ احمد سعید خان صاحب نے ۹۴برس کی عمر میں علی گڑھ میں وفات پائی اوردوسرے دن اپنے آبائی وطن چھتاری میں مدفون ہوئے۔ نواب صاحب تقسیم سے پہلے وائسرائے کی اکزیکٹو کونسل کے ممبر اوریوپی کے گورنر رہ چکے تھے اس لیے ان کاجنازہ ان کی کوٹھی راحت منزل سے یونیورسٹی تک اوریونیورسٹی سے چھتاری تک پورے سرکاری اعزاز واکرام کے ساتھ لے جایا گیا۔ جلوس میں ہرفرقہ و ملت کے ہزاروں سوگواروں کے علاوہ متعدد وزرا اوراترپردیش کے اعلیٰ افسران حکومت بھی شامل تھے۔نماز جنازہ جس میں ہزاروں مسلمان شریک ہوئے، علی گڑھ اور چھتاری دونوں جگہ ہوئی۔جن لوگوں نے سرسید(متوفی۱۸۹۸ء)کوبہت قریب سے دیکھا اوران کی باتیں سنی ہیں، نواب صاحب غالباً اس بزم کی آخری شمع تھے، سدارہے نام اﷲ کا۔اناﷲ واناالیہ راجعون۔
گذشتہ ایک صدی کے اندربرصغیر کے مسلمانوں میں مختلف حیثیتوں سے بڑی بڑی نامور اور قدآور شخصیتیں گزری ہیں جن کے طنطنۂ شہرت وکمال سے اس ملک کے بام و در عرصہ تک گونجتے رہے ہیں اوراب وہ تاریخ کی گود میں آسودۂ سکون ہیں لیکن یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ دین اوردنیا کے اعلیٰ صفات وکمالات اورامیری میں درویشی کی جامعیت کے اعتبار سے نواب صاحب کی شخصیت منفرد اوراپنی مثال آپ تھی، چنانچہ ایک طرف دنیوی عزت و وجاہت کے نقطۂ نظر سے انگریزوں کے عہد میں جوعہدہ ومنصب ایک ہندوستانی کی معراج ہوسکتاہے وہ انہی کو حاصل تھا، وہ وائسرائے کی کونسل کے ممبر بنے، اترپردیش کے پہلے مسلمان گورنر مقررہوئے، نظام حیدرآباد کے وزیر اعظم یا مدارالمہام برسوں رہے،نظام ٹرسٹ کے رکن منتخب ہوئے،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پہلے پروچانسلر اور پھر چانسلر سالہا سال رہے۔گورنمنٹ اورپبلک ہرجگہ بڑی عزت واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے۔برطانیہ کے ایک نمائندہ کی حیثیت سے گول میز کانفرنس لندن میں شریک ہوئے،آزادی کے بعد خانہ نشین ہوگئے تھے اور سیاست سے عملاً کوئی تعلق باقی نہ رکھا تھا، پھر بھی دومرتبہ راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہوئے۔
اوردوسری طرف دینداری کایہ عالم تھا کہ نماز،روزہ اور اوراد و وظائف کی سخت پابندی کے علاوہ قرآن مجید سے ان کوعشق تھا۔ آٹھ برس کی عمرمیں حافظ ہوگئے تھے اورہرسال(خواہ کہیں بھی ہوں یہاں تک کہ گورنری کے زمانہ میں گورنمنٹ ہاؤس میں بھی) تراویح میں قرآن مجید بڑی پابندی اوراہتمام سے سناتے تھے۔ ْچند سال ہوئے ایک مرتبہ انھوں نے خود راقم الحروف سے فرمایا تھا: الحمدﷲ!میں نے۸۱ محرابیں پڑھی ہیں۔ اس کے بعد مرحوم نے دومرتبہ اورتراویح میں قرآن سنایا ہے، اٹھتے بیٹھتے اورچلتے پھرتے یوں بھی تلاوت کرتے رہتے تھے۔
