Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء > لیفٹننٹ کرنل خواجہ عبدالرشید

وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء |
قرطاس
وفیات برہان جولائی 1938 تا اپریل 2001ء

لیفٹننٹ کرنل خواجہ عبدالرشید
Authors

ARI Id

1676046603252_54338821

Access

Open/Free Access

Pages

189

لفٹنٹ کرنل خواجہ عبدالرشید
عزیزم میاں اسلم سلمہ(پروفیسر محمد اسلم)کا۱۴/مارچ کالکھا ہوا خط ۱۹/ مارچ کو لاہور سے علی گڑھ میں موصول ہواتواس میں لکھا تھا کہ کل یعنی ۱۳/مارچ کو خواجہ عبدالرشید کاانتقال ہوگیا۔پڑھتے ہی جی دھک سے ہوکر رہ گیا اور گزشتہ چالیس برس کے عہد اخوت ومحبت کاایک ایک واقعہ یادآکر دل کو اشک خون رُلا گیا۔اخبارات نے ان کی عمر ستربرس لکھی ہے۔مرحوم خوب تندرست اور توانا تھے لیکن چندبرس سے ان کی بینائی خودبخود کم ہونی شروع ہوئی۔ وہ خود بھی بڑے پایہ کے ڈاکٹرتھے اورنامی گرامی ماہرین چشم سے مشورہ بھی کیا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔مارچ۱۹۸۱ء میں جب ان سے لاہور میں آخری ملاقات ہوئی اس وقت ان کی نگاہ برائے نام رہ گئی تھی، چند ماہ کے بعد ہی نابینا ہوگئے۔ آدمی تھے بے حدحساس، نفسیاتی طورپراس حادثہ کاان کے دل ودماغ اورصحت پرغیر معمولی اثر ہوا۔ آخراس صدمہ اوررنج میں ان پر فشار قلب کا حملہ ہوا۔اسپتال میں داخل کیے گئے، وقت موعود آچکا تھا، چاردن کے بعد انتقال سے چارگھنٹے پہلے کلمہ طیبہ کاورد زبان پر تھا پھرزبان بند ہوگئی اوراسی عالم میں جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔ اناﷲ واناالیہ راجعون۔
ایک عربی شاعر نے اس قسم کے مواقع کے لیے کیاخوب کہاہے
الی اﷲ اشکوالاالی الناس اَنَّنِیْ
اری الارض تبقی والا خلاء تذھب
لوگوں سے نہیں،میں اﷲ سے ہی اس بات کی فریاد کرتاہوں کہ (یہ کیا غضب ہے) زمین تو اپنی جگہ قائم ہے لیکن دوست ہیں کہ ایک ایک کرکے سدھاررہے ہیں۔
مرحوم لاہور کے ایک نامی گرامی خاندان کے چشم وچراغ تھے ان کے برادر بزرگ خواجہ عبدالوحید صاحب مرحوم ایک اعلیٰ درجہ کے سرکاری افسر ہونے کے علاوہ انگریزی زبان کے بلندپایہ صاحب قلم اوراسلامیات کے بڑے فاضل تھے، ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد برسوں تک انگریزی میں ایک ہفتہ وار یا پندرہ روزہ(اب ٹھیک یادنہیں)رسالہ’’الاسلام‘‘کے نام سے کراچی میں اپنی ادارت میں شائع کرتے رہے۔ برصغیر کے اردو زبان کے نامورمحقق ادیب اور مصنف جناب مشفق خواجہ(کراچی)انہیں کے فرزند ارجمند ہیں۔
