Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

مولانا محمد کفیل فاروقی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338817

Access

Open/Free Access

Pages

185

مولانا محمد کفیل فاروقی
دنیا میں کتنے ہی ارباب علم وفضل اوراصحاب مجدو کمال ہیں جو اپنے وقت کے جید عالم ہوتے ہیں اور بڑے لگن اور خلوص کے ساتھ شب و روز درس و تدریس، مطالعہ اورتصنیف وتالیف میں مشغول رہتے ہیں لیکن شہرت ونام ونمود کی دنیاسے الگ تھلگ رہنے کے باعث ان کے کمالات کاعلم صرف ان چند لوگوں کو ہوتاہے جواُن کے حلقۂ احباب یا حلقۂ تلامذہ میں شامل ہوتے ہیں۔ان کے علاوہ کسی کو خبربھی نہیں ہوتی کہ وہ کس پایہ کے عالم وفاضل تھے ان کامطالعہ کتنا وسیع تھااورعلمی وفنی مباحث ومسائل میں ان کی دقت نظر کاکیاعالم تھا۔
اسی قسم کے’’چھپے ہوئے رستم‘‘لوگوں میں سے راقم الحروف کے نہایت عزیز دوست اورمدرسہ عالیہ کلکتہ کے زمانے کے رفیق کار مولانا محمد کفیل فاروقی تھے جو کم وبیش۷۷برس کی عمر میں ایک طویل علالت کے بعد اپنے وطن حبیب والہ بجنور(یوپی)میں گذشتہ اگست کی۱۸/تاریخ کوداعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم اپنے وطن کے ایک خوشحال اورزمیندار گھرانہ کے چشم وچراغ تھے۔ان کے والد منشی محمد عبداﷲ وکالت کاپیشہ کرتے تھے اوراس میں کامیاب تھے۔ مگر تھے نہایت متشر ع اوردیندار۔ایک دن اچانک خیال آیا کہ اﷲ تعالیٰ نے تھوڑی بہت جاگیر وجائیداد کے ذریعہ روزی کاانتظام توکرہی رکھاہے توپھرجھوٹ کوسچ اورسچ کوجھوٹ دکھانے کی شعبدہ بازی کی کیا ضرورت۔ وکالت کاپیشہ ترک کردیااور اپنا وقت مطالعہ اورعبادت وخلق خدا کی خدمت میں بسر کرنے لگے۔نہایت متواضع اورمہمان نواز تھے۔
مولانا محمدکفیل فاروقی۱۹۰۴ء کوپیداہوئے۔ابتدائی تعلیم عربی فارسی کی گھر میں ایک اتالیق کے ذریعہ اورپھر نیگہنہ کے ایک عربی مدرسہ میں پائی۔اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیااوردورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔ الہٰ آباد یونیورسٹی سے عالم فاضل اورکامل کے امتحانات بھی پاس کیے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد لاہور کے کسی اخبار میں ایڈیٹر ہوگئے۔ڈیڑھ دوبرس بعد وطن واپس آکرمختلف مدرسوں میں درس وتدریس کاکام کرتے رہے۔اس سلسلہ میں ایک برس دارالعلوم دیوبند میں بھی درس کی خدمت انجام دی۔
۱۹۴۴ء میں درس قرآن کی خدمت پرکلکتہ کی مشہور مسجد کولوٹولہ اسٹریٹ سے وابستہ ہوئے، پھر۱۹۴۹ء میں تقسیم کے بعد مدرسۂ عالیہ کلکتہ کااجرا ہواتومرحوم یہاں فقہ اورحدیث کے استاد مقررہوئے۔میرے اوران کے تعلقات کا آغاز یہیں سے ہوا،جولائی۱۹۶۹ء میں یہاں سے سبکدوش ہوکر وطن چلے آئے۔ اُن کا خاندانی کتب خانہ بڑا شاندار اور مطبوعات ومخطوطات پرمشتمل تھا، شب و روز مطالعہ میں مصروف رہنے لگے۔ مرحوم خوش تقریر،واعظ شریں بیاں، حددرجہ بذلہ سنج اورخوب گفتار توتھے ہی ان کی علمی استعداد بھی بڑی پختہ تھی ان کو تفسیر، حدیث، فقہ،شعروادب اورتصوف سب سے یکساں مناسبت تھی۔
عربی،فارسی اوراردو تینوں زبانوں کے شاعر تھے۔تصنیف وتالیف کابھی ذوق تھا۔ایک ضخیم کتاب’’بنگال کے اردو شاعروں کے تذکرہ میں‘‘ انھوں نے بڑی محنت اورتحقیق وتلاش سے مرتب کی تھی جس پرکلکتہ یونیورسٹی کے پروفیسر عطاء کریم برق نے مقدمہ اورمیں نے پیش لفظ لکھا تھا۔عربی میں ان کی ایک کتاب’’المدلل فی اصول الفقہ‘‘ہے۔فارسی میں ان کی ایک مثنوی’’نغمۂ فردوس‘‘ہے جوساڑھے تین سواشعار پر مشتمل ہے اوراس میں تصوف کے نہایت قیمتی مضامین اور دقیق مسائل بیان کیے گئے ہیں۔آخر عمر میں ان کوتصوف سے بڑی دلچسپی پیداہوگئی تھی اوراس سلسلہ میں شیخ اکبر کی فتوحات اورمجدد الف ثانی کے مکتوبات سب کوہضم کرگئے تھے۔تصوف پرحضرت شاہ ولی اﷲ کی تصنیفات پربھی اُن کی بڑی اچھی نظر تھی، علی گڑھ اکثرآتے اورمیرے پاس گھنٹوں بیٹھتے مگر جب وہ تصوف کے اسراروغوامض پربولنا شروع کردیتے توجھوم جھوم کر مسلسل تقریر کرتے اوردرمیان میں اشعار بھی پڑھتے جاتے تھے۔ برہان کے شروع سے خریدار اوراس کے بڑے قدرداں تھے، ایک ایک پرچہ محفوظ کرکے رکھتے تھے۔ چنانچہ وفات کے بعد ان کے کتب خانے سے شروع سے اب تک کی برہان کی مکمل جلدیں ملی ہیں۔ اوراب میں نے ان کے کتب خانہ کی فہرست دیکھی تواس میں نوادر مخطوطات کاخاصا ذخیرہ دیکھ کرحیران رہ گیا۔ان کی تصنیفات جن کا ذکر ہوااب تک غیرمطبوعہ ہیں اگرکوئی ادارہ انہیں شائع کرناچاہے تو مجھے لکھے۔غرض کہ بڑی خوبیوں اور کمالات کے انسان تھے۔مہمان نوازی اورکشادہ دستی انھیں ورثہ میں ملی تھی۔اچھا کھاتے اوراچھا کھلاتے تھے۔
اس میں باپ دادا کی جائداد پراضافہ توکیاکرتے توجوکچھ بھی تھی اسے بیچ باچ کر برابر کردیا۔پس ماندگان میں ایک بیوہ،دوبیٹے اوردوبیٹیاں ہیں۔دونوں بیٹے مدرسۂ عالیہ کلکتہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ایک حبیب والہ میں مطب اور دوسرے علی گڑھ میں کاروبار کررہے ہیں بیٹیاں دونوں شادی شدہ ہیں اوراپنے اپنے گھرخوش! رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ۔ [س، نومبر۱۹۸۲ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...