Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > پیر سید حسام الدین راشدی

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

پیر سید حسام الدین راشدی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338814

Access

Open/Free Access

Pages

182

پیرسید حسام الدین راشدی
افسوس ہے کہ گذشتہ ماہ اپریل میں ہمارے دوعزیز و محترم دوست اور برصغیر کے نامور محقق اورعالم پیر حسام الدین راشدی اورمولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی رحلت فرما گئے۔ اناﷲ واناالیہ راجعون۔ اوّل الذکر کاانتقال لندن میں ہوا جہاں وہ کینسر کاآپریشن اورساتھ ہی دل کی بیماری کاعلاج کرانے کی غرض سے مقیم تھے اور تدفین سندھ کے ان کے اپنے آبائی وطن کے قبرستان میں ہوئی اور موخرالذکر کاانتقال کراچی میں ہوا اوریہیں تدفین بھی ہوئی۔
پیر صاحب لاڑکانہ کے بہمن نامی ایک قصبہ میں۲۰ستمبر۱۹۱۱ء کوسندھ کے نامی گرامی خاندان راشدیہ میں پیداہوئے، علمی ذوق موروثی تھا، دولت وثروت میں بھی یہ خاندان ممتاز تھا۔ذہانت اورطباعی کاجوہر خداداد رکھتے تھے اس لیے از خود تعلیم کی طرف راغب ہوئے اورفارسی اردو اورسندھی زبان وادب کے نامور ادیب،محقق اورمصنف بنے، عربی اورانگریزی سے بھی واقف تھے۔ ذاتی کتب خانہ جو اباً عن جداٍ تک پہنچتا تھا مطبوعات کی کثرت کے ساتھ نوادرمخطوطات پرمشتمل پہلے سے تھا ہی، مرحوم نے اپنی ذاتی کاوش اورتلاش وجستجو سے اس پر جونہایت وقیع اضافہ کیا اس کی وجہ سے آج تک یہ کتاب خانہ کراچی کے کتب خانوں میں ایک خاص مرتبہ ومقام رکھتا ہے۔ پیرصاحب عمر بھر مجرد رہے، ان کا شب و روز کا مشغلہ مطالعہ،تحقیق وتصنیف اوراحباب سے ملاقات کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ ان کے علمی اورتحقیقی کارناموں پرانشاء اﷲ برہان میں عنقریب ایک مقالہ شائع ہوگا ان سطور سے مقصد صرف رسم تعزیت اداکرناہے۔
کراچی اربابِ علم وادب اوراصحاب دانش وہنر کی کثرت کے باعث آج کل برصغیر کاقرطبہ وبغداد بنا ہواہے لیکن ایک پیرسید حسام الدین راشدی اور دوسرے مشفق خواجہ، اس مجمع علم وفضل میں دونوں کامرتبہ ووقار ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی ایک بزرگ خاندان کاہوتاہے۔ مشفق خواجہ اوران کے خاندان سے راقم الحروف کاتعلق بہت دیرینہ اورعزیزانہ ہے۔ گزشتہ سال مارچ۱۹۸۱ء کی ۱۶/ تاریخ کوجب میں اسلام آباد اورلاہور سے فارغ ہوکر کراچی پہنچا اورخواجہ صاحب سے ملاقات ہوئی تو۲۱/مارچ کوانھوں نے ایک نہایت مکلف اورعظیم الشان ڈنر دیا۔ جس میں کراچی کے مشاہیر علم وادب کابڑااچھا مجمع تھا اورانڈیا کے مندوبین میں سے سید صباح الدین عبدالرحمن اورڈاکٹر نثاراحمد فاروقی بھی شریک تھے۔ پیر سید حسام الدین راشدی سے اس اجتماع میں ملاقات ہوئی توغیر معمولی التفات وتوجہ اور بڑی بے تکلفی اورمحبت سے ملے، مجھ کویاد نہیں تھا کہ اس سے پہلے ملاقات کب اورکہاں ہوئی ہے، لیکن انھوں نے یاد دلایا کہ میری اور ان کی پہلی ملاقات ۱۹۶۹ء میں کراچی میں لیفٹنٹ کرنل خواجہ عبدالرشید کی کوٹھی پرایک ڈنر میں ہوئی تھی اس کے علاوہ اوربہت باتیں ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مختصر صحبت میں پیر صاحب نے اپنے حسن واخلاق کاگرویدہ بنا لیا، چنانچہ۲۰/ستمبر کوجنوبی افریقہ سے واپسی میں پھر دوبارہ کراچی پہنچا توایک دن فون پرگفتگو کے بعد مکان پرحاضر ہوا، بڑے تپاک سے ملے، پھر ایک دن ڈنر پرمدعو کیا۔میں نے ہرچند معذرت کی مگر کسی طرح راضی نہ ہوئے، آخر۲۸/ستمبر کوشب سواآٹھ بجے ان کے ہاں نہایت متنوع اورمکلف ڈنرہوا۔جس میں کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ، علمی اور ادبی اداروں کے ذمہ دار حضرات اور نامور ارباب قلم مدعو تھے، خواتین میں چند ایرانی خواتین بھی تھیں۔ یہ شاندار ضیافت اور اس کااس درجہ اہتمام!یہ سب کچھ تو رہا ایک طرف!سب سے زیادہ میں جس چیز سے متاثرہوا وہ یہ تھی کہ پیرحسام الدین راشدی دل اورکینسر،ان دونوں جان لیوابیماریوں کے پرانے بیمار تھے، دل کاشدید دورہ دومرتبہ پڑچکا تھا اورکینسر کاحال یہ تھا کہ اس کے پانچ آپریشن کراچی میں اورچھٹا آپریشن ماسکو میں ہوچکے تھے اوراب ساتواں آپریشن لندن میں ہونے والاتھا، اس کی تیاری ہورہی تھی۔آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جوشخص اس قسم کا بیمار ہواس کاکیاحال ہونا چاہیے لیکن یقین کیجیے پیرصاحب تین ساڑھے تین گھنٹے مسلسل ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھے گفتگو اپنے خاص انداز میں کرتے رہے، کھانے میں شریک ہوئے اورمہمانوں کی خاطر تواضع کرتے رہے، اس وقت انھیں دیکھ کر ایک ناواقف آدمی اس کاوہم بھی نہیں کرسکتا تھا کہ وہ بیمار بھی ہیں،لیکن میں تو اس سے واقف تھاہی، اس لیے تقریب کے ختم پرجب میں ان سے رخصت ہوا تو بڑی محبت اور گرم جوشی سے بغلگیر ہوکر بولے: ’’بس غالباً یہ ہماری آخری ملاقات ہے‘‘، میرادل بھرآیا اور آبدیدہ ہوگیا، تاہم ان کوتسلی دی اوربیساختہ ان کے لیے دل سے دعائیں نکلیں۔ پیرسید حسام الدین چلے گئے، لیکن اپنے غیر معمولی اخلاق،شرافت اورمحبت وہمدردی کے جوگہرے نقوش دلوں پر چھوڑ گئے ہیں وہ ہمیشہ ان کی یاد تازہ کرتے رہیں گے۔ [جولائی۱۹۸۲ء]
______________
ضروری تصحیح: برہان بابت ماہ جون [جولائی] کے نظرات میں پیر سید حسام الدین راشدی مرحوم پر جو تعزیتی شذرہ شائع ہوا تھا اسے پڑھ کر لاہور سے عزیزم میاں محمد اسلم سلمہ لکھتے ہیں:
’’آپ سے تعزیت کے مضمون میں چند سہو ہوگئے ہیں:
۱۔ پیر سید حسام الدین راشدی مرحوم کا انتقال لندن نہیں کراچی میں ہوا۔
۲۔ مرحوم کی تدفین ٹھٹھہ میں کوہ مکلی پر مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی کے احاطۂ مزار میں ہوئی۔
۳۔ مرحوم شادی شدہ تھے، اگرچہ لاولد تھے، ان کی اہلیہ اب تک بقید حیات ہیں۔ ‘‘
ازراہِ کرم ناظرین تصحیح فرمالیں__ ایڈیٹر [ستمبر ۱۹۸۲ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...