خواجہ عبدالرشید صاحب کی تعلیم تمام تر لاہور سے گورنمنٹ کالج میں ہوئی، سائنس میں گریجویشن کے بعد ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی، دینی اورعلمی ذوق موروثی تھا۔نمازروزہ کی پابندی کے ساتھ قرآن مجید سے عشق تھا۔اس زمانہ میں حضرت مولانا احمد علی صاحبؒ نے خاص انگریزی تعلیم یافتہ حضرات کے لیے درس قرآن کاایک نظم قائم کررکھا تھا جو بے حدمفید ثابت ہوااورپاکستان میں اس درس کے اثرات آج بھی نمایاں طورپرنظرآتے ہیں۔خواجہ صاحب اس حلقۂ درس میں پابندی اور بڑی لگن سے شریک ہوتے تھے۔ مولانا احمدعلی صاحب، مولانا عبیداﷲ سندھیؒ کے تلمیذ وتربیت یافتہ خاص اور داماد تھے، اس لیے مولانا کا درسِ قرآن درحقیقت مولانا سندھی کے قرآنی افکار ونظریات کاترجمان ہوتا تھا۔ اس تقریب سے خواجہ صاحب مولانا عبیداﷲ سندھی سے بھی آشنا متعارف اور عقیدت مند ہوگئے اورپھر جب مولانا پنجاب میں قیام پذیر ہوئے تو خواجہ صاحب نے بلاواسطہ مولانا سے صرف ہم نشینی کافیض نہیں اٹھایا بلکہ باقاعدہ تلمذ اختیار کرکے مولانا سے حضرت شاہ ولی اﷲؒ کے چند رسائل کادرس لیا۔
مولانا احمد علی صاحب اور مولانا عبیداﷲ سندھی کے تلمذ اوران کی صحبت و معیت نے خواجہ صاحب کے ذوق دینی وفکراسلامی کونہایت پختہ،منجھا ہوا اوروسیع کردیا۔اب وہ قرآن مجید کا مطالعہ کرتے تھے تومحض برائے ثواب نہیں بلکہ اس لیے بھی کہ ان کوقرآن میں حقائق ومعارف کاایک جہان نو ہی نظرآتاتھا۔اس بنا پر ان کاقرآن سے شغف بڑھ گیااوروہ روزانہ تلاوت بڑے شوق اورانہماک سے کرنے لگے۔
اگرچہ تعلیمی اعتبار سے ان کاخاص مضمون سائنس تھا لیکن علمی اوراسلامی ذوق وشوق کے باعث انھوں نے تاریخ، فلسفہ، تصوف، فارسی شعروادب، سیاسیات اورنفسیات کامطالعہ بھی بڑی دلچسپی اورتوجہ سے کیا تھا۔علامہ اقبال سے ان کو عشق تھا اوروہ کلام اقبال کے حافظ تھے۔مقالہ نگاری اورتصنیف وتالیف کا بھی شگفتہ ذوق رکھتے تھے، چنانچہ انھوں نے انگریزی اوراردو میں بڑی کثرت سے مضامین لکھے، ان کے متعدد وقیع مقالات برہان میں بھی شائع ہوکرارباب ذوق سے خراج تحسین حاصل کرتے رہے ہیں، مضامین کے علاوہ متعدد کتابیں بھی ان کے قلم سے نکلیں جن میں معارف النفس(اردو)فارسی شعراء پنجاب کا تذکرہ،فارسی زبان میں اورانگریزی زبان میں ایک کتاب جو ان کے مختلف مقالات کامجموعہ ہے۔مرحوم کو نادروجدید کتابوں اورنوادر اشیاء کے جمع کرنے کا بڑا شوق تھا۔ملازمت کے سلسلہ میں وہ مختلف ملکوں میں رہے تھے۔علاوہ ازیں دنیا کی سیاحت بھی خوب کی تھی۔اس لیے انھوں نے لاکھوں روپے کے صرف سے ایک عظیم الشان کتب خانہ اورایک نہایت وقیع عجائب خانہ(میوزیم)فراہم کیا تھا۔میوزیم اپنی زندگی میں ہی پاکستان گورنمنٹ کو دے گئے تھے اوروہ پاکستان کے نیشنل میوزیم میں ان کے نام سے محفوظ ہے، کتاب خانہ میں مطبوعہ کتابوں کے عظیم ذخیرہ کے علاوہ بعض نادر مخطوطات بھی تھے۔قرآن مجید کے بیسوں عجیب وغریب نسخے جو انھوں نے غیرملکی سفروں اورسیروسیاحت میں بصرف زرکثیر ادھراُدھر سے حاصل کیے تھے۔
