Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > شیخ محمد عبداﷲ [وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر ]

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

شیخ محمد عبداﷲ [وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر ]
Authors

ARI Id

1676046603252_54338816

Access

Open/Free Access

Pages

184

شیخ محمد عبداﷲ
افسوس ہے کہ گزشتہ ماہ ستمبر کی۸/تاریخ کو شیخ محمد عبداﷲ، وزیر اعلیٰ ریاست جموں وکشمیر کاانتقال۷۷برس کی عمر میں ہوگیا۔ ان کی وفات سے ریاست کی نہایت پیچیدہ سیاسیات میں جو خلا پیداہوگیا ہے اس کا پُرہونا بظاہر ناممکن ہے۔ شیخ صاحب کی شخصیت کتنی قدآور اورکس درجہ بھاری بھر کم تھی اس کااندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ۱۹۵۳ء میں جب کہ وہ ریاست جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ تھے ان کو سینٹرل گورنمنٹ نے اس عہدہ سے برخاست ہی نہیں کیا،بلکہ فوج اورپولیس کی عظیم جمعیت کے زیر سایہ انہیں گرفتار بھی کرلیا۔اس کے بعد مجموعی طورپرکم وبیش اٹھارہ سال شیخ صاحب نے نظربندی اوراسارت میں بسر کیے۔اس سلسلہ میں ان پر سازش کامقدمہ بھی چلایا گیا اورقسم قسم کے الزامات لگائے گئے جوبے بنیاد ثابت ہوئے، لیکن شیخ کی نظر بندی قائم رہی۔شیخ کھلے دماغ اورصاف ذہن کے آدمی تھے، وہ کٹر کشمیری تھے، جوکچھ سوچتے،خالص کشمیر اور اہل کشمیر کے مفاد میں سوچتے اورپھرجو فیصلہ کرلیتے اس پر مضبوطی سے قائم رہتے،کسی قسم کاخوف یاکوئی لالچ اس فیصلہ سے ان کومنحرف نہیں کرسکتا تھا۔ انھوں نے ہندوستان سے الحاق کافیصلہ بھی کسی دباؤ میں نہیں کیاتھا لیکن ساتھ ہی ان کا نظریہ یہ تھا کہ دوسری ریاستوں کے مقابلہ میں کشمیر کے لیے دستوری طورپر چند خصوصی رعایتوں کاحاصل ہونا ضروری ہے نیز یہ کہ کشمیر کامسئلہ برصغیر کی دو حکومتوں کے درمیان جو بس کی گانٹھ بناہواہے اس صورت حال کودوستانہ طریقہ پر ختم ہونا چاہیے کیونکہ جب تک یہ صورت حال قائم رہے گی ریاست جموں وکشمیر کو امن و اطمینان کے ساتھ ترقی کرنے، پھلنے پھولنے کاموقع نہیں ملے گا اور کشمیریوں میں بُعدوافتراق کی دیوار سدِّسکندری بن کر ایسی حائل رہے گی کہ رشتہ داریاں ختم ہوجائیں گی۔
شیخ کی معزولی اوراسارت کے بعد ریاست میں حکومتیں بنتی اور بگڑتی رہیں، سینٹرل گورنمنٹ نے ریاست کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہا دیا مگر کشمیر میں استحکام نہ پیدا ہونا تھا اورنہ ہوا، آخرکار اندرا گاندھی گورنمنٹ نے سابقہ حکومتوں کے بالمقابل حقیقت پسندی کاثبوت دیااورشیخ کو ۱۹۷۳ء میں پھر ریاست کاوزیراعظم بنادیاگیا۔اب شیخ صاحب دوبارہ وزیراعظم ہوئے تواپنی اسی پرانی آن بان اورانفرادی شان کے ساتھ ہوئے، نیشنل کانفرنس جس کے وہ خود بانی تھے ان کی سب سے بڑی قوت بازو تھی، اس کی مدد سے انھوں نے جنتا گورنمنٹ کے زمانہ میں جنتا پارٹی کو اوراس کے بعد کانگریس (آئی) کوشکست فاش دی۔ شیخ صاحب کوجوبات کشمیر اوراہل کشمیر کے لیے مفید نظرآتی تھی اس کے کرڈالنے میں انہیں کوئی باک نہیں ہوتا تھااوراگر مرکز کواس سے اختلاف ہوتا تو شیخ صاحب اس کی بھی پروا نہیں کرتے تھے۔