Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > مولانا محمد زکریا[شیخ الحدیث]

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا محمد زکریا[شیخ الحدیث]
Authors

ARI Id

1676046603252_54338813

Access

Open/Free Access

Pages

180

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریارحمۃ اﷲ علیہ
حوادث اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
واحسرتا!آخر۲۴/مئی کوحضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا بھی ہم سے جداہوکر قرب وجوار خداوندی کے اپنے اس مسکن حقیقی میں پہنچ گئے جہاں جانے کے لیے جیسا کہ آپ کا ہر ندیم وہم نشین محسوس کرسکتا تھا، برسوں سے آپ کی روح پرفتوح مضطرب وبے قرار تھی اور عالم اسلام گوہر شب چراغ ملّت بیضا سے یکسر محروم ہوگیا۔ اناﷲ واناالیہ راجعون۔
گذشتہ سال حضرت شیخ نے رمضان المبارک کاپورامہینہ جنوبی افریقہ کے ایک مقام اسٹرنگر میں گزارا تھا، حسن اتفاق سے اپنے ایک عزیزدوست مسٹر موسیٰ پارک کی نجی دعوت پر راقم الحروف بھی رمضان کے آخری ہفتہ میں ڈربن پہنچا، ڈربن سے اسٹرنگر کافاصلہ ڈیڑھ سو کلومیٹر ہے جوجنوبی افریقہ کی زندگی میں درحقیقت کوئی فاصلہ ہی نہیں، اس لیے جب تک حضرت کا قیام اسٹرنگر میں رہا تو وہاں اوراس کے بعد جب آپ ڈربن اوراس کے اطراف واکناف میں ایک ایک دودودن کے لیے قیام فرماہوئے توان مقامات پروقتاً وقتاً خدمت سامی میں برابر حاضر ہوتارہا، اس اثنا میں میں نے حضرت کی صحت اور نقل وحرکت سے مجبوری ومعذوری کاجوحال دیکھا اورساتھ ہی یہ بھی دیکھا کہ حضرت کاپروگرام جنوبی افریقہ،مزمبیق اورنیروبی کامکمل دورہ کرنے اور اس کے بعدانگلینڈ جانے کا ہے اورپھریہ مشاہدہ بھی کیا کہ جہاں کہیں پہنچتے ہیں ہرطبقہ اورہرگروہ کے ہزاروں بوڑھے اورجوان پروانوں کی طرح آپ پرگرتے ہیں توان سب چیزوں کے پیش نظر معاً خیال ہوا کہ یہ جوکچھ ہورہاہے کسی غیبی حکم اوراشارہ پرہورہاہے اور ساتھ ہی اندیشہ اس بات کا ہوا کہ غالباً اب وہ وقت قریب ہے جب کہ یاایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ صدائے غیب حضرت کے سامعہ نوازہوگی، بعد میں یہ خیال اوراندیشہ دونوں صحیح ثابت ہوئے، کل جو اندیشہ تھا، ابھی پورا ایک برس بھی نہ ہواتھا کہ آج ایک حقیقت بن کرسامنے آیااور لاکھوں مسلمانوں کوتڑپا گیا، رہا خیال!تواب اس کی تصدیق اس طرح ہوئی کہ ایک دن باتوں باتوں میں میرے ایک سوال کے جواب میں فرمایا: ’’عجیب شان ہے جب تک میرے جسم میں طاقت اور اعضا میں توانائی رہی تو میری دنیا سہارنپور سے دلّی تک محدود رہی، لیکن اب جب کہ میں ضعیف وناتواں ہوگیاہوں اورنقل وحرکت کے قابل بھی نہیں رہا تومجھے ملکوں ملکوں لیے پھر رہے ہیں۔‘‘