جیسا کہ عرض کیاگیا مرحوم اپنے پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے اوروہ پرائیویٹ پریکٹس ہی کرتے تھے، لیکن عالمگیر جنگ دوم میں انھوں نے فوجی ملازمت کرلی، اور لفٹننٹ کرنل کے عہدہ تک پہنچے۔جنگ کے زمانہ میں مختلف محاذوں پررہے، اس سے ان کوجوتجربات ہوئے وہ اکثر ان کاتذکرہ کرتے تھے۔ ان کے فوج میں جانے کاواقعہ بھی سننے کے قابل ہے جسے انھوں نے راقم الحروف سے خودبیان کیاتھا۔انھوں نے کہا: کانگریس اورمسلم لیگ دونوں نے جنگ میں برطانوی حکومت کی مدد نہ کرنے کافیصلہ کیاتھا۔اس لیے ہندو اور مسلمان جنگ میں بھرتی کو ناپسند کرتے تھے اور میں انہی لوگوں میں سے تھا۔ لیکن ایک دن مولانا عبیداﷲ سندھی نے مجھ کو بلاکرحکم دیا کہ میں فوجی ملازمت اختیار کرلوں۔ میں نے عرض کیا:’’ایساکرنا توقومی مفاد کے خلاف ہوگا۔‘‘مولانا نے حسب عادت بگڑکرتندوتیز لہجہ میں فرمایا:بکنے دوکانگریس اورلیگ کو!دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کابننا لازمی اورناگریز ہے۔پس اگرمسلمان فوج میں بھرتی سے الگ رہے تو کل جب پاکستان بنے گا توہمارے پاس فوج کہاں ہوگی؟اس کے بعد فرمایا:اس لیے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مسلمان نوجوانوں کوزیادہ سے زیادہ فوج میں بھرتی ہوکرفوجی ٹریننگ لیناچاہیے تاکہ جنگ میں مرکھپ جانے سے جو نوجوان بچ رہیں گے وہ ہماری آزاد حکومت کے کام آئیں گے۔‘‘خواجہ صاحب سے یہ بات سن کر یادآیا کہ یہی بات مولانا عبیداﷲ سندھی نے متعدد بارہم لوگوں سے دلّی میں فرمائی تھی اورصرف یہی نہیں بلکہ انھیں اس پر اصرار بھی تھا۔
بہرحال اپنے شیخ ومرشد کے حکم کی تعمیل میں فوجی کمیشن میں شرکت خواجہ صاحب نے منظور کرلی اورجنگ کے دوران میں وہ مختلف محاذوں پرسرگرم عمل رہے۔جنگ کے اختتام پروہ میرٹھ چھاؤنی میں آگئے، یہاں ڈیڑھ دو برس رہے ہوں گے کہ برما میں ایک اسپتال کے منتظم اعلیٰ(Chief Administrator) بنا کر بھیج دیے گئے۔ملک کی آزادی اورتقسیم کے وقت یہ برمامیں ہی تھے لیکن یہ برما کے جس مقام پرتھے وہ کمیونسٹوں کاگڑھ تھا۔ان لوگوں نے لوٹ ماراور قتل و قتال کی وہ گرم بازاری کی کہ یہاں رہنا مشکل ہوگیا، ہزاروں خاندان اجڑ گئے اور لوگ وطن سے بے وطن ہوگئے خواجہ صاحب اور ان کی اہلیہ بھی یہاں سے جان بچاکر فرارہوئے اوربہ ہزاردقت ودشواری پاکستان پہنچے۔
یہاں ابتداء میں وہ لاہور کے میواسپتال کے انچارج رہے، پھر راولپنڈی بھیج دیئے گئے۔ چند برسوں کے بعد قائداعظم جناح اسپتال کے چیف ایڈمنسٹریٹر ہو کر کراچی آگئے اورآخر تک یہیں رہے۔ ملازمت سے سبکدوش ہوکر اپنے وطن لاہور واپس آگئے اور لاہور چھاؤنی کے علاقہ میں ایک نہایت شاندار اور خوبصورت کوٹھی تعمیرکرکے یہاں مستقلاً سکونت پذیر ہوگئے۔
