Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

ڈاکٹر محمد نورالنبی
Authors

ARI Id

1676046603252_54338819

Access

Open/Free Access

Pages

187

ڈاکٹر محمد نورالنبی
سخت افسوس ہے کہ ہمارے نہایت فاضل دوست اورمسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نامور استاد فلسفہ ڈاکٹر محمد نورالنبی۷/جنوری۱۹۸۳ء کوانتقال کرگئے۔ مرحوم دسمبر۱۹۸۲ء میں ایک سمینار کی شرکت کی غرض سے امریکہ گئے تھے جووہاں نیوایرا (NEW ERA)سوسائٹی کی طرف سے منعقد ہوا تھا۔ (اس سمینار میں شرکت کی دعوت راقم کوبھی ملی تھی اوراس کو منظور کربھی لیا تھا لیکن وقت کے وقت ارادہ فسخ کرنا پڑا) وہاں ان کے پیر میں ایک زخم ہوا،مرحوم ذیابیطس کے پرانے بیمار تھے، ڈاکٹروں نے اس زخم کو خطرناک بتایا یہ علی گڑھ سے واپس آکر یونیورسٹی کے میڈیکل میں داخل ہوئے۔
مرض میں بظاہر افاقہ ہورہا تھا مرحوم بھی پُرامید تھے۔ نماز،روزہ کے سخت پابند تھے۔۶/جنوری کوعشاء کی نماز اداکرکے لیٹے، کچھ دیر تک ہنسی خوشی حاضر الوقت تیمارداروں سے بات چیت کی پھر نیندآگئی۔مگریہ نیند خوابِ مرگ ثابت ہوئی۔صبح کوان کی بیٹی نمازفجر کے لیے اٹھانے گئی تو وہاں کچھ نہ ملا اورروح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔اناﷲ وانا الیہ راجعون
ولادت:مرحوم کے والد ماجد کانام، جوبڑے دیندار اورگھر کے خوشحال تھے حاجی شیخ محمد حنیف تھا۔۳۱/دسمبر۱۹۲۹ء کوضلع بھاگلپور(بہار)کے ایک گاؤں کہلنائی میں پیداہوئے۔دینیات اوراردو فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پرہوئی۔ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات پٹنہ یونیورسٹی سے پاس کیے۔ بی۔اے بہاریونیورسٹی سے کیا۔ پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آگئے، یہاں سے امتیاز کے ساتھ فلسفہ میں ایم اے اور ایل ایل۔بی ایک ساتھ کیا۔ ۱۹۵۴ء میں فلسفہ میں پی ایچ۔ ڈی کلاس میں داخلہ لے کرپروفیسر عمرالدین مرحوم کے زیرنگرانی ریسرچ کاکام کیا،اس کی تکمیل کے بعد شعبہ میں لیکچرر ہوگئے۔انتقال کے وقت ریڈر تھے اور جلدہی پروفیسر ہونا متوقع تھا۔
مرحوم کاخاص موضوع فکروتحقیق فلسفۂ اسلام تھا، چنانچہ پی ایچ۔ ڈی کے لیے ان کے تحقیقی مقالہ کاموضوع بھی’’تیرھویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں اسلام کاارتقاء‘‘ تھا۔یہ مقالہ بعد میں یونیورسٹی کی طرف سے چھپ گیا تھا اوراسی زمانہ میں برہان میں اس پرتبصرہ ہواتھا۔ اس کے بعد غالباً ان کی کوئی اورکتاب تو نہیں چھپی لیکن انگریزی میں زیادہ اوراردو میں کم،انہوں نے مقالات کثرت سے لکھے جو ملک اوربیرون ملک کے بلندپایہ علمی مجلات ورسائل میں شائع ہوئے اور ارباب علم ودانش سے خراج تحسین حاصل کیا۔برہان جس کے وہ بے حد قدر دان تھے اس میں بھی ان کے چند مقالات شائع ہوچکے تھے۔وہ ہند اوربیرون ہند کے سمیناروں میں بھی کثرت سے شریک ہوئے اور وقیع مقالات پڑھے۔
۱۹۷۵ء میں چند مہینوں کے لیے امریکہ کی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر ہوکر بھی گئے اوراسلامی فلسفہ وتصوف پرلیکچردئیے۔شیخ محی الدین ابن عربی،امام غزالی اورعلامہ اقبال کاخصوصی مطالعہ کیا تھا۔اس کے علاوہ فلسفہ میں نظریۂ وجودیت کے بڑے مبصراورنقاد تھے۔عقیدہ اورعمل کے اعتبار سے کٹر مسلمان تھے۔ متعدد سیمناروں میں دیکھا ہے کہ کسی نے اسلام کے خلاف کوئی بات کہہ دی اور مقالہ ختم ہونے کے بعد اس کی تردید کے لیے مرحوم فوراًکھڑے ہوگئے ہیں۔ اخلاق وعادات کے اعتبار سے بڑے شگفتہ طبع اورخندہ جبیں تھے۔راقم الحروف کے بڑے مخلص دوست تھے۔پس ماندگان میں ایک بیوہ،دوبیٹیاں اوردوبیٹے ہیں۔بڑابیٹا عراق میں انجینئر ہے اﷲ تعالیٰ مرحوم کو مغفرت وبخشش کی نعمتوں سے نوازے اورپسماندگان کاحامی وناصر ہو۔آمین [مارچ۱۹۸۳ء]
___________________