اس زمانے میں گمراہی کے سب سے بڑے سرچشمے دوہی ہیں ایک افراطِ زر اور دولت وثروت کی بہتات اوردوسری تہذیبِ فرنگ، یہی دوچیزیں ہیں جنھوں نے اسلامی اقدارِ حیات کونہایت مضمحل اور کمزور کردیاہے اورمسلمان اقوام وممالک بھی بحیثیت مجموعی شعوری یالاشعوری طورپر اس سیلاب بلا میں بہتے جارہے ہیں، پہلے فتنہ کا منبع سعودی عربیہ اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک اور دوسری قسم کے فتنہ کاسرچشمہ انگلستان ہے، پھران فتنوں سے مسلمانوں کومحفوظ رکھنے کااصولی اوربنیادی ذریعہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اﷲ اوراس کے رسول کا حقیقی عشق اور یومِ حساب کاخوف پیداکیاجائے تاکہ وہ حبّ دنیا،حب جاہ اور نفس پروری کے شکنجوں سے آزاد ہوکر ایمان کامل اورعمل صالح کی دولت سے مالامال ہوسکیں۔ اسلام کے مبلغ کاپہلااوربنیادی کام یہی ہے، اسلامی کیریکٹر کی یہی وہ خشت اوّل ہے جس پر اسلامی تعلیمات کی پوری عمارت کھڑی ہوئی ہے، چنانچہ مکہ کی تیرہ برس کی زندگی میں خودآنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسی پر اپنی توجہ مبذول رکھی ہے اورقرآن مجید کی مکی سورتوں میں یہی ایک مضمون باربار مختلف اسالیبِ بیان میں کمال بلاغت وفصاحت اورانتہائی جوش و زورِخطابت کے ساتھ کہا گیاہے۔
حضرت شیخ الحدیث کاترک وطن کرکے مدینہ طیبہ میں قیام پذیر ہونا اور تھوڑے وفقہ سے انگلینڈ کادومرتبہ سفر کرنا اورساتھ ہی جنوبی افریقہ اوردوسرے ملکوں کواپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف کرنا! ہمارے نزدیک یہ سب کچھ محض ایک اتفاقی واقعہ نہیں تھابلکہ درحقیقت قدرت کے نظام ربوبیت اور اس کے دستور ارشاد وہدایت کاایک جز تھا۔ چنانچہ سب کو معلوم ہے کہ ان اسفاراورمدینہ طیبہ میں مستقل قیام سے لے کر ملت اسلامیہ کوکس درجہ اہم دینی فوائد پہنچے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے جوعظیم الشان کارنامے ہیں وہ بھی حضرت شیخ الحدیث کی توجہ اور فیض باطنی کے مرہون منت ہیں۔اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ عالم اسلام سے قطع نظر! اگر آج امریکہ،یورپ ،افریقہ اورجاپان میں اسلام کاغلغہ بلند ہو رہاہے اورلاکھوں انسانوں کے دل ایمان محکم اورعمل صالح وپیہم کے نور سے روشن ہورہے ہیں تودوسری طرف فعال اورمتحرک جماعتوں کے ساتھ اس میں حضرت شیخ الحدیث کے فیوض روحانی وباطنی کابھی بڑااورگراں قدر حصّہ ہے۔ آپ کی دعوت کیاتھی؟اس کا خلاصہ آپ کے مرتبہ’’تبلیغی نصاب‘‘میں آگیاہے جس کولاکھوں مسلمان روزانہ پڑھتے پڑھاتے یاسنتے ہیں۔
تبلیغی اوراصلاحی فیوض وبرکات کے علاوہ آپ کے علمی کارنامے بھی بہت شاندار ہیں، اگرچہ مدارس عربیہ کے تمام علوم وفنون متداولہ میں استعداد اعلیٰ اور پختہ تھی، لیکن علم حدیث سے عشق تھا، ایک مدت تک حدیث کادرس اس طرح دیا کہ شہرت دوردور پہنچی۔ درس کے علاوہ بذل المجھود فی شرح ابی داؤد کی تالیف میں اپنے پیرومرشد اوراستاذ حضرت خلیل احمد صاحب سہارنپوری کے شریک اورمعاون رہے، پھرخود موطا امام مالک اورصحیح بخاری کی شرح متعدد ضخیم مجلدات میں لکھی، اگرچہ جرح وتعدیل کے باب میں آپ زیادہ سخت نہیں ہیں، لیکن ان شروح کی خصوصیت روایات اوران کے استیعاب واستقصا ہے، جس کی وجہ سے حدیث کاایک طالب علم دوسری کتابوں کی ورق گرانی سے بے نیاز ہوجاتاہے، پھرعربی زبان اس درجہ شستہ اورشگفتہ ہے کہ پڑھتے جائیے اور جھومتے جائیے۔ اردو میں بھی چند کتابیں جومفید اورقابل مطالعہ ہیں ان میں آپ بیتی، جوتین جلدوں میں ہے سب سے اہم کتاب ہے، اس کے مطالعہ سے جہاں بیش قیمت معلومات حاصل ہوتی ہیں، تہذیب نفس وتجلیۂ اخلاق کا سامان بھی ہوتاہے۔
حضرت مرحوم سے پہلی ملاقات دارالعلوم دیوبند میں طالب علمی کے زمانہ میں ہوئی۔ایک مرتبہ میں اورمفتی عتیق الرحمن عثمانی سہارنپور گئے توحضرت سے ملاقات کے غرض سے اُن کے مکان پربھی حاضر ہوئے، مفتی صاحب اورشیخ الحدیث میں دوستی اوربے تکلفی تھی، صبح کاوقت تھا، شیخ الحدیث بڑے تپاک سے ملے، تھوڑی دیر کے بعد چائے آگئی۔ مگریہ صرف چائے تھی، وہ حضرت نے ہمارے سامنے رکھ دی ہم نے چائے بناکرابھی دو گھونٹ لیے ہوں گے ایک شخص ایک خوان لیے ہوئے آیا، حضرت بہت خوش ہوئے اوروہ خوان جس میں انڈے، توس اورمکھن وغیرہ تھے ہمارے سامنے رکھ کربولے یہ لیجیے آپ کی قسمت سے پوراناشتہ آگیا، پھرفرمایا جوچیز جس کی قسمت میں لکھی ہے وہ اس کو ضرور ملے گی خواہ عنوان کچھ بھی ہو مثلاًاگرکسی کی قسمت میں موٹر کی سواری لکھی ہے تووہ موٹر میں ضرور بیٹھے گا چاہے ڈرائیور کی حیثیت سے ہی ہو۔ یہ زمانہ حضرت کے عہدشباب کاتھا، دوہرابدن، درازقامت،نہایت سرخ وسفید، توند نکلی ہوئی، عینک سربینی پر، دوپلیاٹوپی سرپر،ایک لانباکرتہ اورتہمد بدن پر،آنکھوں اورچہرہ بشری سے ذہانت برستی ہوئی،گفتگو میں بڑی روانی اور،مزاح اورخندہ بھی ساتھ ساتھ، بس یہ تھے اس وقت شیخ الحدیث۔ درس دیتے تھے مگرتنخواہ کبھی نہ لی، ایک ان کے والد کاکتب خانہ تھااسی پرگذربسر تھی۔
اس کے بعد دہلی،علی گڑھ اورسہارنپور میں بارہا خدمت سامی میں حاضری کاشرف حاصل ہوا اوروامابنعمۃ ربک فحدث کی تعمیل میں عرض کرتاہوں کہ ہرمرتبہ جب میں حاضر ہواحضرت نے میرے ساتھ خصوصی شفقت ومحبت کاوہ معاملہ کیاجو میں نے کسی کے ساتھ نہیں دیکھا۔ معمول یہ تھا کہ حضر ت مجمع میں بیٹھے ہوئے ہیں اورمیں وہیں پہنچ گیا تواگر فرش پرگاؤ تکیہ سے لگے تشریف فرما ہیں توفوراً مجھ کو اپنے قریب بلایا اورپھرمیرا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس اوراگر مسہری پر ہوئے تو مسہری پربیٹھالیا۔جنوبی افریقہ میں بھی حضرت نے یہی معاملہ کیا مجھے شرم آتی اورکبھی عرض کرتا کہ حضرت بڑے بڑے علماء،مفتی اورمشائخ آپ کی مسہری کے اردگرد نیچے فرش پربیٹھے ہوئے ہیں، مجھے برالگتاہے، اجازت دیجیے کہ نیچے ہی بیٹھ جاؤں مگر حضرت میراہاتھ پکڑ کر اصرارفرماتے کہ نہیں آپ کا مقام یہی ہے آپ یہیں میرے پاس بیٹھیے، پھر گفتگو نہایت شفقت اوربے تکلفی سے فرماتے جس کوسب سنتے تھے، اسی درمیان میں کوئی بات راز فرمانی ہوتی تومجھ کو اور قریب بلاکرچپکے چپکے کان میں فرماتے، ادھر یہ گفتگو ہوتی اورساتھ ہی انواع و اقسام کی لذیذچیزیں فرمائش کرکے طلب کرتے اورباصرار مجھے کھلاتے رہتے اﷲ اکبر! اک فاسق و فاجر اور ایسی کراماتیں۔