مرحوم کے بھائی خواجہ عبدالوحید صاحب مرحوم سے تومیرا تعلق دیرینہ اور اس زمانے سے تھا جبکہ میں اورینٹل کالج لاہور میں پڑھتا تھا، لیکن خواجہ عبدالرشید صاحب سے تعلق کاآغاز برہان کے ذریعہ ہوا،وہ شروع سے برہان کے خریدار ہی نہیں ندوۃ المصنفین کے محسنوں میں بھی شامل اوررسالہ اورکتابوں دونوں کے بڑے قدرداں اورمداح تھے۔اس تقریب سے خواجہ صاحب کا ہم خدام ادارہ مولانا محمد حفظ الرحمن سیوہارویؒ،مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی اورخاکسار راقم سے عمیق تعلق خاطر پیداہوگیااوران سے باقاعدہ خط وکتابت شروع ہوگئی جس میں علمی اور اسلامی مسائل ومباحث پر گفتگو ہوتی تھی۔ اسی زمانہ میں برہان میں میرا مضمون ’’مولانا عبیداﷲ سندھی اوران کے ناقد‘‘سات قسطوں میں شائع ہوا تو اس وقت سے خواجہ صاحب کواس ہیچ مداں کے ساتھ غیرمعمولی انس اورتعلق خاطر پیدا ہوگیا، لیکن یہ سب کچھ غائبانہ تھا۔ان سے پہلی ملاقات(غالباً۱۹۴۵ء یا ۱۹۴۶ء) میں اس وقت ہوئی جب وہ مغربی لبا س میں ملبوس اچانک اپنی بیگم کے ساتھ دفتربرہان میں آدھمکے۔دفتر میں ہم سب سے ملاقات کی، پھر میاں بیوی دونوں میرے گھر پرآگئے دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے اورگھر میں ماحضرجوکچھ بھی تھا اسے ہنسی خوشی تناول کرکے واپس ہوئے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب خواجہ صاحب میرٹھ چھاؤنی میں جس کاابھی ذکر ہوا ہے، میرٹھ اوردلّی میں فصل ہی کتناہے؟اس پہلی ملاقات کے بعد پندرھویں بیسویں دن خواجہ صاحب اپنی کار میں دلّی آتے جاتے ملتے رہے۔ ان دنوں میں ایک واقعہ بھی پیش آیا کہ بھائی مولانا محمد حفظ الرحمن صاحب کی ایک بچی سخت بیمار ہوئی۔انھوں نے خواجہ صاحب کے علاج کی غرض سے میرٹھ میں ایک مکان کاانتظام کیااوربچی کومع اس کی والدہ کے وہاں رکھ دیا، ان کے ساتھ میں بھی کم وبیش ایک ہفتہ میرٹھ میں مقیم رہا،اس طرح خواجہ صاحب اوران کی بیگم جنھیں میں بھابھی کہتا تھا روزانہ ملاقات اورصحبت چند ساعت کی صورت پیدا ہوگئی اوران مجلسوں میں خواجہ صاحب کے بعض ایسے کمالات کابھی علم ہواجو پہلے معلوم نہیں تھے، مثلاًیہ کہ وہ موسیقی کے بھی بڑے ماہر فن اورفاضل تھے، موقع غنیمت جان کر میں نے اس میں ان سے دوتین سبق لیے اوران کے نوٹ لکھے۔
چند مہینوں کے بعد خواجہ صاحب برما چلے گئے، لیکن اب خواجہ صاحب سے جو قلبی اور روحانی تعلق پیداہوگیا تھا اورخواجہ صاحب میں طبعاً علمی واسلامی مسائل ومباحث میں غوروفکر کی جوخو تھی اس کی وجہ سے اوسطاًمہینہ میں دومرتبہ طویل خطوط برابر لکھتے رہے اورادھر پابندی سے میں بھی انھیں لکھتا رہا۔بدقسمتی سے تقسیم اوردوسرے حوادث کے باعث ان کے سب خطوط تومیرے پاس محفوظ نہیں رہے لیکن میرا ایک ایک خط انھوں نے محفوظ رکھا۔چنانچہ دوتین برس ہوئے انھوں نے انگریزی میں اپنے نام مشاہیر کے خطوط کی جوفہرست شائع کی ہے اس میں غالباً سب سے زیادہ تعدادمیرے ہی مکاتیب کی ہے۔