ڈاکٹر نورالنبی صاحب۷؍جنوری ۱۹۸۳ء کواس دارفانی سے کوچ کرگئے، مرحوم ۳۱؍ دسمبر ۱۹۲۹ء کوبہار میں پیدا ہوئے، انھوں نے ۱۹۵۲ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے بی۔اے آنرس،فلسفہ میں کیا، اور ۱۹۵۴ء میں علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ اے کاامتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا، ۱۹۵۸ء میں موصوف نے مسلم یونیورسٹی علی گڈھ ہی سے ڈاکٹر عمرالدین مرحوم کی نگرانی میں Ph.D کی ڈگری حاصل کی ۔اس کے بعد مسلم یونیورسٹی میں ۱۹۵۷ء میں لکچرر مقرر ہوئے اور ؟۱۹۹ء میں ڈاکٹرصاحب یہاں ہی ریڈرہوگئے۔
ڈاکٹرصاحب نے Visiting Professorکی حیثیت سے اولڈ ڈومیشن Old Domitionنارفاک (Narfalk) شکاگو ڈیاب (Deab) اور مسلم کمیونٹی سینٹر شکاگو(امریکہ) میں لیکچر دیے۔ مرحوم نے فلسفہ اورمذہب سے متعلق کم وبیش ۲۲ کانفرنسوں میں شمولیت فرمائی جوہندو ستان اور بیرونی ممالک مختلف جگہوں پر منعقد ہوئیں۔ڈاکٹرصاحب کے چالیس سے زیادہ مقالات مختلف فلسفیانہ مذہبی ،دینیاتی اورصوفیانہ موضوعات پر ہندوستان اوردنیا کے مشہور علمی رسالوں میں چھپے ۔آپ کی تین باقاعدہ کتابیں ہیں ان کی کتاب ____ علمی حلقوں میں خاصی مقبول ہوئی۔ مرحوم حال ہی میں ا مریکہ میں کئی کانفرنسوں میں شمولیت کی غرض سے تشریف لے گئے تھے، وہاں ہی ان کے بائیں پاؤں میں زخم ہوگیا، اورذیابیطس کے مرض میں پہلے ہی سے مبتلا ہونے کی وجہ سے اس زخم نے خطرناک صورت اختیارکرلی اور آخرکار یہی ڈاکٹر صاحب کی زندگی کاآخری زخم ثابت ہوا۔
نورالنبی صاحب کامنصوبہ تھاکہ وہ مسلم فلسفہ اوراسلامی تصوف کے اصلی ماخذ تک رسائی کے ذریعہ سے مسلمانوں کے عظیم علمی کاموں اورکارناموں کی از سرنو تفتیش کاگراں بار کام انجام دیں۔ اس سلسلے میں آپ نے مختلف موضوعات جیسے ارسطو اورابن رشد،شاہ ولی اﷲ دہلوی ،مجدّد الف ثانی ؒ ،شاہ ہمدان میرسیدعلی ہمدانی، گیسو دراز ،بابافرید صاحبؒ ،محمد جائسی وغیرہ جیسی اہم اور عہد ساز شخصیتوں اور ان کے فلسفوں اورتعلیمات کواپنی صحیح اوراصل صورت میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے کام کاآغاز بھی کرایا تھا۔اس کے علاوہ مرحوم کے پیش نظر غزالی کی ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ کے تنقیدی جائزے اورابن عربی کے فلسفہ ’’وحدۃ الوجود‘‘ پرکام کے بھی منصوبے تھے کیونکہ آپ کاخیال تھاکہ لوگوں نے ابن عربی کوغلط انداز سے سمجھنے کی کوشش کی ہے وہ کہتے تھے کہ اگران کے فلسفہ کے اصل ماخذ سے مدد لے کرجائزہ لیا جائے توان کے متعلق شکوک وشبہات دور ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ابن رشد کی کتاب ’’فصل المقال‘‘ کااردو میں ترجمہ کرایا، اس پروجیکٹ کے لیے U.G.Cنے گرانٹ بھی منظور کرلی تھی۔ مگرنہ معلوم قدرت کوکیا منظور تھاکہ ڈاکٹر نور النبی صاحب صرف ۵۲سال کی عمرمیں ان تمام اہم منصوبوں کوادھورا چھوڑ کراﷲ کوپیارے ہوگئے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم بہت سے محاسن حسنہ کامجسّمہ تھے، سب سے بڑی خوبی جوان میں تھی وہ یہ تھی کہ ان کواپنے مذہب ،اپنی تہذیب اوراپنے شاندار علمی ورثے کی عظمت کااحساس اور اس کے احیاء کا جذبہ تھا ۔وہ مغرب کے فلسفہ اور علوم جدید میں اس کی ترقی سے مرعوب نہیں تھے،یہی وجہ ہے کہ فلسفہ پڑھنے اور پڑھانے کے باوجود انھوں نے کبھی بھی مذہب اور تصوف کے موضوع کوہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ ہرموقع پر فلسفہ کی مدد سے مذہب کو جاندار انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ مغرب کے اندھے مقلد نہ تھے،بلکہ اس کے برعکس ان کواپنے مذہب اپنی تہذیب اوراپنے اسلاف کے کارناموں کے ساتھ ایک والہانہ لگاؤ تھا، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے حکمت اور فلسفہ کے ان سرچشموں کاکھوج لگانا شروع کیاتھا جوہمارے مسلمان حکماء اور فلاسفہ نے بڑی کاوش اور محنت سے فراہم کیے ہیں۔نورالنبی صاحب مرحوم اِن لوگوں کی طرح نہیں تھے جو احساس کمتری میں مبتلا ہوکراپنے ماضی اورمذہب سے کنارہ کش ہوکر مغرب سے بلند ہونے والی ہر آواز پر فریفتہ ہوتے اور بقول سارتر (Sarter) ان مرعوب دانشوروں کی طرح نہ تھے جواپنے لوگوں کو پیرس،لندن اور امسٹرڈم(Ams Terdum)سے بلندہونے والی آواز PARA, PARATHE, V MUOD, THERWD) پرTHE NIN اور THERWDکی صدائے بازگشت دیتے، اس کے برعکس ان کویقین تھاکہ مسلمان فلسفیوں، حکماء اطباء اور صوفیاء کے کارنامے بذات خود اتنے وقیع اور قابل قدر ہیں کہ یہ ہم کو مغرب کے تمام ملحدانہ اورمادہ پرستانہ فلسفوں سے نہ صرف بے نیاز کرسکتے ہیں بلکہ ہماری ہمہ جہت ترقی اورکامیابی کے محرک بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ڈاکٹر مرحوم کایہ بھی اذعان تھا کہ موجودہ علوم وفنون اورفلسفہ میں مغرب نے جوترقی کی ہے اس کی بنیاد سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی رکھی تھی اورمغرب نے اسی بنیاد پر اپنے علمی کارناموں کومرتب کیا۔ مگر اپنے اولین معلمین مسلمانوں کے بجائے ساری علمی ترقی کاسہرا اپنے سر باندھنا چاہا، یہی وجہ تھی کہ نور النبی صاحب چاہتے تھے کہ مسلم فلسفہ اوردوسرے علوم کواپنے بنیادی ماخذ(Original sources) سے حاصل کرکے تحقیق وتفتیش کے بعد دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ مسلمان مرعوبیت اوراحساس کمتری سے نکل کر اپنے تہذیبی اور مذہبی ورثے کونہ صرف محفوظ رکھ سکیں بلکہ اس کو اور ترقی بھی دے سکیں۔