کئی برس کی بات ہے حضرت بستی نظام الدین اولیاء نئی دہلی میں قیام پذیر تھے۔ عصر کے بعد کاوقت تھا،میں حاضرہوا۔ آپ اس وقت فرش پرگاؤ تکیہ کے سہارے تشریف فرما تھے اور ایک بڑا مجمع سامنے تھا۔میں مجمع کے قریب پہنچا اورحضرت کی نگاہ مجھ پرپڑی توفوراً اپنے خدام کوآپ نے اشارہ کیا اوران خدام نے بڑی پھرتی سے آپ کواٹھاکر پیچھے والے کمرہ میں ایک مسہری پرگاؤ تکیہ سے لگاکربیٹھادیا۔اب حضرت نے مجھے بھی اپنے پاس بٹھا لیا، یہاں تنہائی تھی، موقع پاکر میں نے عرض کیا:’’حضرت!میراجی آپ سے بیعت کرنے کو چاہتاہے لیکن بیعت کامقصد حاصل کرنے کے لیے جوفراغت اوریکسوئی درکار ہے وہ مجھے حاصل نہیں ہے اورکوئی بھی کام محض رسماً کبھی بھی نہیں کرتا۔‘‘ فوراً ارشاد ہوا: ’’میں آپ کو خوب جانتا ہوں آپ کو بیعت ہونے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے، البتہ اپنے شب وروز کے چوبیس گھنٹوں میں سے صرف آدھ گھنٹہ مجھ کو دے دیجیے۔‘‘ میں نے اقرار کرلیااور حضرت نے چند معمولات بتادئیے میں نے انھیں گرہ میں باندھ لیا، پھرکیاہوا؟وہ کسی سے کہنے کی بات نہیں ہے۔
ایک مرتبہ آنکھ بنوانے کی غرض سے علی گڑھ تشریف لائے، عصر کے بعد میں حاضرہوا، حضرت فرش پر گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اورلوگوں کاہجوم تھا، مجھ کو حسب معمول اپنے قریب قالین پربیٹھالیا اب گفتگو شروع ہوئی۔میں نے پوچھا ڈاکٹر نے آنکھ کامعائنہ کیا؟فرمایا:جی ہاں!معائنہ کیا اورکہتاہے کہ آنکھ آپریشن کے لیے بالکل تیار ہے پرسوں آپریشن ہوجائے گا۔‘‘اس کے بعد فرمایا: ’’مگرایک اشکال پیداہوگیاہے۔ــ‘‘عرض کیا:’’وہ کیاہے؟‘‘ارشادہوا:’’مولانا محمد منظور نعمانی کاخط آیاہے اوراس پرعلی میاں کی تصدیق بھی ہے کہ یہ ستمبر کامہینہ آپریشن کے لیے ناموزوں ہے،آپ نومبر یادسمبر میں کرائیں۔‘‘یہ کہہ کر آپ نے خط منگوایا اورپڑھوا کرسنایا‘‘ اس وقت حاضرین سب خاموش تھے۔ آخر میں نے ہی جرأت کی اورعرض کیا:حضرت!یہ بتائیے کہ آپ مریض ڈاکٹر شکلا (ماہر امراض چشم)کے ہیں یامولانا نعمانی اورعلی میاں کے؟ ارشادہوا: ڈاکٹر شکلا کا۔ میں نے گذارش کی:توپھر آپ جس کے مریض ہیں بات اسی کی ماننی چاہیے، میرے یہ کہنے پرحضرت بہت خوش ہوئے اورفرمایا:سبحان اﷲ!کیاحکیمانہ بات کہی ہے کہ آپ جس کے مریض ہیں اسی کی بات ماننی چاہیے۔حضرت پرمیرے اس قول کااتنا اثرہوا کہ دوسرے دن نماز عصر کے بعد لوگوں کوخطاب کیاتواس میں پھرمیرا یہ قول دہرایا۔ڈاکٹر کی رائے کے مطابق دوتین دن کے بعدآنکھ کاآپریشن ہوااورخدا کے فضل وکرم سے بہمہ وجوہ کامیاب رہا۔