جیساکہ عرض کیاگیا،تقسیم کے وقت خواجہ صاحب برمامیں مقیم تھے، تقسیم کے نتیجہ میں دلّی کے مسلمانوں پرجوقیامت گزری اس کی خبریں ریڈیو اور اخبارات سے معلوم ہونے پر خواجہ صاحب اوران کی بیگم میری طرف سے کس درجہ فکر مند اور پریشان تھے اوراس سلسلہ میں ایک کیسا عجیب وغریب واقعہ پیش آیا تھا؟ اسے خود خواجہ صاحب کی زبان سے سنئے جس کو انھوں نے بڑی تفصیل سے تقسیم کے بعد اپنے پہلے خط میں لکھاتھا افسوس ہے یہ خط محفوظ نہیں ہے اس لیے اس کا خلاصہ اپنے لفظوں میں لکھتاہوں خواجہ صاحب نے لکھاتھا:
’’ہم دونوں روزانہ صبح اور شام بی۔بی۔سی سے خبریں سنتے تھے اوردلّی کی خبریں سن سن کر ہوش وحواس اڑے جاتے تھے، آخر۷/ستمبر کی خبروں میں جب یہ سنا کہ آج قرول باغ مسلمانوں سے خالی ہوگیاتو آپ کی اورمفتی صاحب کی طرف سے سخت تشویش لاحق ہوئی، کوئی اور ذریعہ توتھا نہیں، میں نے رفیع احمد قدوائی اور مولانا ابوالکلام آزاد کوالگ الگ دوارجنٹ ٹیلی گرام بھیجے اوران سے آپ لوگوں کی خیریت طلب کی۔مگران کاجواب نہیں آیا توپھر میں نے دوسرے ذرائع اختیار کیے، مگر جب کہیں سے کوئی اطلاع نہیں ملی تھی توہم دونوں دل مسوس کررہ گئے۔‘‘
اس کے بعد(غالباً۱۸/اکتوبر۱۹۴۷ء)میں ایک دن بقرعید کاتھا اور وقت مغرب کے بعد کا، ہم دونوں میاں بیوی اپنی کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں پاس ہی ریڈیو رکھا ہواہے اوراس میں دلّی کاپروگرام سناجارہا ہے، اچانک ریڈیو سے اعلان ہوتاہے اب آپ دلّی سے عید قرباں پرسعید احمد اکبرآبادی کی تقریر سنئے، یہ سننا تھا کہ خوشی کی ایک لہر اٹھی اوررگ وپے میں دوڑ گئی لیکن ساتھ ہی خیال ہواکہ یہ تقریر کہیں پہلا کوئی ریکارڈ تونہیں ہے؟اب ہم دونوں اندرونی طورپر امیدوبیم کی کشمکش میں مبتلا ہوگئے، ایک رنگ آتااور ایک جاتا تھا اوراسی حالت میں آپ کی(یعنی میری)تقریر سن رہے تھے، یہاں تک کہ آپ نے صفحہ الٹا اور اس کی آواز ریڈیو پرسنی تواب اس یقین سے کہ یہ تقریر ریکارڈ نہیں بلکہ خود آپ بول رہے ہیں خوشی سے یک لخت صوفہ پراچھل پڑے، دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اورسجدۂ شکر بجالائے۔اب میں نے فوراً آل انڈیا ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر سے تارکے ذریعے آپ کاپتہ دریافت کیا،ڈائریکٹر نے میراٹیلی گرام آپ کوپہنچا دیا اورآپ نے مجھے خط لکھا جس سے آپ سب کی خیریت معلوم کرکے اطمینان ہوا۔‘‘