اخلاق وعادات کے اعتبار سے بالکل صوفی منش اوردرویش صفت انسان تھے، ایک رئیس اعظم اوربلند مرتبہ صاحب منصب وعہدہ ہونے کے باوصف نہایت حلیم وبردبار، خندہ جبین وملنسار، نہایت متواضع اورخوش گفتار تھے، امیر ہو یا غریب ہرایک سے کامل التفات اورتوجہ سے گفتگو کرتے تھے، دکھ درد میں ہرایک کے غمگسار اورشریک رہتے تھے، ارباب حاجت وضرورت کی مدد کرکے انھیں خوشی ہوتی تھی۔ علمااورمشائخ کی صحبت کے جویارہتے تھے۔ یونیورسٹی سے ان کومحبت نہیں عشق تھا، اس کے ہرفکشن میں شریک ہوکر اکثراردو میں اور کبھی کبھی انگریزی میں دلچسپ اورموثر تقریر کرتے تھے۔ طلبا کے وظائف کے لیے ایک خطیر رقم مقرر تھی جسے ہرسال خرچ کرتے تھے۔ شادی بیاہ،دعوت وضیافت میں کوئی بلائے اسے رد کرنا ان کے حسن اخلاق سے بعید تھا۔
صحت ہمیشہ بہت اچھی رہی،جسم گھٹا ہوا مضبوط اورپھرتیلا تھا، شاید کسی زمانہ میں پہلوانی بھی کی ہو، بہرحال شہسواری ان کا خاندانی اورموروثی ہنر تھا۔ شکار کے اتنے شوقین تھے کہ مرض الوفات میں مبتلا ہونے سے چند ماہ پیشتر تک شکارمیں برابر جاتے رہے۔ اسپورٹس مین ایسے تھے کہ بوائے اسکاؤٹس ایسوسی ایشن کے چیرٔمین اخیر تک رہے۔
حیات مستعار کے طویل سفر میں بیمار بارہا پڑے اورکبھی کبھی علالت بہت شدید اورتشویش انگیز ہوبھی گئی مگر علاج معالجہ ہوا صحت یاب ہوگئے، لیکن ابھی چند ماہ پہلے ایسے صاحب فراش ہوگئے کہ پھر نہ اٹھ سکے، کمزوری بڑھتی رہی، غذااور دوا موقوف ہوگئی، اکثر بیہوشی اوراستغراق کاعالم طاری رہتاتھا۔اس جہان ناپائیدار سے رشتہ منقطع ہورہا تھا اورحیات جادوانی کے چمن لذت وسرور کی عطر بیز ہواؤں کادریچہ کھل گیاتھا اس لیے اس عالم سکروبے خودی میں زبان برابر ذکرالٰہی کے ورد میں مصروف تھی۔ باربار ہاتھ اٹھاتے اور بڑھاتے تھے گویا کچھ محبوب صورتیں انھیں نظرآرہی ہیں اوروہ ان کی دست بوسی و ہم آغوشی کے لیے بے قرار ہیں، چنانچہ غایت درجہ ناطاقتی کی حالت میں ڈاکٹر انجکشن دینے کاارادہ کرتا توفرماتے: ڈاکٹر! ’’اب طاقت کاانجکشن دے کر مجھ کو میرے حبیب کے پاس جانے سے مت روکو۔‘‘ اہل خانہ پرگریہ طاری ہوگیا تو بڑے صاحبزادے کاہاتھ میں ہاتھ لے کر بولے:’’میاں ہم اس دنیا میں مہمان بن کرآئے تھے، ورنہ ہمارااصلی گھر تو دوسری جگہ ہے اورمہمانی ایک دن، دودن حدسے حد تین دن کی اورہم توپھربھی بہت رہ لیے،بس اب جانے دو۔‘‘
آخر اسی عالم ِاضطراب وشوق میں عصر اورمغرب کے درمیان کاجھٹ پٹا وقت تھا کہ حیات ناسوتی کاپردہ اٹھا۔ یاایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک کی صدائے دلنواز حریم قدس سے فردوس گوش ہوئی اورایک روحِ بے قرار وبے تاب وصل حبیب کے دامن میں پناہ لے کرقرار پاگئی۔
رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ۔
[فروری۱۹۸۲ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...