چنانچہ اس سلسلہ میں ان کی زندگی کاآخری کارنامہ کشمیریوں کی دوبارہ آبادکاری بھی ہے جو انھوں نے ریاستی اسمبلی میں منظور کرایا، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مرکز میں شیخ صاحب کاوقار اوران کا ادب اورلحاظ اس درجہ کاتھا کہ شیخ صاحب پر جب دل کا آخری اورجان لیوا دورہ پڑا تووزیر اعظم خود فوراً اُن کی عیادت کوسری نگر پہنچیں اورچندروز کے بعد انتقال ہوگیا توصدر جمہوریہ، وزیراعظم اور سیاسی پارٹیوں کے رہنما بھی سب جنازہ کے جلوس میں شریک ہوئے۔مرحوم کوعوام میں کس درجہ مقبولیت اورہردلعزیزی حاصل تھی؟اس کااندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ انگریزی اخبارات کی رپورٹ کے مطابق پانچ ملین یعنی پچاس لاکھ انسانوں پریہ جلوس مشتمل تھا۔جس کی وجہ سے رہائش گاہ سے قبرستان تک ۱۲کلومیٹر کاراستہ ۱۰ گھنٹوں میں طے ہوا۔ اور اس جلوس میں کتنے ہی لوگ تھے جوزاروقطار رو رہے تھے اورکتنے ہی وہ تھے جوبے ہوش ہوگئے تھے۔اب فرمائیے کسی شخصیت کے قدآور اوربھاری بھرکم ہونے کا ثبوت اوراس سے زیادہ کیاہوگا۔
ڈوگرہ راج میں اہل کشمیر جس قعرمذلت وپستی اورجحیم غلامی وبندگی میں پڑے ہوئے تھے۔علامہ اقبال کے یہ دوشعر اس کے آئینہ دار ہیں:
کشمیری کہ بابندگی خوگرفتہ
بتے می تراشد زسنگ مزارے
بریشم قبا خواجہ از محنت او
نصیب تنش جامۂ تار تارے
شیخ صاحب پہلے شخص تھے جنھوں نے کمال اخلاص اورقوت وعزم کے ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھائی، اس جرم کی پاداش میں کم وبیش دس برس وہ قید وبند کی زندگی گزار چکے تھے، پھراٹھارہ برس وہ آزادی کے بعد کشمیر کے لیے حکومتِ ہند کی اسارت میں رہے۔گواپنی پوری زندگی کابہترین اورکارآمد زمانہ انھوں نے قید وبند میں گزار دیا۔علاوہ ازیں شیخ صاحب نماز و روزہ اواراد وظائف کے بھی بڑے پابند تھے۔ ہرجمعہ کو نماز کے بعد پابندی سے تقریر کرتے تھے، یہ تقریر اصلاً مذہبی ہوتی تھی مگرضمناًسیاسی مسائل بھی زیر گفتگو آجاتے تھے۔ تقریر میں قرآن مجید کی آیات خوش الحانی سے پڑھتے اورسیرت طیبہ کے واقعات بڑے جوش و خروش سے بیان کرتے تھے اس بناپر کشمیر میں ان کی حیثیت صرف ایک سیاسی لیڈر کی نہیں بلکہ ایک مذہبی رہنما ہی نہیں، پیر و مرشد کی بھی تھی۔ان دونوں حیثیتوں کے بیک وقت اجتماع نے ہی ان کوکشمیر میں اس درجہ ہردلعزیز اورمحبوب بنا دیا تھا۔اگرچہ وہ تمام ترکشمیر کے لیے وقف تھے لیکن ہندوستانی مسلمانوں کے تعلیمی، سماجی اور مذہبی مسائل سے برابر دلچسپی لیتے رہے اوراُن کے اجتماعات میں شریک ہوکر تقریر کرتے تھے، مجلس مشاورت کے توباقاعدہ اوراہم رکن تھے۔ شیخ صاحب نے کشمیر میں سیکولرزم کی جوکامیاب مثال قائم کی تھی وہ مرکز کے لیے حددرجہ عبرت آموز اورسبق آموز ہونی چاہیے جس کی حکومت میں آزادی کے ۳۳ برس بعد آج بھی فرقہ وارانہ فسادات اسی انداز کے ہوتے ہیں جیسے پہلے ہوتے تھے، ان کوروکنے کے لیے گورنمنٹ نے کیا کیا،اسکیمیں بنائیں، مگرہنوز روزاوّل کامعاملہ ہے۔
ہر بڑے انسان میں کچھ کمزوریاں بھی ہوتی ہیں ورنہ وہ بشر ہی کیوں کہلائے۔شیخ صاحب بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں تھے، تاہم اپنی خوبیوں، اوصاف وکمالات اورذاتی اخلاق وشمائل کے اعتبار سے وہ پرانی نسل کے جو اب چراغ سحری ہے، ایک بہترین نمونہ تھے، آئندہ اب ایسے لوگ کہاں ملیں گے۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ۔ [اکتوبر۱۹۸۲ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...