خواجہ صاحب وضع قطع اوررہن سہن کے اعتبارسے ہوبہو ایک مغربی انسان تھے لیکن اس وضع قطع اورطرز معاشرت کے ایسے حضرات میں نے بہت کم دیکھے ہیں جوخواجہ صاحب کی طرح نماز،روزہ،تلاوت اور اورادو وظائف کے پابند ہوں اوررمضان کے ماہ مقدس میں شب بیداری کرکے روحانی انبساط ونشاط خاطر محسوس کرتے ہوں، ان کادل اسلام اورمسلمانوں کے درد سے بھرا ہوا تھا۔ پاکستان بڑے دم خم اورچاؤ چوچلے سے بنا، لیکن بنتے ہی اپنے مقصد زندگی اور نصب العین حیات کویک قلم فراموش کربیٹھا۔دنیا طلبی،زرپرستی اورجاہ پسندی کا اس پر ایسا غلبہ ہواکہ بقول مومن ؂
پیہم سجود پائے صنم پر دم وداع
مومنؔ خدا کو بھول گئے اضطراب میں
اورایک پاکستان کیا؟ پوراعالم اسلام اوراس کے دین دار سب طبقات اس حمام زرپرستی میں ننگے ہیں، خواجہ صاحب کواس کاسخت ملال اور رنج تھا۔میں نے۷۶ء کے اپنے سفرنامۂ پاکستان میں لکھاہے کہ ایک دن خواجہ صاحب علی الصبح میرے ہوٹل تشریف لے آئے اور عالم اسلام کے حال اورمستقبل پر گفتگوشروع کردی، گفتگو کرتے کرتے انھوں نے قرآن مجید کی وہ آیت پڑھی جس میں ہے کہ قیامت کے دن رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اﷲ تعالیٰ سے اپنی امت کی شکایت کرتے ہوئے فرمائیں گے:’’اے میرے رب ان لوگوں نے قرآن کوپس پشت ڈال رکھا تھا۔‘‘خواجہ صاحب نے یہ آیت ابھی پوری بھی نہیں کی تھی کہ ان پرگریہ طاری ہوگیااور آنسوؤں کا سیلاب ان کے دیدۂ تر سے پھٹ پڑا۔
خواجہ صاحب میں جذباتیت شدید قسم کی تھی، اس بناپر بعض اوقات ان کے افکار وخیالات نقطۂ اعتدال وتوازن سے منحرف ہوجاتے تھے، لیکن مجھ پر ان کو اعتماد تھا اس لیے میں خطوط میں اس کی اصلاح کرتارہتا تھا۔مرحوم اس بات کے خود معترف بھی تھے، چنانچہ ایک خط میں انھوں نے لکھا:شروع میں مولانا ابوالکلام آزاد سے بہت متاثر تھا لیکن بعد میں یہ تاثرکم ہوگیا، البتہ مولانا عبیداﷲ سندھی، ڈاکٹر اقبال اور آپ کے افکار وخیالات کانقش میرے دل ودماغ پربہت گہرا ہے۔‘‘
خواجہ صاحب پاکستان کی ایک اہم اورنمایاں علمی وادبی شخصیت تھے اور اس لیے ان کی وفات ایک عظیم قومی حادثہ بھی ہے لیکن کیا کیجئے بقول غالب ؂
صبر کرتے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
میاں اسلم کاخط ملتے ہی میں نے بھابی صاحبہ کو (جواخلاق وعادات اور حسن ذوق میں سچ مچ اپنے مرحوم شوہر کاپرتوہیں)تعزیت نامہ لکھا تھا: بھابی!میں اپنی رفیقۂ حیات کی آغوش محبت سے پہلے ہی محروم ہوگیا تھا، جس کازخم مندمل ہونے کے بجائے ہردم اورہرآن تازہ ہے، صدحیف کہ اب آپ کے سرسے بھی آپ کے شریک زندگی کاسایۂ رحمت والفت اُٹھ گیا۔
آعندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں
توہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
رحمہ اﷲ رحمۃً واسعۃ۔ً [مئی۱۹۸۴/۸۳ء]

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...