باخبر اصحاب کومعلوم ہے حضرت نے ایک رسالہ’’ فتنۂ مودودیت‘‘ کے نام سے تحریر فرمایا تھا، آپ نے ایک نسخہ میرے پاس بھی بھجوایا اوربرہان میں تبصرہ کی خواہش فرمائی۔ حضرت کی خواہش میرے لیے حکم کادرجہ رکھتی تھی جس کی تعمیل ضروری تھی، لیکن دوسری طرف ارشاد نبوی:المستشارموتمن کاتقاضا تھا کہ جو بات میں حق سمجھتا تھا اس کابرملا اظہار کروں، چنانچہ میں نے تبصرہ لکھااور حضرت کی رائے سے اختلاف کااظہار کیا،حضرت نے میراموقف تسلیم کیایانہیں؟اس کا علم تونہ ہوسکا،البتہ مدینہ طیبہ سے آپ نے ایک مکتوب گرامی میں میری جرأت اظہار رائے کی داد دی اوردعائیں لکھیں۔ اس کے بعد بارہا خدمت میں حاضر ہوا ہوں مگر کیامجال کہ حضرت کی غیر معمولی شفقت میں،میں نے کوئی ادنیٰ ساتغیر بھی محسوس کیاہو۔اس سے بہت پہلے جماعت اسلامی ہی کے بارے میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی سے بھی مجھ کو اختلاف ہواتھا اورآپ کابھی معاملہ یہی رہا بلکہ مجھے معلوم ہواکہ مولانا کے ایک مرید نے میرے خلاف ایک سخت مضمون لکھا مولانا کواس کاعلم ہواتو مضمون نگار پرسخت خفا ہوئے اورمضمون تلف کرا دیا۔ عبرت کامقام ہے، ایک یہ بزرگان دین تھے جواپنے نیازمندوں کے اختلاف رائے کو کس عالی حوصلگی اور فراخدلی سے انگیز کرتے تھے اور ایک آج کل کے حضرات ہیں کہ آپ نے ذراان سے اختلاف کیا اورآپ ان کے دشمن قراردے دیے گئے۔
بہ بیں تفاوت رہ از کجا است تابکجا
بہرحال اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اس دور میں حضرت شیخ الحدیث کی ذات گرامی آیۃ من آیات اﷲ اور ایک حجت ربانی تھی۔جتنا باطنی وروحانی فیض اس زمانہ میں آپ سے پہنچا کسی سے نہیں پہنچا۔حضرت نظام الدین اولیاء کی طرح عجیب دلآویز ودلکش شخصیت تھے۔ دکھ اوردرد کے مارے لوگ آتے اور آپ کو دیکھتے ہی سارے غم بھول جاتے اورتسلی وتشفی پاتے تھے، آپ پرنظر پڑتے ہی خدا یادآتا اورعشق ومحبت نبوی کی لہریں دل میں دوڑنے لگتی تھیں۔
اہل دنیا کے لیے ایک مومن کامل اور عارف باﷲ کی بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ شاہی میں فقیری کرتاہے اورفقیری میں شاہی، حضرت کی زندگی اس کی بہترین مثال تھی، آپ کا وجود سرتاسرخیروبرکت اوربے شبہ ایک موہبت الہٰی تھا۔اب دنیااس سے محروم ہوگئی،یہ عالم اسلام کابڑاالمیہ ہے۔ تدفین جنت البقیع میں ہوئی، جہاں اکابر صحابہ آسودۂ خاک ہیں۔
الارواح جنودبجندہ کے ارشادگرامی کے مطابق عالم ارواح میں توہم جنس روحوں میں ربط واتصال ہوتا ہی ہے لیکن اب معلوم ہواکہ عالم آب وگل میں اگرجسمانی اتصال نہیں ہوسکتا توبعد وفات کم ازکم مٹی سے مٹی مل جاتی ہے اوراسی لیے کسی شاعر نے کہا ہے۔ ع پہنچی وہیں پہ خاک کہ جس کاخمیرتھی
رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ۔ [جو ن ۱۹۸۲ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...