مرحوم ڈاکٹر صاحب دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں پر ٹوٹنے والی مصیبتوں اور مظالم کی خبریں سن کر بے چین ہوجاتے تھے،اوروہ باقاعدہ دنیا کے حالات اور خصوصاً مسلمانوں کے حالات سے مکمل آگہی رکھتے تھے،اور جب کبھی ان کو موقع ملتا کہ وہ ان حالات پر تبصرہ کریں توان کے دلسوزی اورہمدردی میں ڈوبے ہوئے الفاظ سامعین کے دلوں کو چھو جاتے تھے،اوران میں خودبخود کچھ کرنے جذبہ بیدار ہوجاتاتھا۔اس کے علاوہ مرحوم غریبوں ،مسکینوں اور فورتھ گریڈ ملازمین طبقہ کے ساتھ بہت ہمدردی رکھتے تھے ،اور انکے دکھ درد میں برابر کے شریک حال رہاکرتے تھے نہ صرف خود ان کی مدد کرتے بلکہ اپنے سے وابستہ گوناگوں قسم کے لوگوں اور شاگردوں کوبھی ان کی مدد کرنے پر ابھارتے تھے۔ اپنے شاگردوں کی مدد کرنا، ان کی پڑھائی اوردوسرے کاموں کے متعلق ان کو مشورے دینا اور رہنمائی کرنا، اوران کے ساتھ ان کی اخلاقی ودینی لحاظ سے تربیت کرنا اور ان کی صلاحیتوں کونشوونما دینا ڈاکٹرصاحب کی بہت ساری خوبیوں میں سے چند نمایاں خوبیاں تھیں ۔مرحوم اس شعر کے حرف بہ حرف مصداق تھے:
؂ درغم دیگر بسوز ودیگراں راہم بسوز
محنت اور عمل مرحوم کی زندگی کے دو مستقل اصول تھے ۔وہ نہ صرف اس پر خود کاربند رہتے تھے بلکہ اپنے ساتھ کام کرنے والے تمام لوگوں کو بھی انہی زیورات سے آراستہ کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔
اسلام کے ساتھ نور النبی صاحب کووالہانہ عقیدت تھی،چنانچہ اسلام پر مختلف حلقوں اور مغرب زدہ اور مارکسسٹ’’مسلمانوں‘‘کی طرف سے ہونے والے حملوں کا مرحوم مسکت جواب دیتے تھے۔اپنے شاگردوں کوہروقت ڈاکٹر صاحب اسلام کے ساتھ چمٹے رہنے کی تلقین کیاکرتے تھے،اوراسلامی علوم کے حوالے سے کام کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔رسول اکرمﷺ کی ذات اقدس سے محبت اور عشق تھا، عشق رسول نے آپ کواتنا گرویدہ بنادیا تھاکہ جب بھی کسی کی طرف سے رسول اﷲ یاصحابہ ٔ رسول ﷺ کے بارے میں کسی معمولی قسم کا اعتراض یاان کی شان میں سوئے ادبی کاادنیٰ سا مظاہرہ دیکھتے تو بے چین ہو جاتے تھے اور گرجتی ہوئی آواز میں معترض پر برستے تھے چنانچہ اپنے مرض الموت میں ڈاکٹرصاحب مرحوم راقم اورحیات عامر کوباربار زیارۃ قبرالنبیؐسے متعلق احادیث تلاش کرنے کے لیے کہتے اور جب ہم نے ان کو ’’من زارقبری وجبت لہ شفاعتی‘‘ والی حدیث سنائی تب جاکے ان کواطمینان ہوا۔
آخرمیں ڈاکٹر نورالنبی مرحوم کے متعلق صرف اتناہی کہاجاسکتا ہے کہ وہ اپنے اسلاف کی ایک یادگارتھے،ان کے علمی اورعملی منصوبے اتنے عظیم اوراہم تھے کہ جیسے وہ اسلامی فلسفہ اور تصوف کی ازسر نوتدوین وتجدید کرنا چاہتے ہوں۔ اگرچہ مرحوم اب ہم میں موجود نہیں ہیں۔مگراس کے باوجود ۵۲سال کی مصروف ترین زندگی گزار کرانھوں نے کام کرنے والوں کے لیے نمونہ اور مثال چھوڑی۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کواپنی رحمتوں سے نوازدے اوران کے ادھورے چھوڑے ہوئے مفید علمی کاموں کوآگے بڑھانے کاجذبہ ہمارے دلوں میں پیدا کرے ؂
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ تیری نگہبانی کرے
[حمید نسیم رفیع آبادی ،اگست ۱۹۸۶ء]

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...